عمر خالد خراسانی کو ٹی ٹی پی سے نکال دیا گیا

اپ ڈیٹ 07 ستمبر 2014
سربراہ تحریک طالبان پاکستان ملا فضل اللہ۔ فوٹو اے ایف پی
سربراہ تحریک طالبان پاکستان ملا فضل اللہ۔ فوٹو اے ایف پی

پشاور: کالعدم تحریک طالبان پاکستان(ٹی ٹی پی) کے سربراہ ملا فضل اللہ نے مہمند ایجنسی کے سربراہ عمر خالد خراسانی کو تنظیم سے فارغ کردیا ہے ۔

عمر خراسانی کو نکالے جانے کے بعد تحریک طالبان میں اختلافات ایک بار پھر کھل کر سامنے آ گئے ہیں۔

طالبان ذرائع کے مطابق ٹی ٹی پی کے سربراہ ملافضل اللہ کی زیر قیادت تحریک طالبان کا اہم اجلاس ہوا ہے جس میں اہم کمانڈروں سمیت دیگر رہنماء شریک تھے۔

ٹی ٹی پی کے اندرونی ذرائع نے ڈان ڈاٹ کام کو بتایا کہ ملا فضل اللہ کی سربراہی میں طالبان شوریٰ کا اجلاس ہوا جس میں مہمند ایجنسی کے امیر محمد عرف خالد خراسانی کو نکالنے اور ان کی ٹی ٹی پی کی رکنیت ختم کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔

اجلاس میں کہا گیا کہ خراسانی نے افغان طالبان کے سربراہ ملا عمر کے خلاف سازش کی اور جناد حفضہ اور احرار الہند نامی خفیہ تنظیموں سے روابط رکھنے کے ساتھ ساتھ انہوں نے جماعت الاحرار نامی باغی گروہ بھی بنا لیا ہے۔

اجلاس میں کہا گیا کہ اس سے تحریک طالبان پاکستان کی تحریک کے مقاصد کو نقصان پہنچ رہا ہے۔

گزشتہ کچھ دنوں میں عمر خالد خراسانی اور ان کے مہمند ایجنسی کے ساتھیوں نے ٹی ٹی کی قیادت پر طالبان کے نظریات سے منہ موڑنے کا الزام عائد کرتے ہوئے ٹی ٹی پی میں جماعت الاحرار نامی باغی گروپ قائم کیا تھا۔

اس گروہ نے اعلان کیا تھا کہ وہ ملا فضل اللہ کو اب امیر تسلیم نہیں کریں گے اور نہ ہی ان کی اطاعت کریں۔

جماعت الاحرار نے فاٹا اور ملاکنڈ ڈویژن کی دیگر ہم خیال جماعتوں کی حمایت کا دعویٰ بھی کیا تھا۔

طالبان تقسیم

طالبان اب واضح طور پر دو گروہوں میں تقسیم ہو چکی ہے۔

ایک گروپ کی قیادت ملا فضل اللہ کر رہے ہیں جنہیں گزشتہ سال نومبر حکیم اللہ محسود کی ڈرون حملے میں ہلاکت کے بعد امیر چنا گیا تھا۔

دوسرے کی امارت عمر خالد خراسانی کے پاس ہے جو جماعت الاحرار نامی باغی گروپ بنایا ہے۔

فضل اللہ تحریک طالبان پاکستان کے پہلے سربراہ ہیں جن کا تعلق محسود قبیلے سے نہیں ہے اور وہ اس قبیلے پر اپنی حکمرانی کی کوششوں میں مصروف ہیں۔

حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کے بعد انہیں تحریک طالبان پاکستان کا سربراہ بننے کے لیے کئی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا اور اس کے بعد سے وہ افغانستان میں روپوش ہیں۔

خراسانی اس سے قبل بھی الحرار الہند نامی گروپ کی سربراہی کر چکے ہیں جو رواں سال حکومت اور طالبان کے درمیان ہونے والے سیز فائر کے درمیان ہونے والے حملوں کی ذمے داری قبول کرتا رہا ہے۔

ماہرین کا ماننا ہے کہ خراسانی کے القاعدہ اور ایمن الظواہری سے قریبی تعلقات ہیں۔

تبصرے (1) بند ہیں

Iqbal Jehangir Sep 08, 2014 04:41pm
تحریک طالبان پاکستان کا تقریباً خاتمہ ہو چکا ہے۔ اس دہشت گرد تنظیم کا کمزور قیادتی ڈھانچہ ٹوٹ پھوٹ چکا ہے اور انتشار اور افراتفری نے تحریک طالبان پاکستان کی صفوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ تحریک طالبان میں قیادت کا بحران پیدا ہو گیا ہے اور خراسانی گروپ ملا فضل اللہ کو امیر ماننے کے لئے تیار نہ ہے۔ اس پر ملا فضل اللہ نے عمر خراسانی کو تحریک طالبان سے خارج کر دیا ہے۔تحریک طالبان میں قیادت کی اس نئی جنگ اور طاقت کے حصول کے لیے ایک نئی رسہ کشی کا آغاز ہوگیا ہے،جس سے تحریک طالبان کی طاقت کو زبردست دہچکا لگا ہے۔ ملا فضل اللہ ایک غیر حاضر کماندار ہیں جو ملک سے باہر بیٹھے ہیں،ان کا دوسرے کمانڈروں پر اثر نہ ہونے کے برابر ہوگا۔کیونکہ آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل۔ پنجابی طالبان بھی تحریک طالبان سے خوش نہ ہیں اور گروپ کے سربراہ عصمت اللہ معافیہ نے ایک پمفلٹ میں کہا کہ ہم اپنی جہادی سرگرمیاں خطے کی بگڑتی ہوئی صورت حال اور پاکستان کی جہادی موومنٹ کی اندرونی صورت حال کے باعث افغانستان تک محدود کررہے ہیں۔ سیکورٹی تجزیہ کار طلعت مسعود نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ یہ اعلان ٹی ٹی پی کے لیے ایک بڑا دھچکا ہے جس میں پہلے ہی سے پھوٹ پڑی ہوئی ہے اور یہ تنظیم ٹوٹنے لگی ہے۔انہوں نے کہا کہ ٹی ٹی پی متعدد گروپوں نے ملا فضل اللہ کو بطور سربراہ قبول نہیں کیا ہے جس کے باعث سنجیدہ نوعیت کے اختلافات سامنے آرہے ہیں۔ طالبان عوام میں تیزی سے اپنی حمایت کھو رہے ہیں۔ اندرونی خلفشار اور قیادتی بحران کی وجہ سے تحریک طالبان پاکستان کا تقریباً خاتمہ ہو چکا ہے اور اس دہشت گرد تنظیم کا کمزور قیادتی ڈھانچہ