ماضی سے سبق نہیں سیکھا گیا

09 ستمبر 2014
وزیرآباد میں سیلاب کے بعد لوگ گھر کی چھت پر کھڑے امداد کے منتظر— اے پی فوٹو
وزیرآباد میں سیلاب کے بعد لوگ گھر کی چھت پر کھڑے امداد کے منتظر— اے پی فوٹو

ایک بار پھر بارشوں نے پاکستان کی آفات سے نمٹنے کی قابلیت کا پول کھول دیا ہے۔

مون سون کی حالیہ بارشوں نے پنجاب کے بڑے شہروں میں جو تباہی مچائی، اس سے یہ بات واضح ہے کہ شہر بھی شدید بارشوں کے ممکنہ خطرات سے نمٹنے کے لیے تیار نہیں تھے۔

ٹی وی پر سیلابی ریلوں کے گھروں میں داخل ہونے کے، لوگوں کے چار چار فٹ گہرے پانی میں چلنے پھرنے کے، گھروں کی چھتوں سے لوگوں کو ہیلی کاپٹر کے ذریعے نکالنے کے، اور لاہور کی ڈوبی ہوئی سڑکوں اور انڈرپاسز کے مناظر بار بار دکھ رہے ہیں۔ سویلین انتظامیہ نے اپنے اہلکاروں اور موٹر پمپوں کے ذریعے اس قدرتی آفت سے نمٹنے کی کوشش کی، تاکہ پانی کو وقت پر نکالا جا سکے، پر ناکام رہی۔

دور دراز کے دیہاتوں میں ہونے والی تباہی، رابطہ پلوں کا ٹوٹنا، اور لینڈ سلائیڈنگ وغیرہ کی تو کہانی ہی الگ ہے۔

لیکن پاکستان کے محکمہ موسمیات کے ڈپٹی ڈائیریکٹر جنرل غلام رسول کے مطابق موسم کا یہ حال آئندہ سالوں میں معمول بن جائے گا، جبکہ اگر پلاننگ اور گورننس کی خامیوں کو درست نا کیا گیا، تو یہ موسمیاتی تبدیلی انتہائی خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔

6 ستمبر تک پنجاب اور پاکستانی کشمیر میں اموات کی تعداد 100 سے تجاوز کر گئی تھی۔ وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے فوری طور پر ہلاک شدگان کے لیے پانچ لاکھ روپے، اور حادثات میں زخمی ہونے والوں کے لیے 1 لاکھ روپے کی امداد کا اعلان بھی کر دیا۔

دی تھرڈ پول ڈاٹ نیٹ سے بات کرتے ہوئے غلام رسول نے کہا، کہ اس شدید بارش کی وجہ موسم میں تبدیلی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اس دفعہ بارشیں اپنی معمول کی مدت سے زیادہ دیر تک رہیں۔

انہوں نے کہا کہ نارمل اور معمول یہ ہوتا، کہ بنگال سے آنے والا مون سون سسٹم انڈیا کو کراس کر کے سندھ میں داخل ہوتا، اور پھر شمال کی جانب رخ کرتا، اور اس دوران ہمالیہ کی ترائی تک پہنچنے سے پہلے پنجاب میں بارش برساتا ہوا جاتا۔

غلام رسول نے بتایا، کہ اس دفعہ مون سون کا سسٹم پنجاب کے میدانی علاقوں کے اوپر زیادہ دیر تک قائم رہا، جہاں ٹھنڈی ہوائیں سطح کے تیز درجہ حرارت کے ساتھ مل کر شدید بارشوں کا سبب بنیں۔

انہوں نے کہا کہ مستقبل میں شدید بارشوں کی وجہ سے شہری علاقوں میں سیلاب معمول بن سکتے ہیں۔

دوسری جانب سماجی تنظیم Strengthening Participatory Organization کے سربراہ نصیر میمن کے مطابق موسمیاتی تبدیلیوں کو اس طرح کے واقعات کا سبب قرار دینا مشکل ہے۔ ان کے نزدیک ایسی شدید بارشیں شہری انتظامیہ کی بارشوں سے نمٹنے کی صلاحیتیں چیک کرنے کا ایک قدرتی ذریعہ ہے۔ دی تھرڈ پول ڈاٹ نیٹ سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ زمینوں کا نامناسب استعمال، کمزور شہری انفراسٹرکچر، بے ترتیب اور بغیر پلاننگ کے قائم رہائشی علاقے ہی بارشوں کے آفت میں تبدیل ہونے کی وجہ ہیں"۔

چناب کنارے واقع شہروں، اور اسلام آباد کا موازنہ کرتے ہوئے انکا کہنا تھا کہ وفاقی دار الحکومت میں بھی اتنی ہی بارشیں ہوئیں، لیکن کسی جانی نقصان کی اطلاع نہیں ملی۔ جبکہ شدید متاثر ہونے والے شہروں میں لاہور، گوجرانوالہ، اور سیالکوٹ شامل ہیں جو اسلام آباد سے بالترتیب 268، 202، اور 192 کلومیٹر کے فاصلے پر ہیں۔

نصیر میمن، جو Malevolent Floods of Pakistan نامی کتاب کے مصنف بھی ہیں، کہتے ہیں کہ اس کی بنیادی وجہ انفراسٹرکچر میں فرق، اور ریگولیشنز کی پابندی ہے۔ ان کے مطابق سیلاب کی زد میں واقع میدانی علاقوں میں موجود گنجان آبادیوں نے لوگوں کی مشکلات میں اضافہ کیا۔

نصیر میمن کی تائید کرتے ہوئے غلام رسول کا کہنا تھا، کہ ہر جگہ نئی آبادیاں قائم ہو رہی ہیں، لیکن کچھ بھی ریگولیٹڈ نہیں، جبکہ ڈیویلپرز کے لیے تعمیراتی کام کراتے وقت قانون کی پابندی کرنا بھی ضروری نہیں ہے۔ نئی ہاؤسنگ اسکیموں میں اکثر یا تو ڈرینج سسٹم نہیں ہوتا، یا اس میں اتنے چھوٹے پائپ استعمال کیے جاتے ہیں جو طوفانی بارشوں کا پانی نہیں سنبھال سکتے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی کلائیمیٹ پالیسی بہت حکمت سے بنائی گئی ہے، لیکن وہ صرف کاغذوں تک محدود ہے۔ ان کے مطابق پاکستان سب سے بہترین پالیسی ساز ہے، لیکن پالیسیوں کے نفاذ کی صورت حال اتنی ہی خراب ہے۔

شہری منصوبہ بندی کے ماہر فرحان انور، جو کہ Urban Resilience and Climate Change نامی کتاب کے مصنف بھی ہیں، نے کہا کہ حالیہ تباہیوں کی وجہ تحقیق کے بغیر کیے گئے اقدامات ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پر خطر علاقوں کی ایسی کوئی پروفائل موجود نہیں ہے، جس میں سیلاب کی زد میں موجود لوگوں اور اثاثوں کا پتہ لگایا جا سکے، تاکہ ان کو لاحق خطروں کو کم کیا جا سکے۔

انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ کوئی مالیاتی انشورنس سسٹم موجود نہیں ہیں۔ "اکثر اوقات ایسی آفات نا صرف ان کے گھروں کو تباہ کرتی ہیں، بلکہ ان کے کمائی کے ذریعوں یعنی کھیتوں اور مویشیوں کو بھی نقصان پہنچاتی ہیں، جن کی وجہ سے ان کی مشکلات دوبالا ہو جاتی ہیں"۔ انہوں نے حکومت پر زور دیا، کہ وہ سیلاب کے امکانات کا اندازہ لگا کر ایک فلڈ انشورنس اسکیم شروع کرے۔

اگرچہ کہ شارٹ ٹرم ایمرجنسی رسپانس اور متاثرین کو شیلٹر فراہم کر دیا جاتا ہے، لیکن اس کے باوجود اداروں اور قانونی فریم ورک میں متاثرہ علاقوں سے لوگوں کو نکالنے کی منصوبہ بندی اور رسک مینجمنٹ پلان کی کمی ہے۔

فرحان انور نے اس بات پر زور دیا، کہ مستقبل میں طرح کے ممکنہ سیلابوں سے نمٹنے کے لیے ان کی شدت اور کثرت کا اندازہ لگایا جائے۔

انہوں نے کہا کہ آبادیوں کو لاحق خطرے کا تعین کرنے کے لیے ایک Index of flood vulnerability بنایا جائے، جس پر مختلف آبادیوں کو ان کو لاحق سیلابی خطرے کے حساب سے ترتیب دیا جائے۔

اس کے علاوہ، انہوں نے کہا، ڈرینج سسٹم کے تفصیلی معائنے کی ضرورت ہے، تاکہ اسے سیلابی پانی کے نکاس کے قابل بنایا جا سکے۔ جبکہ عوام کو ابتدائی طبی امداد، ریسکیو، اور نقل مکانی وغیرہ کے طریقوں کی واقفیت دینا ضروری ہے۔ شہروں کے مخصوص علاقوں میں کھلی اور سبز جگہوں میں اضافہ بھی سیلاب سے نمٹنے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔

انگلش میں پڑھیں۔


بشکریہ دی تھرڈ پول ڈاٹ نیٹ۔

تبصرے (0) بند ہیں