نئی دہلی: اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ جنوبی ایشیا میں لڑکیوں کی کُل آبادی میں سے تقریباً نصف کی شادیاں 18 سال سے کم عمر میں کر دی جاتی ہیں۔

جمعرات کو اقوام متحدہ کے زیلی ادارے یونیسیف نے کی جانب سے شائع کردہ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ خطے میں اب بھی دس لاکھ سے زائد نومولود صحت کی ناقص صورتحال کے باعث ہلاک ہو جاتے ہیں۔

یونیسیف ساؤتھ ایشیا کے ریجنل ڈائریکٹر کرین ہلشوف نے کہا ہے کہ دنیا بھر میں زچگی یا بچوں کی پیدائش کے حوالے سے جنوبی ایشیا خطرناک ترین خطہ ہے جہاں دوسرے نمبر پر سب سے زیادہ نومولود کی اموات ہوتی ہیں۔

یونیسیف کے مطابق بہت بچیوں کو جنس کا معلوم ہونے پر پیدائش سے قبل ہی قتل بھی کر دیا جاتا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ خصوصاً ہندوستان میں اگر والدین کو علم ہو جائے کہ ان کی پیدا ہونے والی اولاد لڑکی ہے تو وہ اسے پیدائش سے قبل ہی مار دیتے ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ جنس کی بنیاد پر اولاد خصوصاً لڑکوں کا انتخاب سماجی، معاشی، ثقافتی اور سیاسی سطح پر معاشرے میں سرایت کردہ ذہنی سطح کا مظہر ہے جہاں خواتین اور لڑکیوں سے واضح طور پر امتیازی سلوک روا رکھا جاتا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ اس طرح کے اقدامات سے ہی لڑکیوں کی اسمگلنگ یا جبری شادی کے واقعات پیش آتے ہیں۔

اقوام متحدہ کے مطابق ہر پانچ میں سے ایک لڑکی کی 15 سال کی عمر تک پہنچنے سے قبل ہی کر دی جاتی ہے جو دنیا بھر میں بچوں کی شادی(چائلڈ میرج) کی سب سے بڑی شرح ہے۔

خطے میں بچوں کی شادی کے حوالے سے سب سے بلند شرح کے حامل ملک بنگلہ دیش میں ہر تین سے دو لڑکیوں کی بلوغت سے قبل ہی شادی کر دی جاتی ہے جس کے باعث خواتین کا جنسی استحصال اور ان پر گھریلو تشدد کیا جاتا ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ جنوبی ایشیا میں بچوں میں غذائی قلت کے باعث پانچ سال سے کم عمر تقریباً 40 فیصد بچوں کی صحیح نشوونما نہیں کی جاتی۔

یاد رہے کہ دنیا بھر میں صحیح نشوونما نہ ہونے کے باعث ہر سال تقریباً دس لاکھ بچے ہلاک ہو جاتے ہیں یا اس کے ان کی صحت پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ 1990 میں یہ شرح 60 فیصد کے لگ بھگ تھی لیکن اب اس میں کمی آئی ہے اور اب یہ شرح 40 فیصد سے کم ہے۔

تاہم خطے میں شدید عدم مساوات ہے اور پانچ سال سے کم عمر تقریباً آدھے ہندوستانی بچے نشونما کی شدید کمی کا شکار ہیں جن کی تعداد چھ کروڑ سے زائد بنتی ہے۔

یہ رپورٹ بچوں کے حقوق کے حوالے سے کنونشن کی 25ویں سالگرہ کے موقع پر جاری کی گئی جس میں مزید کہا گیا ہے کہ گزشتہ کچھ سالوں میں جنوبی ایشیا کے تمام آٹھ ملکوں پاکستان، ہندوستان، افغانستان، نیپال، بھوٹان، مالدیپ، سری لنکا اور بنگلہ دیش میں بچوں کی زندگیوں میں واضح بہتری دیکھی گئی ہے۔

تاہم رپورٹ میں جنسی سطح پر امتیازی سلوک اور دن بدن بگڑتی صورتحال پر انتہائی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا کہ اس سلسلے میں ترقی نہ ہونے کے برابر ہے جبکہ حکومت کی جانب سے شعبہ صحت، تعلیم اور معاشرتی سطح پر خرچ کی جانے والی رقم دیگر خطوں سے کہیں کم ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں