نائنٹیز کا پاکستان - 7

29 ستمبر 2014
بینظیر بھٹو اپنی والدہ نصرت بھٹو کے ہمراہ — فائل فوٹو
بینظیر بھٹو اپنی والدہ نصرت بھٹو کے ہمراہ — فائل فوٹو

یہ اس بلاگ کا ساتواں حصّہ ہے۔ پہلے، دوسرے، تیسرے، چوتھے، پانچویں، اور چھٹے حصے کے لیے کلک کریں۔


بینظیر صاحبہ کے دوسرے دور حکومت میں عدلیہ کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کا رواج عروج کو پہنچ گیا۔ ایک جج صاحب کو صرف اس جرم میں برطرف کر دیا گیا کہ انہوں نے نواز شریف کے والد کو ضمانت پر رہا کیا تھا۔

حالات اس نہج پر پہنچ گئے کہ پنجاب کی صوبائی حکومت نے نواز شریف پر بغاوت کا مقدمہ درج کروا دیا۔ مہاجر قومی تحریک اور مسلم لیگ نواز کے کئی ارکان اسمبلیوں کے رکن ہونے کے باوجود جیل کاٹتے رہے۔

جون 1994ء میں جسٹس نسیم حسن شاہ کی مدت ملازمت پوری ہونے پر سینیئر ترین جج جسٹس جان کی جگہ سجاد علی شاہ صاحب کو چیف جسٹس کا عہدہ سونپا گیا۔ پنجاب اور سندھ کے چیف جسٹس صاحبان کو برطرف کر کے اپنی جماعت سے ہمدردی رکھنے والے ججوں کو نوازا گیا۔ اس کے بعد سندھ ہائی کورٹ میں نو اور لاہور ہائی کورٹ میں بیس نئے جج بھرتی کیے گئے جن میں اکثریت کا تعلق پیپلز پارٹی سے تھا۔

لاہور ہائی کورٹ کے ان ججوں میں سے ایک صاحب نے زندگی میں پہلی دفعہ اعلیٰ عدالت کی عمارت دیکھی تھی جبکہ دیگر افراد میں سے پانچ نے بحیثیت وکیل کبھی ہائی کورٹ میں مقدمہ پیش نہیں کیا تھا۔ بلوچستان کے علاوہ تمام صوبائی اعلیٰ عدالتوں میں قائم مقام چیف جسٹس مقرر کیے گئے۔

اس بندر بانٹ کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا اور یہ کیس پاکستان کی قانونی تاریخ میں ’ججز کیس‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ جسٹس سجاد علی شاہ نے فیصلہ کیا کہ آئندہ ججوں کی تقرری کے لیے اعلیٰ عدلیہ سے مشورہ کرنا ضروری ہوگا، قائم مقام چیف جسٹس زیادہ سے زیادہ نوے دن تک کام کر سکتے ہیں اور ان کے مشورے پر نئے جج تعینات نہیں کیے جا سکتے، چیف جسٹس کی تقرری کے موقعے پر سینیئر ترین جج کو ترجیح دی جائے گی، سپریم کورٹ کے ججوں کو ہائی کورٹ میں تعینات نہیں کیا جائے گا اور حکومت کسی جائز وجہ کے بغیر کسی اعلیٰ عدالت کے جج کا تبادلہ نہیں کرے گی۔

اس تاریخ ساز مقدمے کی سماعت کے دوران اور فیصلے کے بعد ججوں کو تنگ کرنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی۔ جسٹس سجاد علی شاہ کی سرکاری گاڑی اغوا کر لی گئی، ان کی بیٹی اور داماد کو ہراساں کیا گیا، جسٹس ناصر اسلم زاہد کو شریعت عدالت بھیج دیا گیا، جسٹس فضل الہٰی کے بیٹے کو چترال سے کچھ فاصلے پر واقع قصبے میں تعینات کر دیا گیا۔

ان تمام حرکتوں کے باوجود اس فیصلے پر عمل کرتے ہوئے جون میں صوبائی اور وفاقی عدالت سے چوبیس ججوں کو برطرف کر دیا گیا کیونکہ ان کی تقرری کے لیے حکومت نے عدالت عظمی سے مشورہ نہیں کیا تھا۔

جون ہی میں ایک برطانوی اخبار نے یہ انکشاف کیا کہ محترمہ اور انکے شوہر نے پچیس لاکھ پونڈ کے عوض برطانوی شہر سرّے میں ایک محل نما مکان خریدا ہے۔ وزیر اعظم کے ترجمان نے اس خبر کی تردید کی لیکن برطانوی اخبار اپنے موقف پر ڈٹا رہا اور یہ انکشاف بھی کیا کہ زرداری صاحب نے لندن کے پوش علاقے میں دو فلیٹ خریدے جن کی ادائیگی بیرون ملک واقع بینک اکاؤنٹ سے کی گئی۔ اپوزیشن ممبران نے اسمبلی کے اجلاس کے دوران اس برطانوی اخبار کی کاپیاں لہرائیں تو جواب میں محترمہ نے عورتوں کے خلاف بے بنیاد الزام لگانے کو مذہبی احکامات کے منافی قرار دیا۔

اپوزیشن کے سربراہ نواز شریف نے قومی اسمبلی کے سپیکر کو وزیر اعظم کے خلاف آئین کی شق 62، 63 کی خلاف ورزی کرنے کی مد میں نااہل قرار دیے جانے کی درخواست جمع کروا دی۔

اگست 1994ء میں وزیر اعظم نے کابینہ میں توسیع کی اور آصف علی زرداری صاحب سمیت نواز کھوکھر کو وزارت عطا کی گئی۔ اسی مہینے نیپرا کے چیئر مین ڈاکٹر گلفراز احمد کو کوٹ ادو پاور پلانٹ کی نجکاری پر تنقید کے جرم میں ان کے عہدے سے برطرف کر دیا گیا۔ ڈاکٹر صاحب نے اخباری بیان میں فرمایا تھا کہ نجکاری کے نتیجے میں اسی پاور پلانٹ سے دو گنا مہنگی بجلی حاصل کی جائے گی۔

14 ستمبر 1996ء کو بینک دولت پاکستان نے روپے کی قیمت میں کمی کا اعلان کیا۔ IMF نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ زرعی آمدنی پر ٹیکس نافذ کیا جائے، فوج پر خرچ کم کیا جائے، برآمدات کا ٹیرف کم کیا جائے، جنرل سیلز ٹیکس کا نفاذ کیا جائے اور مختلف صنعتوں کو حاصل ٹیکس چھوٹ کو ختم کیا جائے۔

20 ستمبر 1996 ء کی رات، وزیر اعظم کے بھائی مرتضی بھٹو کو ان کے گھر کے سامنے گولیوں کا نشانہ بنایا گیا۔ 17 ستمبر کو مرتضیٰ بھٹو کے قریبی ساتھی علی سونارا کو پولیس نے سیما اور عنایت حسین (پیپلز پارٹی شہید بھٹو کے عہدہ داران) کے گھر سے گرفتار کیا۔ علی سونارا پر دہشت گردی کے واقعات میں ملوث ہونے کا الزام تھا۔ علی کو پولیس کے تشدد اور ہیبت ناک طریقہ ء تفشیش سے بچانے کی تگ و دو میں پیپلز پارٹی شہید بھٹو کے راہنما مرتضیٰ نے پہلے پہل سی آئی اے کے گارڈن تھانے کا رخ کیا لیکن وہاں سے مطلوبہ معلومات حاصل نہ ہوئیں۔

مرتضیٰ اور ان کے ساتھ موجود مسلح گارڈز مایوسی کی حالت میں ایس ایس پی ساؤتھ تھانے پہنچے لیکن وہاں موجود پولیس اہلکار انہیں علی سونارا کی گرفتاری کے متعلق تسلی بخش جواب مہیا نہ کر سکے۔ البتہ ایک پولیس اہلکار نے مرتضیٰ پر پستول تاننے کی کوشش کی جس کے باعث پولیس اور مرتضیٰ کے گارڈز کے درمیان تو تو میں میں شروع ہوئی۔ اس چپقلش کے دوران مرتضیٰ نے ایک پولیس سپرٹنڈٹ کو گریبان سے پکڑا اور علی سونارا کے متعلق معلومات فراہم کرنے کا مطالبہ کیا۔ کچھ دیر گرما گرمی کے بعد مرتضیٰ کا قافلہ نیپئر روڈ تھانے کی جانب رواں ہوا لیکن وہاں بھی انہیں مطلوبہ معلومات نہ مل سکیں۔

20 ستمبر کی صبح تک 70 کلفٹن(مرتضیٰ کی رہائش گاہ) کے اردگرد چار بکتر بند گاڑیاں تعینات کی جا چکی تھیں۔ اس دوران وزیر داخلہ نصیر اللہ بابر نے اسمبلی میں تقریر کے دوران علی سونارا کی گرفتاری کے باعث دہشت گردی کے واقعات میں اضافے کی پیش گوئی کی۔ 20 ستمبر کی دوپہر مرتضیٰ بھٹو نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سندھ کے وزیر اعلیٰ عبداللہ شاہ کی ہدایت پر پولیس کے اعلیٰ ارکان واجد درانی اور شعیب سڈل ان کی جان کے درپے ہیں۔

پریس کانفرنس کے بعد مرتضیٰ اپنے قافلے کے ہمراہ سرجانی ٹاؤن میں اپنی جماعت کے جلسے سے خطاب کرنے کے لیے روانہ ہوئے۔ جلسے سے واپسی پر مرتضیٰ کی گاڑی کو کلفٹن کے علاقے میں روکا گیا اور پولیس کی فائرنگ کے باعث چھ گارڈز انتقال کر گئے جبکہ مرتضیٰ کو زخمی حالت میں قریبی ہسپتال لے جایا گیا۔ ہیرالڈ کی تحقیق کے مطابق مرتضیٰ کے قافلے کی جانب سے ایک گولی چلائی گئی جس کے جواب میں پولیس نے اپنی کارروائی کی۔ جائے وقوعہ پر حق نواز سیال اور شاہد حیات نامی پولیس افسران موجود تھے۔ فائرنگ کے دوران سٹریٹ لائٹیں بند تھیں اور واقعے کے پندرہ منٹ بعد جائے وقوعہ کو پانی سے دھویا جا چکا تھا۔

عینی شاہدین کے مطابق میر مرتضیٰ اپنے قدموں پر چل کر پولیس کی گاڑی میں سوار ہوئے جو انہیں ہسپتال لے گئی۔ Mideast ہسپتال میں مرتضیٰ کو انتہائی نگہداشت کے شعبے میں داخل کیا گیا لیکن سپیشلسٹ ڈاکٹر کی عدم دستیابی کے باعث انہیں مطلوبہ نگہداشت نہ مل سکی اور آدھی رات سے دس منٹ قبل ان کی وفات کا اعلان کر دیا گیا۔ حق نواز سیال اور شاہد حیات اس واقعے میں زخمی ہوئے لیکن میڈیکل بورڈ کے مطابق حق نواز اپنی ہی گولی سے زخمی ہوئے۔

بورڈ کے اس فیصلے کے اگلے ہی روز حق نواز کو ان کے گھر میں دو مشتبہ افراد نے قتل کر دیا۔ صدر مملکت نے اس واقعے کی تحقیقات کے لیے تین رکنی عدالتی کمیشن کے قیام کا اعلان کیا۔

اس واقعے کے تین روز بعد ملتان میں فجر کے وقت جماعت پر فائرنگ سے تئیس افراد جاں بحق ہوئے جن میں سپاہ صحابہ کے ایک مدرسے کے دس بچے بھی شامل تھے۔ اس سے پہلے اگست کے مہینے میں بہاول پور کے ایک شیعہ عالم اور سرگودھا کے کمشنر کو موت کے گھاٹ اتارا گیا تھا۔

امن وامان کی صورت حال کے پیش نظر صدر لغاری نے باضابطہ تشویش کا اظہار کیا۔ 26 ستمبر کو انہوں نے اپوزیشن سربراہ نوازشریف سے ملاقات کی اور تمام جماعتوں کو مفاہمت کے ساتھ سیاست کرنے کا مشورہ دیا۔ صدر مملکت نے ایوان زیریں اور ایوان بالا کو مطلع کیا کہ وہ کرپشن کی تحقیقات کے لیے ایک آزاد کمیشن تشکیل دیں گے۔

(جاری ہے)

حوالہ جات:

Pakistan in the Twentieth Century: A Political History. Lawrence Ziring. Oxford University Press

Constiutional and Political History of Pakistan. Hamid Khan. Second Edition. Oxford University Press

Islamic Pakistan: Illusions and Reality By Abdus Sattar Ghazali

Songs of Blood and Sword. Fatima Bhutto

Herald October 1996

تبصرے (0) بند ہیں