”پھر کسی کوئلہ کان کا رُخ کروں گا“

12 اکتوبر 2014
غریب کی کوئی خواہش اس دنیا میں پوری نہیں ہوتی۔ اس کی خواہشوں کا خون کبھی سیلاب کرتا ہے، کبھی طالبان اور کبھی دھرنے — فوٹو اے پی
غریب کی کوئی خواہش اس دنیا میں پوری نہیں ہوتی۔ اس کی خواہشوں کا خون کبھی سیلاب کرتا ہے، کبھی طالبان اور کبھی دھرنے — فوٹو اے پی

وہ مجھے کئی مہینوں بعد بازار میں ملا۔ وہ جلدی میں تھا لیکن میں نے اس سے اپنے پُرانے تعلق کی خاطر اس کو بازار کے ایک ریسٹورنٹ میں ایک پیالی دُودھ پتی چائے کی دعوت دی۔ ہم بڑے عرصے کے بعد ملے تھے تو میں نے اس سے پوچھا ”کدھر غائب ہو یار بلکل پکڑائی نہیں دیتے؟“

وہ پہلے کچھ دیر تک تو سکتے میں آگیا پھر کہا، ”کوئلے کی کان میں تھا اور اب ایک دو ہفتے بعد پھر کسی کان کا رُخ کروں گا“۔

ان کا اصل نام پالس جان تھا لیکن ان کو ہر کوئی ”گھن دا“ یعنی بڑے بھائی کہہ کر مخاطب کرتا تھا۔ گھن دا ویسے تو بڑے بھائی کو کہتے ہیں لیکن عموماََ کسی ”کم اہم“ اور انجانے شخص کے لیے یہ لفظ ان کی زبان میں زیادہ استعمال ہوتا ہے۔

وہ ایک دور دراز گاؤں ”گورنال“ میں رہتے ہیں۔ اپنی زبان کے بہت اچھے شاعر بھی ہیں۔ جدید طرز کی شاعری کرتے ہیں جس میں معاشی دکھ، سماجی ناانصافی اور اپنی کم مائیگی کی باتیں، حسن اور اس کی لذّت سے زیادہ ہوتی ہیں۔ اپنی شاعری میں لوگوں کے معاشرتی و معاشی رویّوں کا بھی خوب مذاق اڑاتے ہیں۔ 2010 کے خطرناک سیلاب کے بعد ریلیف کی سرگرمیوں میں لوگوں کے عمومی رویّوں کی عکاسی اپنی ایک جدید نظم میں یوں کرتے ہیں:

”بُھنیل دیدی مواد، عوام کیِدُو برباد؛ پت کے ہو اے غریب ئے لین تُھو اول مالدار“

(وہاں نیچے خوراک کی اشیا تقسیم کی جاتی ہے؛ عوام کو انہوں نے قطاروں میں کھڑا کرکے برباد کیا ہے۔ اے غریب تم پیچھے ہٹو کیونکہ قطار میں اگے کوئی امیر شخص کھڑا ہوا ہے)

بچپن میں پرائمری تک ہی تعلیم حاصل کی کیونکہ گاؤں میں اسکول پرائمری تک ہی تھا۔ اس کے بعد آٹھویں تک پرائیویٹ طالب علم کے طور پر کوشش کی لیکن کامیاب نہیں ہوسکے۔ گاؤں میں کوئی کھیت نہیں تھے بس دو کمروں کا ایک کچا گھر تھا۔ والد صاحب بیمار پڑے تھے۔ اسی لیے پالس جان نے کم عمری میں ہی مزدوری شروع کی۔ گاؤں کے دیگر لوگوں نے علاقے میں روزگار کے مواقع نہ ہونے کی وجہ سے مزدوری کا صرف ایک ذریعہ دیکھا تھا۔

یہ ذریعہ کھانوٹ (حیدرآباد)، بلوچستان، یا پھر چکوال (پنجاب) کے کوئلے کی کانیں تھیں، لہٰذا پالس جان نے بھی اپنے دوسرے دوستوں کی طرح چکوال کی کھانوں کو قریب پایا۔ ابھی پالس کی عمر پندرہ سولہ سال بھی نہیں تھی کہ اس نے اپنا بستر لپیٹا اور چکوال کے لیے گاڑی میں بیٹھا۔

وہ سالہا سال وہاں مزدوری کرتا رہتا اور صرف ایک دو مہینوں کے لیے گھر آتا۔ مزدوری کے لیے جانے والےلوگ جب وہاں ایک ساتھ کسی ”ڈیرے“ میں رہتے ہیں تو اس کو ”انڈھیوالی“ کہتے ہیں۔ وہ جو تھوڑا وقت اپنی مزدوری سے نکالتے ہیں، اس میں بھارتی فلمیں دیکھتے ہیں یا پھر اپنی اپنی زبانوں میں گا کر اپنا دل ہلکا کرتے ہیں۔

پالس جان چونکہ ایک اچھے شاعر ہیں اور ساتھ ایک اچھے لوک گائیک بھی، اس لیے وہ دوسرے ساتھیوں کو خوب بھائے۔ اس انڈھیوالی کے دوران بھی جتنی شاعری پالس جان نے کی ہے اس کا محور بھی افلاس، دکھ اور ہِجر ہی ہے۔ ’جیسا موڈ ہو ویسا منظر ہوتا ہے، موسم تو انسان کے اندر ہوتا ہے‘ کے مصداق پالس جان کی شاعری اس کے اندر کی آواز ہے۔

پالس جان نے یوں زندگی بتائی۔ اس کی بڑی آس تھی کہ وہ ایک بار پُورا موسم سرما گھر پر گزارے۔ شادی کرنے اور گھر میں بچّہ آنے کے بعد یہ خواہش اور بھی بڑھ گئی تھی۔

اسی خواہش کی تکمیل کے لیے گزشتہ سال پالس جان نے اپنے گاؤں کے گرمائی چراگاہ ”بھوگو“ میں کھیت کا ایک ٹکڑا پچاس ہزار روپے کے عوض اجارے پر لیا۔ اس چراگاہ پر مقامی لوگ گزشتہ ایک دو دہائی سے آلُو کے ساتھ ساتھ مٹر اُگاتے ہیں اور یہ دونوں فصل سبزی منڈی میں کافی اچھی قیمت پر بک جاتی ہیں۔ ٹھنڈی، صاف، اور تازہ ہوا کی بدولت ایسی چراگاہوں کی فصل بڑی لذیذ اور صحت بخش ہوتی ہیں۔ پالس جان کے علاقے میں ایسی فصلیں لوگوں کی معاش کے بڑے ذرائع ہیں۔

اجارے پر لیے ہوئے کھیت پر پالس جان نے اس سال اہٹ (مئی) میں مٹر کے بیج بوئے، جو اس نے ایک دکاندار سے اُدھار لیے تھے۔ مٹر کی فصل کی کاشت بڑی مشکل ہے اور اس کے لیے کسان کو ہمہ وقت چوکس رہنا پڑتا ہے۔ اپنی فصل کی نگرانی اور متواتر دیکھ بھال کے لیے پالس جان اپی بیوی اور بچّے سمیت اس چراگاہ کی ایک جھونپڑی میں منتقل ہوا۔ وہ اپنے کام میں ایسے جُت گیا کہ صرف جمعے کے دن اپنے گاؤں آتا تھا۔ اس دوران اس سے میرا رابطہ کم ہی ہوتا تھا۔ صاف کہیئے تو میں بھی اس سے رابطہ اُس وقت کرتا جب اس کی شاعری سننے کا شوق چھڑ جاتا۔

خیر پالس جان نے یوں چار مہینے محنت کی۔ اس کی فصل خوب اُگی۔ ایسے میں اگست اور ستمبر آئے۔ مٹر کی فصل عموماً اگست کے تیسرے ہفتے سے شروع ہوتی ہے اور ستمبر کے آخر تک، جب پہاڑوں پر جاڑا اپنا رنگ بکھیرتا ہے، ختم ہوجاتی ہے۔

پالس جان نے اپنی فصل یعنی مٹر کے ”چھلے“ دوسروں کی طرح اسلام آباد کی سبزی منڈی میں بیچنی تھی۔ وہ دوسرے کئی لوگوں کے ساتھ مٹر کی بوریاں بھر بھر کر اس سبزی منڈی لے جاتا اور وہاں بیچتا۔ پالس جان جب یہ کہانی سناتے یہاں تک پہنچا تو اس کی انکھیں بھر آئیں۔

اس نے آہ بھر کر کہا ”غریب کی خیر نہیں۔ غریب کی کوئی خواہش اس دنیا میں پوری نہیں ہوتی۔ اس کی خواہشوں کا خون کبھی سیلاب کرتا ہے، کبھی طالبان اور کبھی دھرنے“۔ پہلی دو وجوہات کا مجھے پتہ تھا کیونکہ سوات میں ہم دونوں چیزوں کا تجربہ رکھتے ہیں، لیکن ”دھرنے“ سن کر میں چونک گیا۔ میں نے پوچھ ہی ڈالا کہ یہ کیسے ممکن ہے۔ دھرنوں سے آپکے مٹر کا کیا تعلق ہے۔

پالس جان نے مجھے غصے سے گھورتے ہوئے جواب دیا، ”ہم جب بھی مٹر منڈی لے جاتے ہیں تو کوئی گاہک موجود نہیں ہوتا۔ آڑھتی جلدی جلدی سستے داموں ہمارے مٹر کی بوریوں کی بولی لگا کر جان چُھڑاتا ہے۔ ہر گاہگ ڈر اور راستے نہ ہونے کی وجہ سے سبزی منڈی نہیں پہنچتا۔ بولی میں جب مقابلہ نہیں ہوتا تو شے کی قیمت گرجاتی ہے۔ پچھلے دو مہینوں سے ہمارے ساتھ ہر بار یہی ہورہا ہے۔ میری مزدوری تو گئی بھاڑ میں۔ مٹر کی بوریوں اور منڈی تک لے جانے میں جو خرچہ ہوتا وہاں بولی میں مٹر کی قیمت وہ بھی پوری نہیں کرتی۔ میں اب اجارے کی رقم کدھر سے لاؤں؟“۔

میں نے مذاق میں کہہ دیا کہ آپ لوگ بھی اس کم قیمت کے خلاف کوئی دھرنا دیں۔ پالس جان نے مجھے بہت ہی غصے سے گھورا اور کہا، ”غریب کب دھرنا دے سکتا ہے۔ وہ تو صرف کسی کوئلہ کان کا رُخ ہی کر سکتا ہے“۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں