وی آئی پی کلچر کے خلاف جدوجہد

20 اکتوبر 2014
ریاست کی جانب سے اشرافیہ کو نوازنے کا یہ کلچربرصغیر کی تقسیم کے بعد بھی زیادہ موثر طریقے سے جاری رہا۔
ریاست کی جانب سے اشرافیہ کو نوازنے کا یہ کلچربرصغیر کی تقسیم کے بعد بھی زیادہ موثر طریقے سے جاری رہا۔

یہ خیال بالکل عیاں ہے کہ ریاستی اداروں کی سیاسی و معاشی اشرافیہ کے ساتھ ترجیحی سلوک غلط ہے، یہ قانونی سطح پر غلط ہے اور ایک غریب ملک میں یہ اخلاقی لحاظ سے بھی درست نہیں، یہ وہ کئی معقول وجوہات ہیں جو ظاہر کرتی ہیں کہ آخر 'وی آئی پی کلچر' کیوں مسئلہ بن چکا ہے، مختصر یہ کہ تمام اضافی قانونی مراعات اور کرپٹ پریکٹس ایک سیاسی سوال کی شکل اختیار کرچکے ہیں۔

حالیہ واقعات کی روشنی میں(فضائی طیارے اور دیگر) متعدد افراد اس نتیجے کے ساتھ سامنے آئے ہیں کہ اس بارے میں کچھ کیے جانے کی ضرورت ہے، اور اس کے علاج کی تشخیص پر زور دیا جارہا ہے جو کہ طویل المدت ہونے کے ساتھ اس کا مناسب حل ثابت ہو۔

اس وقت جن چیزوں پر ملکی عوام کی بڑی اکثریت متفق ہے وہ یہ ہے کہ قانون سے ماورا استحقاق اور ترجیحی سلوک درحقیقت 'مک مکا' کی پیداوار ہے جو متعدد ریاستی اداروں سے تلعق رکھنے والے 'کرپٹ' سیاسی یا کاروباری اشرافیہ ، ان کے سہولت کار، سرپرست اور صارفین تک محدود ہے۔

اس 'ہم بمقابلہ ان حلقوں' کی اصطلاح کے استعمال میں مسئلہ مخصوص افراد تک محدود رکھا گیا ہے، جنھیں اکثر خودغرض، غیرمہذب اور لوٹ مار تصور کیا جاتا ہے۔

اس کا حل منطقی طور پر یہی ہے کہ کرپٹ افراد کو دیانتدار لوگوں کو تبدیل کردیا جائے تو یہ مسئلہ بھی ختم ہوجائے گا، اس موثر حل کو ملک کے سب سے مقبول رہنما اور ان کے لاکھوں ووٹرز نے پیش کیا۔

مگر یہ جانے کہ اس بات میں کیا چیز غلط ہے، کرپشن کوئی بائیولوجیکل عادت نہیں، اکثر انسان دوسروں سے زیادہ کرپٹ پیدا نہیں ہوتے، کرپشن ایک پیچیدہ معاشرتی اور تاریخی تناظر سے دیکھے اور سمجھے جانے کی ضرورت ہے جس کا علاج کسی دانے یا مہاسے کو جسم سے بلا سوچے سمجھے بغیر کاٹ کر پھینک دینا نہیں۔

جس چیز کو تسلیم کیے جانے کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ ریاست اور ریاستی اداروں میں عوامی کرپشن (سرکاری دفاتر کے معاملات) تاریخی علامت ہے جسے پرائیویٹ وسائل سے حل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، آپ کو انیسویں صدی میں واپس جاکر دیکھنے کی ضرورت ہے جب برطانوی حکمران نے جنوبی ایشیا بھر میں سماجی معاشی اشرافیہ کو ترجیحی سلوک فراہم کیا۔

مثال کے طور پر پنجاب کے جاگیرداروں کی بات کی جائے تو اس زمانے میں انہیں جو مراعات حاصل تھیں وہ کچھ یوں تھیں، جو بڑے گھر تعمیر کرانے، پرتعیش شادیوں کے لیے اپنی زمین کے عوض رقم ادھار لے سکتے تھے، اور غیرمفید، انحطاط پذیر زندگی گزارتے تھے، اگر وہ قرض کی رقم واپس کرنے میں ناکام رہتے تو حکومت اس کا خیال کرتی۔

اور یہ کوئی قصہ کہانی نہیں، ایسا انیسویں اور بیسویں صدی کے اوائل میں ہوتا رہا تھا، برطانوی راج اس وقت جاگیرداروں کے اثاثوں کا انتظام سنبھال لیتی جب ان کے دیوالیہ ہونے کا سامنا ہوتا تھا اور یہ زمین انہیں اس وقت واپس کی جاتی جب خزانے سے ان کا قرضہ ادا نہ کردیا جاتا۔

اس طرح کی مراعات اور خطابات برطانوی دور میں سول سروس اور مسلح فورسز کو بھی فراہم کیے جاتے تھے، جو کہ تشکیل پاتی بیوروکریسی سے بالکل مختلف تھے، جنھیں عام عوام کی طرح کے طرزعمل اپنانے کی اجازت نہیں تھی، بلکہ انہیں حکمرانی اور مقامی آبادی کو نظم و ضبط کا حصہ بنانے کے لیے تیار کیا جارہا ہے۔

کلبز جیسے جم خانہ یا رہائشی علاقے جیسے جی او آر دونوں شہر کے مرکزی حصے میں تعمیر اس تاریخ کا سرگرم باب ہے۔

ریاست کی جانب سے اشرافیہ کو نوازنے کا یہ کلچر یا اشرافیہ کی جانب سے ریاستی وسائل کو اپنے مفاد کے لیے استعمال کرنے کا سلسلہ برصغیر کی تقسیم کے بعد بھی زیادہ موثر طریقے سے جاری رہا۔

مثال کے طور پر ایوب حکومت نے نے اپنے 'سنہری دور' میں مقامی کاروباری حضرات اور کارخانے داروں کو بے پناہ مراعات فراہم کیں، ضیاءاور مشرف کے ادوار میں برائے فروخت سیاست دانوں کی سرپرستی سرکاری دفاتر کے ذریعے یکساں طور پر اپوزیشن جماعتوں کے خلاف ان کی وفاداری کی قیمت پر کی گئی۔

یہ سب مثالیں ہوسکتا ہے کہ قطار سے آگے نکل جانے اور اضافی پروٹوکول کے معاملے کا موازنہ کرتے ہوئے بہت زیادہ بڑھا چڑھا کر بیان کردہ یا بڑے پیمانے کی لگے، مگر ان کی بنیاد واضح طور پر یکساں ہیں، دونوں کی جڑیں ریاست اور معاشرے کے تعلقات کی منطق میں پوشیدہ ہیں اور جو گزرے وقتوں میں تشکیل پایا اور جس میں احتساب کی کمی اور ترغیبات کی تحریک کو جاری رکھنا شامل ہے۔

یہ اس مسئلے کی تاریخی شکل کا بالکل درست احوال ہے، تاکہ جو لوگ وی آئی پی کلچر کے خلاف بلند آواز میں بول رہے ہیں، وہ ایک قدم پیچھے جاکر بڑے مسئلے کی عکاسی کرسکے یعنی بہت غریب ملک میں اشرافیہ کو حاصل استحقاق۔

اگر کسی بالائی متوسط طبقے کے بیوروکریٹ یا فوجی افسر کا بیٹا جس نے ریاست کی فراہم کردہ مراعات سے بھرپور زندگی گزاری ہو، خود کو تصوراتی عام آدمی کے برابر قرار دے تو ہمیں واقعی سنگین مسئلے کا سامنا ہے کیونکہ اس وقت ہمارے اندر یہ خواہش دبی ہوئی ہوگی کہ 'غیرمستحق' اشرافیہ کو کسی 'مستحق' لاٹ سے بدل دیا جائے۔

مختصر یہ کہ ریاست کے کسی بھی شکل یا طرز ترجیحی سلوک کے بارے میں یہ سوچ پیدا ہوچکی ہے کہ یہ اس وقت تو غلط ہے جب اس سے کوئی اور مستفید ہو رہا ہو تاہم اگر یہ ہماری جانب آرہی ہے تو پھر سب ٹھیک ہے۔

یہ قریب النظری کی بہترین مثال ہے جو بدترین بلکہ تباہ کن ثابت ہوسکتی ہے، اگر ریاست کی فراہم کردہ مراعات یا کرپشن کے خلاف جنگ کی جانی ہے تو دو باتوں کو سمجھنا ہوگا، پہلی یہ کہ وی آ ئی پی کلچر اور کرپشن مختلف شکلوں میں موجود ہے، یہ کسی پرواز کی تاخیر یا رشوت کی شکل میں بھی ہوسکتی ہے، مگر اکثر یہ اقرباءپروری یا خاندان کے افراد کے لیے سفارش، زمینی گرانٹس پر سبسڈیز اور دیگر اقسام کی مراعات و استحقاق کی شکل میں نظر آتی ہے جس سے ریاست سے منسلک افراد مستفید ہوتے ہیں۔

دوسری بات یہ کہ اشرافیہ پر مائل بہ کرم ریاست کا اصل بوجھ شہری ذہنیت یا بالائی متوسط طبقے پر نہیں (جو پہلے ہی پرائیویٹائزیشن کی جانب منتقل ہوچکے ہیں) بلکہ ملک کی 65 فیصد آبادی پر روزمرہ کی بنیاد پر پڑتا ہے۔

اس وقت جب متعدد پرجوش اور پرعزم افراد پاکستان کی سیاسی اور کاروباری اشرافیہ کی استحصال کی مشق کے خلاف آواز اٹھا رہے ہیں، اس دوران ایسی کئی وجوہات موجود ہیں جن کو دیکھے ہوئے متعدد امور پر نظرثانی ہونی چاہئے، اگرچہ یہ جذبات سراہے جانے کے قابل ہیں مگر یہ اس وقت تک کسی کام کے نہیں جب تک وہ اپنے نفس کے مشاہدے، تاریخ سے عدم واقفیت اور ملک میں مراعات کے پیمانے کے بامقصد تجزئیے سے محروم رہیں گے۔

انگریزی میں پڑھیں۔


لکھاری ایک فری لانس کالم نگار ہیں۔ وہ ٹوئٹر پر @umairjav کے نام سے لکھتے ہیں۔

[email protected]

تبصرے (0) بند ہیں