وہی پرانی فلم

اپ ڈیٹ 20 اکتوبر 2014
آئی ایس پر بنائی گئی فلم کا انجام، اور اس کا اگلا پارٹ کچھ بھی ہو، اس کا پراڈکشن ہاؤس وہی ہے جو القاعدہ کا تھا۔
آئی ایس پر بنائی گئی فلم کا انجام، اور اس کا اگلا پارٹ کچھ بھی ہو، اس کا پراڈکشن ہاؤس وہی ہے جو القاعدہ کا تھا۔

دو تین دن پہلے میں نے ایک 45 منٹ کی ڈاکیومینٹری فلم دیکھی، جو اس موضوع پر بنائی گئی تھی، کہ اسلامک اسٹیٹ (داعش) کے زیرِ اثر علاقوں میں زندگی کیسی ہے۔ حال ہی میں بنائی جانے والی اس ڈاکیومینٹری کی ٹیم کو عراق اور شام میں جنگجوؤں اور سویلینز تک حیران کن حد تک رسائی حاصل تھی۔

یہ صاف ظاہر تھا کہ آئی ایس دنیا کو یہ دکھانا چاہتی ہے، کہ اسے کتنا کنٹرول حاصل ہے، اور لوگ اس کے زیرِ اثر رہ کر کتنے خوش ہیں۔ لیکن ظاہر ہے کہ کوئی بھی مذہب کے نام پر قتال کرنے والے ان لوگوں کے خلاف کیسے آواز اٹھائے گا، جنہوں نے ان کی زندگیاں قبضے میں کر رکھی ہیں۔ کچھ مناظر ان لوگوں کے تھے، جنہیں "غیر اسلامی" کاموں میں ملوث ہونے کی سزا کے طور پر چوراہوں پر پھانسیاں دی گئیں، جبکہ پاس کھڑے لوگ فلم بناتے رہے۔ جبکہ دوسرے لوگ شراب نوشی اور منشیات رکھنے کے جرم میں پھانسی سے تھوڑی نرم سزاؤں کے حقدار ٹھہرے۔ اور یہ نرم سزا سرِعام کوڑوں کی سزا تھی۔

پر رکیے۔ کیا ہم نے یہ مووی پہلے نہیں دیکھ رکھی؟ یہ وہی مناظر تو ہیں جو 11 ستمبر کے واقعے سے پہلے طالبان کے زیرِ حکومت افغانستان میں روز کا معمول تھے۔ چھوٹے چھوٹے جرائم پر قتل کی سزا، خواتین کو قید کیے رکھنا، اور آرٹس اور اسپورٹس جیسی چیزوں کا انکار کرتے ہوئے ان پر پابندی عائد کرنا۔

دلیل، سائنس، اور تعلیم بھی پابندی کی زد میں آئیں۔ ان انتہاپسندوں کے درمیان ایک اور مماثلت ہے، اور وہ ہے ان کی وحشی سزائیں، سر قلم کرنا، ہاتھ کاٹ دینا، اور کوڑے مارنا، اور یہ سب کچھ حیران پریشان عوام کے سامنے کیا جاتا ہے۔

لیکن ایک منٹ، کیا سعودی عرب میں بھی یہ سب کچھ نہیں ہوتا؟ ریاض اور جدہ میں جمعے کی نماز کے بعد سرِعام سرقلم کیے جانا عام بات ہے۔ صرف اس سال کے دوران ہی 50 لوگوں کی گردنیں مار دی گئیں۔ اور یاد رکھیے کہ سعودی عرب بھی امتِ مسلمہ کے لیے ایک خودساختہ رول ماڈل کی حیثیت رکھتا ہے۔

اپنی بے پناہ بے محنت کی دولت کے ساتھ سعودیوں نے پوری مسلم دنیا میں اپنی پسند کے مذہبی برانڈ کو فروغ دیا ہے، جس کے لیے بدلتے زمانے اور انسانی کمزوریاں کچھ معنیٰ نہیں رکھتیں۔ یہی وہ سخت گیر رویہ ہے جس نے پچھلے 25 سالوں سے مسلم دنیا کو لاحق تشدد اور قتل و غارت گری کو جنم دیا ہے، اور اسلام کے امیج پر کاری ضرب لگائی ہے۔

القاعدہ کے بعد اب یہ دہشتگرد گروہ کئی روپ دھار چکے ہیں۔ شام میں جبحت النصرہ اور داعش، نائیجیریا میں بوکو حرام، اور تحریکِ طالبان پاکستان اور افغان طالبان وغیرہ آپس میں اس بات پر مقابلہ کر رہے ہیں کہ کون کتنے زیادہ لوگوں کی جان لے سکتا ہے۔

بھلے ہی ممالک اس عفریت سے جان چھڑانے کی سرتوڑ کوششیں کر رہے ہیں، لیکن سعودی عرب سے یہ زہر آرام سے پہنچ جاتا ہے۔ پاکستان جیسے غریب ممالک تاخیر سے ادائیگی پر تیل حاصل کرنے اور امداد کے بدلے اتنے مجبور ہوچکے ہیں، کہ وہ ریاض کی جانب سے ہمارے مدرسوں اور سخت گیر ملاؤں کی فنڈنگ پر آواز بلند نہیں کر سکتے۔

مشرقِ وسطیٰ کے کئی ماہرین نے بار بار جہاد کے روپ میں اس تشدد، اور سعودی عرب کے درمیان گہرے تعلق کی طرف اشارہ کیا ہے۔ لیکن دنیا صرف اس لیے خاموش رہی، کیونکہ سعودی عرب کے پاس تیل موجود ہے، اور یہ مغربی ممالک سے اربوں ڈالر کا اسلحہ خریدتا رہتا ہے۔ اس کی وجہ سے ان ممالک کی اسلحہ سازی، اسپیئر، اور ٹریننگ کی صنعتیں چلتی رہتی ہیں۔

اسلامک اسٹیٹ اور طالبان میں صرف ایک فرق ہے، اور وہ ان کی بربریت اور تشدد میں ہے۔ اسلامک اسٹیٹ پاکستانی اور افغان طالبان سے کہیں زیادہ پرتشدد ہے۔ کوبین سے نقل مکانی کرنے والے کردوں کے مطابق اسلامک اسٹیٹ کے جنگجوؤں نے علاقوں پر قبضہ کرنے کے بعد بوڑھوں اور بچوں کو قتل کیا، اور اسینکڑوں خواتین اور نوجوان لڑکیوں کے ساتھ جنسی زیادتی کی، جبکہ کئی لوگوں کے سینے چیر کر دل بھی نکال دیے گئے۔

ظلم و بربریت کی ان مثالوں سے امریکہ اور اتحادیوں کے حملوں کو جائز قرار دیا جاسکتا ہے۔ لیکن فضائی حملے آئی ایس کو مکمل طور پر ختم کرنے کے بجائے صرف اس کی پیشقدمی کو دھیما کرسکتے ہیں۔ جو لوگ مشرق وسطیٰ میں مغربی قوتوں کی واپسی کے خلاف زہر اگل رہے ہیں، ان کو چاہیے کہ وہ آئی ایس کے ظلم و ستم کے شکار لوگوں سے جا کر پوچھیں، کہ ان پر کیا بیتی ہے۔

مغرب اور مسلم دنیا میں کئی لوگ یہ نظریہ رکھتے ہیں، کہ آئی ایس کا عروج امریکہ اور یورپ کے پچھلے کارناموں کی وجہ سے ہے۔ اس میں سلطنت عثمانیہ کی فرینچ اور برٹش کالونیوں میں تقسیم سے لے کر اسرائیل کی فلسطین پر قبضے میں حمایت تک شامل ہے۔

لیکن مسلم دنیا اور اس سے باہر جہادیوں نے جو بھی تباہی مچائی ہے، اس سے انہیں بری الذمہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔ ان زیادتیوں کے شکار لوگوں کو کس طرح اس بات پر قائل کیا جسکتا ہے کہ اس کے ذمہ دار امریکہ اور مغرب ہیں؟

مشرق وسطیٰ کے حالات تبدیل ہورہے ہیں، لیکن سعودی پیسے اور آئیڈیولاجی کے اثرات ویسے کے ویسے ہی ہیں۔ جنرل سیسی کی ملٹری حکومت کی حمایت سے لے کر بحرین حکومت کی مخالفین کو کچلنے میں مدد تک، سعودیوں نے انتہائی منفی کردار ادا کیا ہے، جس نے عرب اسپرنگ کو سمر میں تبدیل کردیا ہے۔

اسٹیٹس کو سعودی شاہی خاندان کو سوٹ کرتا ہے۔ تیل کی کمائی سے ہزاروں شہزادے شہزادیاں پلتے ہیں۔ کوئی بھی ایسی تبدیلی جو ان کے عوام اور ملک پر کنٹرول کو خطرے میں ڈالے، اسے روکا جانا چاہیے۔ اور سیکیورٹی بیک اپ کے طور پر امریکہ موجود ہے، جو دنیا کی سب سے طاقتور ترین ریاست ہے۔

تو اس لیے آئی ایس پر بنائی گئی مووی، اس کا آغاز اور اختتام اور اگلے پارٹ میں کچھ بھی ہو، اس کے فنانسر، ڈائیریکٹر، اور پروڈیوسر سعودی عرب میں ہی ہیں۔

انگلش میں پڑھیں۔


[email protected]

یہ مضمون ڈان اخبار میں 11 اکتوبر 2014 کو شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں