رک رک کر سفر

22 اکتوبر 2014
یہ صورتحال پی ٹی آئی کے پھیلاﺅ کے لیے بہترین ہے جبکہ پی اے ٹی بھی وسیع معاونت کا اظہار کرسکے گی۔
یہ صورتحال پی ٹی آئی کے پھیلاﺅ کے لیے بہترین ہے جبکہ پی اے ٹی بھی وسیع معاونت کا اظہار کرسکے گی۔

ملتان کا پرتناﺅ معرکہ اختتام پذیر ہوگیا اور اب ساری توجہ مرکزی محاذ پر واپس منتقل ہوجائے گی جہاں وزیراعظم نواز شریف کو اپنے اقتدار کو درپیش لمبے اور مسلسل چیلنج کے مقابلے کا سامنا ہے۔

ان کے چیلنجر یعنی عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری کی کی بے مقصد سمت جیسے دھرنے سے جلسوں اور پھر دھرنوں میں واپسی وغیرہ سے یہ دونوں رہنماءیہ امید باندھے ہوئے ہیں کہ اس سے مومنٹم برقرار رہے گا، نمبروں کی تعداد میں کمی کو دیکھتے ہوئے جلسون کی سیریز دارالحکومت میں دھرنے کے مقابلے میں کامیاب بنانا زیادہ آسان ہے، جنھیں عوام کو ایک دھاگے کی لڑی میں پرونے کے لیے استعمال کیا جارہا ہے، اب سوال یہ ہے کہ آگے کیا ہوگا۔

مظاہرین سے رابطوں میں حکومت تاحال اپنا سربلند رکھنے میں کامیاب رہی ہے، پہلے وزیراعظم نواز شریف کہتے تھے کہ ان کے استعفے کا مطالبہ لے کر گلیوں میں نکلنے والے افراد کی تعداد چند سو یا چند ہزار سے زیادہ نہیں، جس کے بعد عمران خان اور طاہر القادری نے پنجاب میں چند کافی اچھے جلسے کیے ہیں اور وہ اس سلسلے کو صوبے کے زیادہ اندر لے کر جانا چاہتے ہیں، مگر نمبروں کی یہ بہتری بھی وزیراعظم کو متاثر نہیں کرسکی ہے۔

اب وہ اپنے حریفوں سے مطالبہ کررہے ہیں کہ وہ اس تعداد کے برابر پہنچے جو وہ 2013 کے انتخابات میں حاصل کرنے میں کامیاب رہے تھے جبکہ ان کے ساتھیوں اور معاونوں کے دلائل یا موقف میں ہلکی سی تبدیلی بھی نظر نہیں آتی۔

دھرنے کے دوران کچھ عرصے کے لیے ایسا نظر آنے لگا تھا کہ حکومتی معاملات مفلوج ہوکر رہ گئے ہیں اور اقتدار میں بیٹھے افراد حالات معمول پر آنے کا انتظار کررہے ہیں، بعد میں اس احتجاج کو نظرانداز کرنے اور سرکاری کاموں کو معمول پر کرنے کی کوشش کی گئی، ایسا لگنے لگا کہ یہ احساس کرلیا گیا ہے کہ یہ احتجاج مستقل رہنے والا ہے، اس چیز نے طاہر القادری اور عمران خان کو واقعی کافی تکلیف پہنچائی، جبکہ اس سے مسئلے کے حل کی کمی اور جمود کا احساس پیدا ہوا۔

یہ پرانی تھیوری کہ کس طرح تاخیری حربوں سے احتجاج کو ختم کیا، کو اپنا لی گیا، درحقیقت نواز لیگ کی نچلی صفوں کے سیاستدانوں کو ڈھیل اور مہم جوئی کا لائسنس دے دیا گیا تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جاسکے پی ٹی آئی اور پی اے ٹی کے اقتدار کے حصول راستے میں ان کی آواز کو سنا جاسکے۔

آج کے مظاہرین کو کسی مسئلے کے حل کے لیے مداخلت کی پرانی پالیسی کی عدم موجودگی کا سامان ہے، جبکہ نئے اور پرانے ثالثوں کی تلاش جاری ہے، جبکہ یہ مشورہ بھی سامنے آیا کہ یہ 'نئی عدلیہ' کی ذمہ داری ہے کہ وہ پاکستان کو درپیش اس اہم ترین سوال کا جواب تلاش کرے، مگر بہت جلد ہی اس مشورے کو ایک طرف یہ کہہ کر پھینک دیا گیا ہے کہ ملک اس وقت اہم مور پر ہے اور متعدد باخبر ذہنوں نے عدالتی ثالثی کو سیاست اور عدلیہ دونوں کے لیے خطرناک قرار دیا ہے۔

عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری کے ساتھ کھڑے افراد کی سوچ دوسری ہے، انہیں ایک ثالث کی ضرورت ہے، ایسا عوامی ثالث جو کہ 'افواہوں' کی زد میں رہنے والے اسٹیبلشمنٹ سے الگ ہو جو ماضی کے مقابلے میں زیادہ زرداری سے کام کرسے، اس کے سات ساتھ مظاہرین اپنی تحریک کو آگے بڑھانے کے لیے نئے راستے بھی تلاش کررہے ہیں۔

یہاں پہلے ہی ایک رائے سامنے آچکی ہے جس کے مطابق پی ٹی آئی اور پی اے ٹی کو بس اپنے مقاصد یا فائدے کی پروا ہے، جبکہ نواز شریف حکومت اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اپنے تعلقات کو اطمینان بخش سطح پر لاچکی ہے، ہوسکتا ہے کہ یہ درست ہو اور چیلنجرز کے خلاف جنگ میں حکومتی اعتماد کی وجہ ہو، تاہم اس کے لیے احتجاج سے جان چھڑانے کا کوئی آسان راستہ نہیں، اسے آگے بڑھنا ہوگا اور یہ توقع کرنا ہوگی کہ عوام کا بہاﺅ جو وہ ترتیب دے اس مسئلے کے حل کا راستہ تلاش کرسکے۔

احتجاج کا سلسلہ جاری رہے گا اور کوئی نہیں جانتا کہ یہ کتنا طویل ہوسکتا ہے، تاہم حکومت ایسے تاثر کی تشکیل کے لیے کام کررہی ہے کہ وہ اس احتجاج سے زیادہ حیران نہیں اور وہ اپنی بقا کے لیے پراعتماد ہے، اپوزیشن کا شو جاری رہے گا، اپوزیشن کے قافلے کو اپنی تحریک اور آگے بڑھنے کا سلسلہ جاری رکھنا ہوگا۔

پرانے پاکستان میں احتجاجی جماعتیں اکثر چھوٹی مقامی ریلیوں کو قومی سطح پر بڑھنے کے لیے استعمال کرتی تھیں، پی ٹی آئی نے اسلام آباد کے دھرنے کی تکمیل کے لیے کراچی اور لاہور میں دھرنوں کا انتظام کیا، اسے اپنے احتجاج کو ملک کے دیگر حصوں تک توسیع دینا ہوگی، جتنی دور تک اس کو لے جایا جائے گا وہاں زیادہ بہتر یہ رہے گا کہ مقای چہروں کو اپنے علاقوں میں احتجاجی ایونٹس کرنے کا موقع فراہم کیا جائے۔

یہ صورتحال پی ٹی آئی کے پھیلاﺅ کے لیے بہترین ہے جبکہ پی اے ٹی بھی وسیع معاونت کا اظہار کرسکے گی، دھرنوں کو چھوٹے حصوں میں اکھٹا کرکے جاری رکھنا چاہئے مگر اس کے ساتھ اس وقت ضلعی سطح پر بہتر آرگنائزیشن پر بھی توجہ دی جانی چاہئے، مظاہروں میں نمبروں کی تعداد کے بعد قیادت کے لیے اگلا ٹاسک یہ ہوگا کہ ان نمبروں میں سے چہوں کو مقامی قیادت کے طور پر ہر جگہ پھیلا دیا جائے۔

ملتان میں پی ٹی آئی کے جلسے میں سات افراد کی ہلاکت اس ضرورت کو نمایاں کرتی ہے کہ پارٹی کو خود کو زیادہ منظم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ بڑے شہروں میں زیادہ موثر طریقوں سے ایونٹس کا انعقاد کرسکے، منظم ہونے کا یہ سلسلہ طویل ہونے کے ساتھ ممکنہ طور پر مقامی سطح پر تنازعات کو حل کرنے کا باعث بن سکتا ہے، ملتان جلسے کے بعد پارٹی کے اندر سے الزامات منظرعام پر آئے تھے جس سے گروپنگ کا تاثر پیدا ہوا جو تمام سیاسی جماعتوں میں موجود ہوتا ہے۔

پی ٹی آئی ہوسکتا ہے کہ ان تفصیلات سے اس لمحے میں ڈیل کرنا نہ چاہئے اور اپنی تبدیلی کے بڑے قومی بینر کے تلے معاملات کو برقرار رکھے، مگر جیسے جیسے مرکزی منصوبے کو دیا جانے والا وقت گزرے گا اس وقت عمران خان کو اپنی عوامی مصروفیات سے نکل کر مقامی سطح کے پی ٹی آئی ورکرز کے ساتھ بیٹھنا ہوگا، اس سے ان معاملات کو ٹھیک کرنے میں مدد ملے گی جو ان کے مخالفین کے پیدا کردہ ہیں جن میں شریف برادران اور آصف علی زرداری نمایاں ہیں، تاکہ وہ اپنے ورکرز سے دوبارہ رابطے بڑھاسکیں۔

انگریزی میں پڑھیں۔


لکھاری لاہور میں ڈان کے ریذیڈنٹ ایڈیٹر ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں