جنگجوؤں کی حیاتِ نو

28 اکتوبر 2014
آئی ایس کے عروج نے ٹی ٹی پی میں ایک نئی روح پھونک دی ہے، اور ایسا لگتا ہے کہ اس تنظیم نے اب بھی زیادہ کھویا نہیں ہے۔
آئی ایس کے عروج نے ٹی ٹی پی میں ایک نئی روح پھونک دی ہے، اور ایسا لگتا ہے کہ اس تنظیم نے اب بھی زیادہ کھویا نہیں ہے۔

تحریکِ طالبان پاکستان کے پانچ کمانڈروں، بشمول ترجمان شاہد اللہ شاہد نے سخت گیر تنظیم اسلامک اسٹیٹ کے خود ساختہ خلیفہ ابوبکر البغدادی کی بیعت کرنے کا اعلان کردیا ہے۔ ان کے اس اقدام سے ہوسکتا ہے کہ دوسری جنگجو تنظیمیں اور کمانڈر بھی ملا عمر اور القاعدہ کے ساتھ اپنی بیعت اور وفاداری پر نظرِثانی کریں، اور مشرقِ وسطیٰ کی اس نئی دہشتگرد تنظیم کی حمایت کرنے لگیں۔

ایسا لگ رہا ہے کہ عسکریت پسندی کے حوالے سے پاکستان کا منظرنامہ اب مزید پیچیدہ اور خطرناک ہونے جارہا ہے۔ اب جنگجو گروپ نظریاتی اور آپریشنل طور پر ایک نئے اور زیادہ مضبوط جہادی نظریے کو اپنانے کے لیے تیار ہیں، اور یہ چیز پاکستان کی اندرونی سیکیورٹی کے لیے شدید مسائل کھڑے کرسکتی ہے۔

طالبان کمانڈروں کی آئی ایس کی حمایت کا اعلان اس بات کو واضح کرتا ہے کہ تحریکِ طالبان میں اندرونی طور پر قیادت کے مسائل ہیں، جبکہ کمانڈروں کے درمیان سیاسی، نظریاتی، آپریشنل، اور طریقہ واردات کے حوالے سے اختلافات بھی موجود ہیں۔

لیکن حیرانگی کی بات یہ ہے کہ آئی ایس کی حمایت کا اعلان ان طالبان کمانڈروں نے کیا ہے، جو ٹی ٹی پی میں آپریشنل حوالے سے مرکزی اہمیت کے حامل تھے۔ کئی حلقوں کی جانب سے یہ خیال ظاہر کیا جارہا تھا کہ ٹی ٹی پی سے حال ہی میں الگ ہونے والا گروپ 'جماعت الاحرار'، جو کہ آئی ایس سے کافی متاثر بھی ہے، سب سے پہلے آئی ایس کے ساتھ اپنی وفاداری کا اعلان کرے گا، لیکن لگتا ہے کہ یہ گروپ اب بھی افغان طالبان اور القاعدہ کے الائنس، اور آئی ایس کے درمیان جھول رہا ہے۔

آئی ایس کے ساتھ اپنی وفاداری کا اعلان کر کے نہ صرف یہ کہ طالبان کمانڈروں نے پہل کی ہے، بلکہ انہوں نے خراسان کا لقب بھی پالیا ہے۔ اس سے پہلے جماعت الاحرار کے لیڈروں نے خود کو خراسانی کہلوانا چاہا، کیونکہ ان کے مطابق وہ پیشنگوئیوں میں موجود خراسان کی اسلامی ریاست کے اولین سپاہی تھے۔ ان کے مطابق وسط ایشیا، ایران، پاکستان، اور افغانستان کے علاقوں پر مشتمل اسلامی ریاست کے قیام کا وقت آچکا ہے۔

لیکن ایک ہی وقت میں القاعدہ اور آئی ایس کے ساتھ تعلقات بنائے رکھنا، اور ملا عمر کے ساتھ اپنی وفاداری قائم رکھنا جماعت الاحرار کے لیے کافی مشکل ثابت ہوسکتا ہے۔ جن پانچ طالبان کمانڈروں نے آئی ایس میں شمولیت اختیار کی ہے، وہ فرقہ وارانہ نقطہ نظر سے کافی شدت پسند ہیں، اور آئی ایس کی فرقہ وارانہ کارکردگیوں سے متاثر معلوم ہوتے ہیں۔ اب یہ مستقبل میں کیا راہِ عمل اختیار کرتے ہیں، یہ ابھی واضح نہیں ہے، کیونکہ آئی ایس نے اپنے حامیوں سے تمام وسائل شام اور عراق بھیجنے کے لیے کہا ہے، تاکہ پہلے قدم کے طور پر اس علاقے میں اپنی پوزیشن مستحکم کی جاسکے۔

دوسری جانب پاکستان اور افغانستان کے جنگجو گروپوں پر آئی ایس کا اثر و رسوخ القاعدہ کے لیے ایک بڑا چیلنج بن چکا ہے۔ تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ جو گروپ القاعدہ کے طریقہ عمل اور اسٹریٹیجی سے متفق نہیں تھے، وہ آئی ایس کی طرف جھکاؤ رکھنے لگے ہیں۔ شاید یہ ہی جنوبی ایشیا میں القاعدہ کے قیام کی وجہ تھی۔ یہ محسوس کرنے کے بعد، کہ صرف ملحقہ گروپوں کے ذریعے کام نہیں چلایا جاسکتا، القاعدہ کو جنوبی ایشیا میں اپنی 'برانچ' کا قیام کرنا پڑا، جس سے اب یہ دہشتگرد تنظیم مقامی اتحادیوں پر انحصار کرنے کے بجائے براہِ راست بھرتیاں کرسکتی ہے۔

اس کے علاوہ آئی ایس کا ایک اثر افغان طالبان پر بھی ہوگا۔ آئی ایس کے جنگجو قومیت کے تصور کو مسترد کرتے ہیں، اور افغان طالبان کو قوم پرست مذہبی تحریک کے طور پر دیکھتے ہیں۔ افغان طالبان کے اندر موجود وہ لوگ، جو قوم پرستی کی طرف زیادہ جھکاؤ نہیں رکھتے، اور جو ایک خالص نظریاتی مقصد رکھتے ہیں، اپنی صفوں میں اس بحث کو جنم دے سکتے ہیں۔ علیحدگیاں اختیار کرنا ناممکن نہیں ہے، لیکن یہ اب بھی واضح نہیں ہے کہ آئی ایس افغان طالبان تحریک پر کس طرح اثر انداز ہوگی، وہ بھی اس وقت جب ملا عمر افغانستان میں اسلامی حکومت قائم کرنا چاہتے ہیں، جبکہ البغدادی اسلامی ریاست کو پوری دنیا تک پھیلانا چاہتے ہیں۔

لیکن اب تک آئی ایس کے حامی کمانڈر، القاعدہ، افغان طالبان، اور ٹی ٹی پی لیڈرشپ بھی ٹکراؤ سے بچنا چارہے ہیں، اور خاموشی سے صورتحال کا جائزہ لے رہے ہیں۔ یہ اس بات کو سمجھ چکے ہیں کہ اندرونی لڑائی جھگڑے کی وجہ سے جنگجوؤں کے درمیان تصادم شروع ہوجائے گا، جیسا کہ شام میں ہوا، اور اس کی وجہ سے پہلے سے موجود نظریاتی اور سیاسی اختلافات مزید گہرے ہوجائیں گے۔ لیکن ایسے بچ بچ کر کب تک چلا جائے گا، اس بارے میں ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔

آئی ایس کے سیکیورٹی کے حوالے سے اثرات کو دیکھا جائے، تو اس نے مرکزی اہمیت رکھنے والے عسکریت پسندوں کے لیے اپنا وجود باقی رکھنے کے لیے ایک چیلنج پیدا کردیا ہے۔ سب سے زیادہ پریشر خاص طور پر القاعدہ، اور فضل اللہ کی زیرِ سربراہی چلنے والی تحریکِ طالبان پاکستان کے لیے ہے۔ ہوسکتا ہے کہ یہ خود کو مضبوط، اور پورے خطے میں جنگجو تنظیموں کی سربراہی کا اہل منوانے کے لیے مزید حملے کریں۔

اسی وقت آئی ایس سے متاثر گروپ آئی ایس کی طرح کی کارروائیاں شروع کرتے ہوئے افغانستان کے سرحدی قصبوں اور شہروں پر قبضہ کرسکتے ہیں۔ لیکن پاکستان میں اس طرح کا کچھ ہونا مشکل ہے، کیونکہ پاکستانی فوج نے قبائلی علاقوں کے بڑے حصے کو اپنے کنٹرول میں کرلیا ہے، جہاں پہلے حکومتی رٹ نہیں تھی۔

قلیل مدت میں آئی ایس سے متاثر گروپ اور کمانڈر فرقہ وارانہ حملے شروع کرسکتے ہیں۔ آئی ایس سے وفاداری کا اعلان کرنے والے کمانڈر فرقہ وارانہ کارروائیوں کے حوالے سے مشہور ہیں، اور ان میں کچھ کا تعلق تو اس حوالے سے بدنام علاقوں ہنگو، اورکزئی، اور کرم ایجنسی سے ہے۔ آئی ایس کو اپنی وفاداری کا یقین دلانے کے لیے فرقہ وارانہ کارروائیاں کرنا ان کے لیے کافی آسان ہوگا۔ اس حوالے سے آئندہ کچھ ہفتے، خاص طور پر محرم کا مہینہ کافی حساس ہوگا۔ سیکیورٹی اداروں کو ملک میں بڑھتے ہوئے فرقہ وارانہ خطرے پر قابو پانے کے لیے بہت زیادہ کام کرنا ہوگا۔

سب سے اہم سوال تحریکِ طالبان پاکستان کے مستقبل کے بارے میں ہے۔ اس بات میں شک نہیں ہے کہ آئی ایس کی وجہ سے ٹی ٹی پی کا اندرونی بحران شدید تر ہوچکا ہے۔ گروپ پہلے ہی قیادت کے معاملے پر ایک تنازعے کا شکار تھا، جبکہ شمالی وزیرستان میں آپریشن ضربِ عضب نے اس کے تنظیمی اسٹرکچر کو بھی کافی کمزور کردیا ہے۔

لیکن ٹی ٹی پی کا خاتمہ شاید ممکن نہ ہو۔ آئی ایس کے عروج نے اس تنظیم میں ایک نئی روح پھونک دی ہے۔ یہ تنظیم اور از سرِ نو بحالی سے گزر رہی ہے، اور اس میں ایک مضبوط نظریاتی جنگجو تنظیم کے طور پر دوبارہ ابھرنے کی صلاحیت بھی موجود ہے، اور ایسا کسی دوسرے نام کے ساتھ بھی ہوسکتا ہے۔

لیکن جنگجو تحریکوں میں نازک مراحل پر نام، ٹیگ، اور وابستگیاں اہمیت نہیں رکھتیں۔ اہمیت ہے تو صرف چار جہتی طاقت کی، جس میں نظریاتی اور سیاسی وژن، آپریشنل صلاحیت، موثر پروپیگنڈا، اور معاشرے میں حمایت شامل ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ٹی ٹی پی نے اب بھی زیادہ کچھ کھویا نہیں ہے۔

انگلش میں پڑھیں۔


لکھاری سیکیورٹی تجزیہ کار ہیں۔

یہ مضمون ڈان اخبار میں 19 اکتوبر 2014 کو شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں