رنچھوڑ لائن، کراچی -- فوٹو -- مصنف رنچھوڑ لائن کا شمار کراچی کی قدیم ترین آبادیوں میں ہوتا ہے۔ یہاں راجھستان سے ہجرت کر کے آنے والی سلاوٹ برادری کے افراد بڑی تعداد میں آباد ہیں۔ سلاوٹ برادری کے لوگ اس علاقے میں تقسیم ہند سے قبل بھی آباد تھے۔ آج رنچھوڑ لائن کی چوڑی گلیاں تجاوزات اور پتھاروں کی وجہ سے سکڑ تی جا رہی ہیں۔ یہاں آپ کو 120 گز کے رقبہ پر 5 سے 6 منزلہ عمارتیں بھی ملیں گی۔ یہ عمارتیں ڈربے نما فلیٹوں پر مشتمل ہیں۔ یہاں بسنے والے سلاوٹ برادری کے افراد بہ مشکل ہی اس علاقے کو چھوڑنے پر تیار ہوتے ہیں۔ ہاں البتہ کچھ لوگ یہ علاقہ چھوڑ کر شہر کے پوش علاقوں میں منتقل ہو گئے ہیں۔ مگر اب بھی یہ نا ممکن ہے کہ کوئی بڑا تہوار ہو تو وہ اور ان کے اہل خانہ علاقے میں نہ آئیں۔ وہ اپنی شناخت اب بھی اسی علاقے کو مانتے ہیں۔ سلاوٹ برادری کے افراد پی پی پی میں ہیں تو مسلم لیگ میں بھی، متحدہ میں ہیں تو فنگشنل لیگ میں بھی۔ اگر آپ کا کسی الیکشن میں وہاں جانا ہو تو آپ کو وہاں ہر جماعت کے پرچموں کی بہار نظر آئے گی۔ مجال ہے کوئی کسی کے جھنڈے یا بینر کو ہاتھ تک لگائے۔

رنچھوڑ لائن، کراچی -- فوٹو -- مصنف رنچھوڑ لائن کا دل وہ مرکزی سڑک ہے جو پونا بائی ٹاورسے شروع ہو کر ہوتی مارکیٹ پر ختم ہوتی ہے۔ پونا بائی ٹاور کے دائیں جانب کراچی کا مشہور لکھ پتی ہوٹل ہے جہاں کبھی شہر کے مختلف علاقوں سے لوگ صرف اس ہوٹل کی مزے دار چائے پینے آتے تھے۔

رنچھوڑ لائن، کراچی -- فوٹو -- مصنف اس ہوٹل میں چائے شیشے کے چھوٹے گلاسوں میں دی جاتی تھی۔ ہوٹل خاصہ بڑا تھا لیکن کبھی رش زیادہ ہونے کی وجہ سے لوگ ہوٹل کے باہر چبوترے پر بیٹھ کر بھی چائے پینے میں کوئی حرج محسو س نہیں کرتے تھے۔ یہ ہوٹل ایک بڑا عرصہ ہوا بند ہو گیا ہے۔ اس کی واحد نشانی ہوٹل کی پیشانی پر لگا گلا، سڑا بورڈ ہے۔ یہاں آپ کو جدید قسم کے ہیئر ڈریسر سیلون سے لے کر روائتی حجاموں کی دکانیں بھی نظر آئیں گی۔ پونا بائی ٹاور سے ہوتی مارکیٹ کی جانب چلیں تو ہر گلی کے نکڑ پر آپ کو دونوں جانب لکڑی کی بڑی آرام دہ بینچیں نظر آئیں گی۔ جن پر بیٹھنے کے علاوہ ضرورت پڑنے پر آپ لیٹ بھی سکتے ہیں۔

رنچھوڑ لائن کا ایک روائتی حجام، کراچی -- فوٹو -- مصنف ان بینچوں کی وجہ اس علاقے کی گنجان آبادی ہے۔ بینچوں پر بیٹھنے کے لیے مختلف اوقات میں مختلف عمروں کے لوگ بیٹھتے ہیں۔ جب ان بینچوں پر آپ کو نوجوان نظر آئیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ عمر رسیدہ لوگ گھروں میں آرام کر رہے ہیں۔ اور جب عمر رسیدہ لوگ بینچوں پر بیٹھے ہوں تو اس کے معنی یہ ہیں کہ اب نوجوان گھروں میں ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ گھر اتنے چھوٹے چھوٹے ہیں کہ بہ یک وقت تمام مکینوں کا گھر میں رہنا نا ممکن ہے۔ مگر ان بینچوں پر لیٹنے کے لیے آپ کا سلاوٹ ہونا ضروری ہے۔ اس سڑک کی گہما گہمی کا صحیح مزہ لینا ہو تو آپ عشاء کے بعد جائیں۔ آپ ایسا محسوس کریں گے کہ علاقے کے تمام لوگ سڑ ک پر نکل آئے ہیں۔ پان کی دکانوں پر اگر کوئی ایک فرد پان لے رہا ہے تو وہاں کھڑے دوسرے پانچ سے چھ افراد اشاروں اور ہوں ہاں کے ذریعے مسلسل گفتگو کرتے ملیں گے۔ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ یہ گونگے بہرے نہیں ہیں۔ وہ صرف پان کے ذائقے سے محروم ہونا نہیں چاہتے۔ اسی طرح کی بے زبان گفتگو آپ کو بینچوں پر بھی نظر آئے گی۔

رنچھوڑ لائن، کراچی -- فوٹو -- مصنف یہاں کھانے پینے کے ہوٹل بھی ہیں۔ لیکن ہم آپ کو شرطیہ کہہ سکتے ہیں کہ آپ کسی بھی ہوٹل پر کھانا کھا لیں مجال ہے کہ آپ کو سرخ مرچوں کا ذائقہ تک محسوس ہو۔ ہمارے دوست مظہر لغاری جو 2013 کے انتخابات کا مشاہدہ کرنے کے لیے اسلام آباد سے کراچی تشریف لائے تھے نے ایک بار ہم سے فرمائش کی کہ ہم انھیں رنچھوڑ لائن کا کھانا کھلائیں۔ وہ بارہ دن کراچی رہے جن میں سے چھ دن انھوں نے رات کا کھانا رنچھوڑ لائن سے کھایا۔ ایک دن انھوں نے ہوٹل کے بیرے سمندر خان سے کھانے کی تعریف کرتے کرتے خصوصاً کھانے میں لال مرچیں نہ ہونے کا سبب جاننا چاہا۔ سمندر خان نے ہنستے ہوئے کہا یہاں کھانے میں لال مرچیں ہوتی تھیں کسی وقت میں۔ لیکن گزشتہ 10, 15 سال سے بغیر لال مرچوں کے کھانا بنتا ہے۔ اتنی دیر میں علاقے کا ایک نو جوان جس کا منہ بین بجانے والے جوگی کی طرح پھولا ہوا تھا نے سمندر خان کو کوئی مخصوص اشارہ کیا ۔اس کے بعد سمندر خان نے گردان شروع کی۔ بھنا ہے، بوگھیلا ہے، قیمہ ہے، بھنڈی ہے، دال فرائی ہے وغیرہ وغیرہ۔ اس نوجوان نے منہ کھولے بغیر ایک مخصوص آواز نکالی۔ سمندر خان نے جواباََ کہا، قیمہ رکھ دوں گا۔ اس کے بعد نوجوان دوبارہ چل دیا۔ مظہر لغاری نے دوبارہ سمندر خان کی جانب سوالیہ نظروں سے دیکھا۔

فائل فوٹو --. سمندر خان نے جاتے ہوئے نوجوان کی طرف اشارہ کرتے ہوے کہا کہ ان لوگوں کی وجہ سے اب لال مرچوں میں کھانا نہیں بنتا۔ اس نے مزید بتایا کہ علاقے کے بیشتر لوگوں کے منہ مین پوری، گٹکا اور پتی کا پان کھانے کی وجہ سے پک گئے ہیں۔ اب یہ لال مرچوں میں بنا کھانا نہیں کھا سکتے۔ مظہرنے کوئی تبصرہ کرنے کی بجائے اوں، اوں سے کام لیا۔ سمندر خان سمجھ گیا اور کسی اور گاہک سے آرڈر لینے چلا گیا۔ رنچھوڑ لائن کی ایک اور خاص بات غیر رنچھوڑی مشتبہ عاشق مزاجوں اور داداگیروں کی اجتماعی مارپیٹ بھی رہی ہے۔ اس مار پیٹ میں مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین بھی جوتی بہ جوتی حصہ لیتی تھیں۔ دن کے اوقات میں جب مرد حضرات کام پر گئے ہوتے تھے، تو یہ کام خواتین خود ہی انجام دیتی تھیں۔ اس لیے باہر کے لوگ گلیوں میں مٹرگشت کرنے سے ڈرتے تھے اور اب بھی ڈرتے ہیں۔ رنچھوڑ لائن کا علاقہ مردم خیز رہا ہے۔ سلاوٹ برادری کے افراد سیاسی طور پر بہت بالغ تھے۔ انگریزوں سے آزادی کی جد و جہد میں بھی ان کا بڑا کردار رہا ہے۔ ان میں سے ایک 'بابا میر محمد بلوچ' تھے۔ ممتاز ادیب اجمل کمال کی مرتبہ کتاب 'کراچی کی کہانی' میں پیر علی محمد راشدی کی کتاب 'وہ دن وہ لوگ' کے حوالے سے بابا میر محمد بلوچ کا ذکر یوں ہے؛ "بابا میر محمد بلوچ تو آخر بلوچ تھے، سرفروش، بے خوف اور انگریزوں کے جانی دشمن، ہندوؤں سے بے زار۔ رات دن حکومت کے خلاف ہنگامہ اٹھائے رکھتے۔ بمبئی کاؤنسل رکن منتخب ہوئے۔ انگریزی نہ جانتے تھے مگر اس سے، اُس سے، انگریزی میں سوال لکھوا کر کاؤنسل میں بھیجتے اور یوں حکومت کی خوب پردہ دری کرتے۔ جس سوال کو پوچھنے کے لیے دوسرے اراکین کانپنے لرزنے لگتے کہ مبادا حکومت خفا نہ ہو جائے، وہ سوال بابا میر محمد ڈنکے کی چوٹ پر پوچھ بیٹھتے۔" جاری ہے ...

  اختر حسین بلوچ سینئر صحافی، مصنف اور محقق ہیں. سماجیات ان کا خاص موضوع ہے جس پر ان کی کئی کتابیں شایع ہوچکی ہیں. آجکل ہیومن رائٹس کمیشن، پاکستان کے کونسل ممبر کی حیثیت سے اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں

ضرور پڑھیں

تبصرے (19) بند ہیں

سنديپ ڪمار Jun 14, 2013 01:03pm
!بهترين
danish Jun 14, 2013 01:14pm
wow akhtar bhai... khi ke elaqa wize ap ke servey reports achi aur malomat par mubni hote hen...
khobaib hayat Jun 14, 2013 01:28pm
wah,muzoaat ka intekhab bhi tumhara aik khassah hota ja raha hay,jin pr hm sarsari nazar daltay hyn tum un ko zindah javed samnay la khara kr detay ho
ghazanfarabbass Jun 14, 2013 01:34pm
مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین بھی جوتی بہ جوتی حصہ لیتی تھیں۔کمال تحریر ہے سئیں ۔ آباد رہیں ۔ یقین کریں کراچی کے اصل درشن تو آپ کا بلاگ پڑھ کر اب لے رہے ہیں۔
Rizwa Jun 14, 2013 02:34pm
wao sir ranchor line ki story buht interesting lge es se pehle ranchor line ki story kafi log nahi janty hongay.
Rizwan Jun 14, 2013 02:36pm
wao sir ranchor line ki story buht interesting lge es se pehle ranchor line ki story kafi log nahi janty hongay
وقار احمد وقار Jun 14, 2013 04:07pm
جوتی بہ جوتی جواب.... کا جواب نہیں ہے اختر صاحب
ذکی ابڑو Jun 14, 2013 07:36pm
بلوچ صاحب آپ کی طرح ہم نے بھی ان گلیوں کی خاک چھانی ہے فرق صرف اتناہےکہ یہ گہرنایاب جو آپ کے ہاتھ لگتے ہیں ہم ان سے محروم رہ جاتے ہیں ،،،،میری مراد دوران مطالعہ ان تاریخی عمارتوں کے حوالے سے ہے جو یاد ماضی کاحصہ بن چکی ہیں ۔۔۔ گلیوں کی خاک چھاننے سے مرادلکھ پتی ہوٹل کی چاءے اوررنچھوڑلاءن کی گلیوں میِں کھڑی وہ ریڑھیاں ہیں جہاں انڈہ گھوٹالاکا چٹخارہ ہمیںآج بھی رات گءے کھینچ کرلے جاتاہے ۔۔ماءی کلاچی کی تاریخی گلیوں میں آپ کایہ مٹرگشت لگتاہے ایک روز ہمیں بھی تاریخ داں بنادے گا،،،،،،،،،کیوں واجا۔۔۔
Danial Thebo Jun 14, 2013 08:35pm
Well researched and very well written.
یمین الاسلام زبیری Jun 15, 2013 02:11am
بہت خوب البتہ آپ نے رنچھوڑ کا مطلب نہیں بتایا. اصل میں یہ ہندووں کے ایک اوتار تھے. یہ ایک لڑائی، یعنی رن، میں سے اچانک غائیب ہو گئے تھے. یہ شخصیت کچھ ہمارے امام غائب سے ملتی چلتی ہے. انہیں اسی لیے رن چھوڑ کہا چاتا ہے کہ یہ دوران‌ رن اسے چھوڑ کر چلے گئے تھے.
ainee Niazi Jun 15, 2013 11:37am
ایک زما نہ تھا کہ لیاری اور اس سے ملحق تمام علا قے بڑے خو شحال تھے ہر گھر کا ایک فرد قطر مسقط یا طبی کام کررہا ہوتا تھا بو لنے وا لی گڑیا سے لے کر ٹچ ٹی وی تک سے گھر بھڑے پڑے تھے پر کسی کو نام نمود کی خوا ہش بھی نہ تھی اہک ہی محلے میں امیر غریب سب کے گھر تھے مجھے یاد ہے ہمارے پڑوس میں ایک جج صا حب کا بھی گھر تھا ان کے بیٹے ایم بی بی ایس کر رہے تھی ان کے چھو ٹے بہن بھا ئیوں کے ساتھ ہم بھی ان کی میڈیکل ایکیپومنٹ کو تجسس سے ہاتھ لگاتے اور ڈا نٹ کھا تے تھے آج وہ گورنمنٹ ہاسپٹل کے ایم ایس ہیں پر شائد ان کا دل بھی انہی گلیوں میں بھٹک رہا ہو گا پر اب تو اسٹیس کی دیوار اور دہشت گردی کی آگ نے سب کچھ بھسم کر دیا ہے
Dilawar Khan Jun 15, 2013 02:03pm
Commendable information about Ranchorr Line. Loved every single word of the writing. Thanks Akhtar Sa'ab. Keep this coming so our Iphone-made youth get to know the 'real' reality of our culture. Take care. Peace.
mudasersh Jun 15, 2013 03:01pm
آداب عرض۔ کوئی آٹھ برس گذرے رنچھوڑ لائن میں ایک بہت ہی پیارے دوست امر سنگھ کے ہاں آنا جانا تھا، پھر پنجاب منتقلی کے بعد گویا سب مناظر قصہ پارینہ ہو گئے۔ آج اس تحریر کو پڑھ کر گویا ایک بار پھر کراچی چلا آیا ہوں۔ رنچھوڑ لائن کی بہت اعلٰی منظر کشی ہے، یوں محسوس ہوتا ہے کہ رنچھوڑ لائن کی گلیوں اور سڑکوں پر گھوم پھر رہا ہوں۔ پیچیدہ سماجی مسائل کوبڑے عمدہ اور آسان پیرائے میں قلم بند کرنا تو اختر بلوچ صاحب کے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا ہی لیکن معلوم نہ تھا کہ جناب کو منظر نامے لکھنے میں بھی اس قدر ملکہ ہے۔ سچ پوچھئے تو اب ملک عزیز میں ایسے نباض ناقد، اور لکھاری اب خال خال ہی رہ گئے ہیں۔ اللہ پاک بلوچ صاحب کے قلم میں اور طاقت دے اور ان کو عمر خضر عطا کرے۔ آمین اختر بلوچ صاحب سے ایک درخواست ہے کہ مہربانی فرما کر ہمیں ایسی نادر تحریروں سے مستفید فرماتے رہا کیجیے۔
Adeel Pathan Jun 16, 2013 04:00am
What a remarkable piece by you and it seems we are traveling back to historic Karachi. The way you articulate the history and got it narrated by a common person makes it very understandable for people from all walks of life. Keep up our journey into our glorious history to progress. Adeel Pathan
Kamran Jun 16, 2013 09:31am
Bohat maza aya parh kar. Likthe rahain...na sirf mazi balke haal ka naqsha bhi khenchte rahiye. Shukriya.
Sara Urooj Jun 19, 2013 07:11am
Beautiful and very informative
ijazkhansahu Jun 19, 2013 02:57pm
Karachi ki gali gali ka history k sath taruf acha hy
2-‘کراچی کا ‘رنچھوڑ لائن | Dawn Urdu Jun 22, 2013 04:01am
[…] یہ اس بلاگ کا دوسرا حصّہ ہے، پہلا حصّہ پڑھنے کے لئے کلک کریں. […]
ashraf Jun 25, 2013 09:31am
Akhtar Baloch is a very learned fellow and 'Urdu Daan' and its always delightful to read his write ups. Its a wonderful piece of work and very informative about the life style of Salawats on Ranchor Lane.