حکام کے شکار کے سیزنز

اپ ڈیٹ 06 نومبر 2014
تذلیل اور زخم حکومتی عہدیداران کے پیکج کا حصہ ہیں، ان پر مشتعل افراد کے حملے معمول کا حصہ بن چکے ہیں۔
تذلیل اور زخم حکومتی عہدیداران کے پیکج کا حصہ ہیں، ان پر مشتعل افراد کے حملے معمول کا حصہ بن چکے ہیں۔

اس کے سر کے زخم سے خون ٹپک رہا تھا، لیسکو کے عہدیدار نے بدھ کو اچھرہ لاہور میں واقع اپنے ایک دفتر میں اپنی بے بسی کی تصویر پوسٹ کی ہے، اس عہدیدار کو مشتعل صارفین نے اپنا غصہ نکالنے کے لیے پنچنگ بیگ کے طور پر استعمال کیا تھا۔

لیسکو کے اہلکار اس متاثر شخص کے ارگرد کھڑے بے بس اور احمق نظر آرہے ہیں، وہ سب ایسی بطخیں ہیں جو حد سے زیادہ بلنگ اور نااہل پاور انتظامیہ سے تنگ افراد کے ہاتھوں شکار ہوجاتی ہیں اور منطقی طور پر ایسے پاکستانیوں کی تعداد میں اضافہ ہی ہورہا ہے۔

تذلیل اور زخم حکومتی عہدیداران کے پیکج کا حصہ ہیں، ان پر مشتعل افراد کے حملے معمول کا حصہ بن چکے ہیں اور ان عہدیداران کی بدقسمتی یہ ہے کہ انہیں مناسب تحفظ بھی فراہم نہیں کیا جاتا۔

پولیس تمام محکموں میں سب سے ازیادہ استحصال زدہ ادارہ ہے جو اپنے سربراہان کے ایجنڈوں سے سب سے زیادہ متاثر ہوتا ہے اور وہ ہمیشہ سے ہی سب سے آسان ہدف ثابت ہوا ہے، جس کے بارے میں یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اس نے سب سے نفرت کیے جانے والے ادارے کے خطاب کو خود سے دور رکھنے کے لیے سرگرم کوششیں نہیں کیں، مگر یہ کسی بھی فرد جو سرکاری ملازمت کرتا ہو، کے لیے عوامی نفرت سے بچنا ممکن نظر نہیں آتا۔

سال کے دو حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے ایک موسم گرما جو طویل دورانیے کا ہوتا ہے اور دوسرا موسم سرما جو کا دورانیہ کچھ ماہ تک محدود ہوتا ہے، حکام کی کتابوں میں عوامی اشتعال کے لیے موسم گرما کو اہم ترین قرار دیا ہے یعنی وہ ایسا سیزن ہے جس میں لوگ لیسکو حکام کا تعاقب کرتے نظر آتے ہیں، سردیاں سبک روی سے گزر جاتی ہیں جب لیسکو نظروں سے دور ہوجاتا ہے اور شکاریوں کی نظر سوئی گیس کے ملازمین پر مرکوز ہوجاتی ہیں۔

لیسکو اور سوئی گیس کے نچلے طبقے کے ملازمین سپلائی کی معطلی کے باعث پیدا ہونے والے اشتعال کا سامنا کرتے ہیں، گرمیاں گیس حکام کے لیے سکون دہ ثابت ہوتی ہیں اور وہ اس عرصے کو اکتوبر سے شروع ہونے والے خراب عرصے سے نبردآزما ہونے کے لیے استعمال کرنا پسند کرتے ہیں۔

اسی طرح یہی وجہ ہے کہ لیسکو حکام بھی سردیوں کے مہینے میں خود کو عوامی حملوں سے کافی محفوظ محسوس کرتے ہیں جب بجلی کے شارٹ فال کے نتیجے میں کسی متاثرہ گروپ کی جانب سے پرتشدد ردعمل آنے کا خطرہ کم ہوتا ہے۔

تاہم یہ اصول کئی بار ٹوٹ بھی جاتا ہے، خاص طور پر حالیہ چند برسوں کے دوران۔

کسی زیادہ بل یا کسی جگہ بجلی کے ٹرانسفارمر کی خاموشی لیسکو حکام کو آف سیزن میں بھی فائرنگ لائن کی زد میں لے آتی ہے۔

موسموں کی تبدیلی کے آغاز کے ساتھ چند روز قبل ملتان کے ایک علاقے کے رہائشیوں نے سوئی گیس کے ایک نچلے عہدے کے عہدیدار کو پکڑلیا، دیکھا جائے تو وہ نوجوان شخص خوش قسمت تھا کہ اس نے خود کو ایسے ہجوم کے گھیرے میں پایا جو روایتی طریقہ کار کے مطابق کسی کو جسمانی سزا دینے کی بجائے کچھ اختراج کا خواہشمند تھا۔

اس ہجوم نے اس شخص کو ایک پنجرے جیسے کیوبیکل میں قید کردیا جو اس کی تذلیل کے لیے کافی تھا، ہجوم نے اس نوجوان پرعلاقے کے سی این جی اسٹیشنز سے سازباز کا الزام عائد کیا گیا جس کی وجہ سے علاقے کے گھروں کے لیے گیس کا پریشر بہت کم ہوگیا۔

ابھی تو یہ صرف آغاز ہے اور موسم سرما کو آنے میں ابھی وقت لگے گا مگر پنجرے کی شکل میں بہتری عوام میں پائے جانے والے فرسٹریشن کی سطح اور نئی بلندی کی جانب اشارہ کرتی ہے جو میڈیا کی توجہ حاصل کرنا چاہتے ہیں اور اس سیزن میں اپنے بیان سامنے لانا چاہتے ہیں۔

اس سے پھر اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ عوام کسی غلطی پر سرکاری ملازم کو ذلیل کرنے والی سزا پر یقین رکھتے ہیں، یہ ہجوم رواں برس اس مقبول تھیٹر میں چند حقیقی اضافے کرسکتا ہے۔

حکومتی رٹ کو یقینی بنانے کے لیے صف اول میں موجود حکام اپنے کیرئیر کو شو کرتے ہوئے کچھ عالمی اعزازات دکھا سکتے ہیں مگر عوامی گیلری میں وہ ہمیشہ ہی ناکام قرار پاتے ہیں، یہ وہ افراد ہوتے ہیں جن کا ہمیشہ مذاق اڑایا جاتا ہے اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے معاملات ہموار رکھنے کے ٹاسک سے کوئی خوفزدہ یا اس کا احترام نہیں کرتا، یہاں ہمیشہ ایسے واقعات سامنے آتے رہتے ہیں جو حکام کی عزت عوام کی نظر میں ختم کرکے رکھ دیتے ہیں۔

اس کی ایک مثال رواں برس کے شروع میں ایک نو ماہ کے بچے پر پولیس کی جانب سے مقدمہ درج کرلینا تھا، جو گیس حکام کے لاہور کے ایک علاقے میں چھاپے کے دوران رہائشیوں کی مزاحمت کے واقعے کے بعد قانونی کارروائی کے باعث پیش آیا۔

پولیس نے غلطی کرتے ہوئے نو ماہ کے بچے کا نام بھی سرکاری کاموں میں رکاوٹ ڈالنے والے ملزم کے طور پر درج کرلیا جس سے ہمدرد روحوں کو بغیر کسی کوشش کے اس مقدمے کے دیگر تمام پہلوﺅں کو دھندلانے کا موقع مل گیا، وہاں موجودحکام جو اپنے معمول کا کام کرنے آئے تھے، پر مہم جوئی کا الزام عائد کردیا گیا اور ان کے اوپر بیٹھے افراد نے عوامی اشتعال کم کرنے کے لیے انہیں قربانی کا بکرا بنادیا۔

اگر اس گیم کو جاری رکھنے کی اجازت دی گئی تو یہ بہت خطرناک ثابت ہوسکتی ہے وہ تمام افراد جو عوامی سطح پر نظام میں بہتری کا وعدہ کرتے ہیں ان سب کو بتدریج ان زمینی حقائق کا سامنا کرنا پڑے گا۔

انہیں خو اس طویل المعیاد چیلنج کو قبول کرنا چاہئے جس کے تحت حکومتی اداروں کے تصور کی بحالی کو بتدریج بہتر بنایا جائے، کیونکہ اس سطح پر وہ براہ راست عوامی خواہشات، ان کے برہم مزاج اور مطالبات کے سامنے خود کو مشکل کا شکار محسوس کرسکتے ہیں اور ان کے غصے کا شکار ہوسکتے ہیں۔

ہمارے پاس ایسے افراد کی مثالیں موجود ہیں جنھیں نظام کا مزاج سمھنے اور بہتری کی ذمہ داری سونپی گئی مگر وہ ہی تشدد کو پروموت کرتے پائے گئے۔

ایک حالیہ واقعہ جو سرگودھا میں گزشتہ دنوں اس وقت پیش آیا جب قومی اسمبلی کے ایک رکن جو حکمران جماعت مسلم لیگ نواز سے تعلق رکھتا تھا، کی قیادت میں سوئی گیس کے ایک دفتر پر حملے کو سراہا گیا، جو گیس حکام کی جانب سے ایک کنکشن کو بحال نہ کرنے پر سخت غصے میں تھا اور یہ بتایا جارہا ہے کہ وہ رکن گیس بل ڈیفالٹر تھا وہ بھی چھوٹے نہیں بڑے پیمانے پر۔

صحافی ایم این اے تک تو رسائی حاصل نہیں کرسکے تاہم انہیں رکن کے سیکرٹری کی جانب سے ایک وضاحت ضرور مل گئی، یہ قانون کی کوئی معمولی خلاف ورزی نہیں تھی، بلکہ وضاحت کے مطابق وہ رکن اسمبلی ایک انقلابی مشن پر تھا، اس نے اٹھ کر یہ چھاپہ مارا تاکہ اس امر کو یقینی بنایا جاسکے کہ گیس حکام بھی اسی طرح ذمہ داری سے اپنا کام کرسکیں جیسا وہ مذکورہ رکن کررہا ہے۔

انگریزی میں پڑھیں۔


لکھاری ڈان لاہور سے تعلق رکھتے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں