غیرت کے نام پر قتل کیخلاف سخت ترین قوانین کی تجویز

17 نومبر 2014
رواں سال مئی میں لاہور ہائی کورٹ کے سامنے فرزانہ نامی خاتون کو قتل کیا گیا تھا—اے ایف پی فائل فوٹو۔
رواں سال مئی میں لاہور ہائی کورٹ کے سامنے فرزانہ نامی خاتون کو قتل کیا گیا تھا—اے ایف پی فائل فوٹو۔

لاہور: پنجاب حکومت غیرت کے نام پر قتل کے خلاف سخت ترین سزاؤں کے حوالے سے منصوبہ بندی کررہی ہے اس کے باوجود کہ متاثرین کے ورثاء قاتلوں کے ساتھ کسی قسم کا سمجھوتہ ہی کیوں نہ کرلیں۔

یہ تجویز لاہور ہائی کورٹ کے سامنے رواں سال مئی میں فرزانہ نامی خاتون کی ہلاکت کے بعد ویمن ڈیویلپمنٹ ڈپارٹمنٹ کی جانب سے دی گئی ہے۔

قوانین میں تبدیلی کے لیے ایک سمری وزیراعلیٰ کو بھجوائی گئی جس کے بعد سابق وزیر قانون رانا ثناءاللہ کی قیادت میں ایک کمیٹی تشکیل دی گئی تھی۔

ذرائع نے ڈان کو اتوار کے روز بتایا کہ کمیٹی نے چند روز قبل ایک اجلاس کے دوران غیرت کے نام پر قتل کو سمجھوتے کے تحت ختم کیے جانے کے طریقہ کار کو ختم کرنے کے حوالے سے گفتگو کی۔

تاہم اجلاس جس میں حکومتی اراکین، سول سوسائٹی کے ممبران اور مذہبی اسکالرز نے شرکت کی، کو آگاہ کیا گیا کہ اس پر مذہبی حلقوں کی جانب سے اعتراض کیا جاسکتا ہے۔

1990 سے قبل اس جرم پر باہمی رضامندی کے تحت سمجھوتہ ممکن نہیں تھا تاہم بعد میں مذہبی اسکالرز اور اسلامی نظریاتی کونسل کی تجاویز کے بعد اسے تبدیل کردیا گیا۔

ان کا نقظہ نظر یہ تھا کہ اسلام قتل کے مقدمات میں سمجھوتے کی اجازت دیتا ہے اس لیے غیرت کے نام پر قتل کو قابل راضی جرم بنایا جائے۔

ذرائع کے مطابق اجلاس کو بتایا گیا کہ اسلامی نظریاتی کونسل کی تجاویز کے بعد اس ناقابل راضی جرم بنانے پر مذہبی حلقوں میں اعتراض اٹھایا جائے گا۔

ایک اور تجویز یہ دی گئی کہ پاکستان پینل کوڈ کے سیکشن 311 میں تبدیلی کی جائے جس کے تحت عدالتیں اس جرم میں ’فساد فی الارض‘ کے ایکٹ کے تحت کسی قاتل کو سزا دے سکتی ہیں، چاہیں ورثاء کسی سمجھوتے کے تحت قاتل کو معاف بھی کردیں۔

تجویز میں کہا گیا کہ اس قانون کو ایسے معاف کیے جانے والے قاتلوں کے خلاف استعمال کیا جائے جن کا معافی میں بھی جرائم کا ریکارڈ ہو، یا جس نے سفاکانہ اور چونکادینے والا انداز قتل اپنایا ہو، یا پھر جو معاشرے کے لیے ممکنہ طور پر خطرہ ہو۔

سیکشن میں 2011 میں بھی ترمیم کی گئی تھی جس کے تحت کچھ کیسز میں ورثاء کی جانب معافی ملنے کے بعد بھی قاتل کو عدالت عمر قید (25 سال)، 14 سال کی قید یا پھر موت کی سزا سنا سکتی ہے۔

قانون کے تحت کسی بھی صورت میں ایسے کسی کیس میں دس سال سے کم جیل کی سزا نہیں ہونی چاہیے۔

ذرائع نے بتایا کہ مذہبی اسکالرز پر مشتمل ایک سب کمیٹی 15 روز کے اندر اپنی تجاویز پیش کرے گی۔

ایک آفیشل نے بتایا کہ حکومت غیرت کے نام پر قتل کی حوصلہ شکنی کرے گی اور قانون میں موجود خامیوں کو دور کیا جائے گا۔

تبصرے (0) بند ہیں