کھایا پِیا کچھ نہیں، گلاس توڑا بارہ آنے
جس وقت پاکستانی وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف اور ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی اونچے اخلاقی اقدار کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک دوسرے سے رسماً ہاتھ ملا رہے تھے، اُس وقت ہی جموں و کشمیر میں ہندوستانی فوج اور مُسلح شدت پسندوں کے مابین جھڑپوں میں تین فوجیوں سمیت دس افراد کی ہلاکت ہوئی۔
ویسے تو پاکستان میں کروڑوں کی آبادی ہے اور ہندوستان تو آبادی میں ایک ارب سے کوسوں دور نِکل چکا ہے۔
مگر حیرانگی کی بات یہ ہے کہ دونوں ممالک میں رہنے والوں کو یہ سمجھ کیوں نہیں آتا کہ جب بھی دونوں ممالک دوستی کے لیے آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں تو کوئی نا کوئی حالیہ کشمیر جیسا واقع رونما ہوجاتا ہے، جس کا الزام ہندوستان اور پاکستان ایک دوسرے پر لگاتے ہیں۔
جب بھی کوئی شدت پسند کارروائی ہندوستان میں ہوتی ہے، ہندوستان فوراً الزام پاکستانی خفیہ ایجنسیز یا پاکستانی شدت پسندوں پر لگاتا ہے اور پاکستان بھی اپنے پڑوسی کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے اینٹ کا جواب پتھر سے دیتا ہے۔
کیوں دونوں ممالک کے سمجھدار سوچ رکھنے والے دانشور لاکھوں کروڑوں ووٹوں سے منتخب ہونے والی حکومتوں کو یہ مشورہ نہیں دیتے کہ تیسرے ہاتھ کو پہچانو اور مذاکرات کے ذریعے ایسے مضبوط اقدامات کرو کہ کچھ بھی ہو جائے، ہر مسئلے کا حل مذاکرات سے ہی نکالا جائے گا۔
ایسے واقعات رونما ہونے کی دیر ہوتی ہے اور پاک ہندوستان کنٹرول لائن پر اُن فوجیوں کے مابین جھڑپیں شروع ہوجاتی ہیں جو دیگر اوقات میں مٹھائیاں تقسیم کر رہے ہوتے ہیں۔
لاہور کے واہگہ بارڈر پر بھی پرچم کشائی کی تقریب میں مزید جوش بھڑک اٹھتا ہے اور پاکستان زندہ باد کے نعروں کی گونج ہندوستان کا بارڈر بِنا کسی ویزے کے پار کرنے لگتی ہے۔
مگر حیرانگی کی بات یہ کہ دونوں ممالک کی حکومتوں کی باگ ڈور سنبھالنے والے یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ کوئی تیسرا ایسا خفیہ ہاتھ ہے جو یہ نہیں چاہتا کہ ہندوستان اور پاکستان دشمنی کو دوستی میں بدل سکیں۔
اب بات کرتے ہیں impotent سارک کی جس کی اٹھارہویں کانفرنس گزشتہ دنوں کھٹمنڈو میں ہوئی اور جس میں ہندوستان اور پاکستان کے وزرائے اعظم ہاتھ ملانے کے علاوہ کوئی خاطر خواہ کارنامہ سرانجام نہ دے سکے۔
کانفرنس شروع ہونے سے قبل نیپال کے وزیر خارجہ مہندرا پانڈے نے ہندوستان اور پاکستان کے درمیان ثالثی کی پیشکش تو کی تھی، مگر میزبان ملک کے وزیر کی پیشکش دھری کی دھری رہ گئی اور دونوں ممالک کے وزرائے اعظم رسمی ملاقات کے بعد ڈیڈھ ارب لوگوں کے روشن مستقبل کو بالائے طاق رکھتے ہوئے واپس لوٹ گئے۔
ویسے کیا ہی کہنے ایسے میزبان کے، جو دو مہمانوں کے درمیان ایک ملاقات بھی نہیں کرواسکا اور اُس سے بھی بڑھ کر سلام پیش کرنا چاہیے سارک کے تمام اراکین ممالک کو، جو اِس کُنبے کے دو بڑے بھائیوں کو اکٹھے تک نہیں بٹھا سکتے تاکہ ان کے درمیان پائے جانے والے معاملات کو حل کروایا جاسکے۔
ویسے تو خوابِ خرگوش کے مزے لوٹنے والے بڑی بڑی باتیں کرتے ہیں کہ سارک ممالک کے درمیان ویزوں کی پابندی نہیں ہونی چاہیے اور اس سے بڑھ کر یہ ان کی خواہش ہے کہ سارک ممالک کی کرنسی بھی ایک ہو۔
کاش کہ یہ سوچ رکھنے والے یورپی یونین جیسی دیسی یونین بنانے کے خواب دیکھنا چھوڑ دیں اور زمینی حقائق کو مدّ نظر رکھتےہوئے کچھ ایسے اقدامات کریں، جن سے سارک ممالک کے درمیان دوستی ہو نا ہو، مگر دشمنی بھی نا ہو، کیونکہ بد قسمتی سے سارک میں شامل آٹھ ممالک میں سے پانچ ممالک ایسے ہیں، جن کے مابین سالہا سال سے کچھ تنازعات حل طلب ہیں اور جن کا حل نکالے بغیر ان ممالک میں مشترکہ کرنسی اور بغیر ویزے کے سفر تو دور کی بات دوستانہ تعلقات بھی ممکن نہیں۔
مثلاً پاکستان اور ہندوستان کے درمیان تنازعات کے بارے میں تو کچھ لکھنے کی ضرورت نہیں اور ان تنازعات میں سب سے اہم مسئلہ کشمیر ہے، جس کی وجہ سے دونوں ممالک کے درمیان علیحدگی کے بعد سے لے کر اب تک کئی جنگیں اور جھڑپیں ہوچکی ہیں، مگر پھر بھی دونوں ممالک اس مسئلے کے حل میں کوئی پیشرفت نہیں کر رہے۔
پاکستان اور بنگلہ دیش کے مابین حالات ویسے تو 1971 میں جنگ کے نتیجے میں ہونے والی علیحدگی کے بعد سے ہی کچھ اچھے نہیں رہے اور ان میں مزید تلخی بنگلہ دیش کی جانب سے جماعت اسلامی کے لیڈروں کو حالیہ دی جانے والی موت کی سزائیں ہیں، جس کے بعد صرف پاکستانی حکومت ہی نہیں بلکہ پاکستانی عوام میں بھی شدید غم و غصّہ پایا جاتا ہے۔
اس کے علاوہ بنگلہ دیش یہ سمجھتا ہے کہ 1971 میں ہونے والی ہلاکتوں کے پیچھے بھی پاکستان تھا، جس کے بارے میں 2012 میں پاکستانی پارلیمنٹ کے کچھ اراکین نے بنگلہ دیش سے معافی سے متعلق ایک قرارداد بھی پیش کی۔ مگر دسمبر 2013 میں عبدالقادر ملا کی پھانسی کے بعد پاکستانی پارلیمنٹ کی جانب سے مولانا کی پھانسی کی شدید مذمت کی گئی اور کہا گیا کہ مولانا عبدالقادر کو پھانسی دینے کی وجوہات سیاسی ہیں۔
بنگلہ دیش اور ہندوستان کے درمیان تعلقات مشترکہ دشمن (پاکستان) ہونے کی وجہ سےقدرے بہتر ہیں اور ہندوستان کی بنگلہ دیشی بارڈر پر shoot to kill کی پالیسی کے باوجود دونوں کے مابین تعلقات اچھے ہیں۔ ہندوستان کی اس پالیسی کی وجہ سے 2001 سے 2011 تک 1000 سے زائد لوگ مارے جا چکے ہیں۔
ہندوستان اور نیپال کے درمیان تنازع 75 کلومیٹر پر پھیلا ہوا کالا پانی کا علاقہ ہے، جہاں ہندوستان، چین اور نیپال کے بارڈرز ملتے ہیں۔ 1962 میں ہندوستان اور چین کے درمیان ہونے والی جنگ کے بعد سے اس علاقے پر ہندوستان قابض ہے۔
اپریل 2007 میں سارک میں شامل ہونے والا آٹھواں ملک افغانستان ہے جو کہ امریکی فوج کی موجودگی کی وجہ سے علاقے میں بہت اہمیت کا حامل ہے۔
پاکستان اور افغانستان کے مابین تعلقات 1970 سے ہی خراب ہونا شروع ہوگئے تھے جب پاکستان نے افغان باغیوں گلبدین حکمت یار، احمد شاہ مسعود اور حقانیوں کو حکومتِ افغانستان کے خلاف سپورٹ کیا اور تعلقات میں مزید خرابی اُس وقت آئی جب افغان حکومت نے پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی پر افغان طالبان کی مدد کرنے کے الزامات لگائے۔ اس کے علاوہ آئے روز دونوں حکومتوں کی جانب سے ایک دوسرے پر دہشت گرد کارروائیوں میں ملوث ہونے کے الزامات بھی لگتے رہتے ہیں۔
ہندوستان اکلوتا ملک تھا جس نے سوویت یونین کے ڈیموکریٹک ریپبلک آف افغانستان کو سپورٹ کیا۔ ہندوستان نے افغانستان میں بننے والی طالبان حکومت کی مخالفت کی اور 2001 سے شروع ہونے والی جنگ میں ہندوستان نے کولیشن فورسز کی مدد کی۔ موجودہ حالات میں بھی دونوں ممالک کے مابین اچھے تعلقات قائم ہیں۔
افغانستان، ہندوستان اور پاکستان دونوں کے لیے ہی بہت اہمیت کا حامل ہے اور تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ افغانستان کے امن سے ہی پاکستان اور ہندوستان کا امن جڑا ہوا ہے۔ اس کے علاوہ مستقبل میں افغانستان میں ہندوستان اور پاکستان کے درمیان پراکسی جنگ کی باتیں بھی کی جارہی ہیں۔
سارک جو کہ 1985 میں تشکیل پائی اور اب تک اس کی اٹھارہ کانفرنسز ہوچکی ہیں۔ ابھی تک کوئی بھی ایسا کارنامہ سرانجام نہیں دے سکی جس کی وجہ سے یہ امید کی جاسکے کہ یورپی یونین کے طرز پر سارک ممالک میں بھی ویزے کی شرط نہیں ہوگی اور ان ممالک میں ایک ہی کرنسی رائج ہوگی۔ جب تک باہمی تنازعات رکھنے والے ملک دو طرفہ بنیادوں پر اپنے مسائل حل نہیں کریں گے، پر امن، مستحکم، اور ترقی یافتہ جنوبی ایشیا کے لیے کتنی بھی کانفرنسیں کرا لی جائیں، لاحاصل رہیں گی۔












لائیو ٹی وی