مذہبی انتہاپسندی بطور ہتھیار

03 دسمبر 2014
ایک خاتون واہگہ بارڈر پر ہونے والے حملے میں جاں بحق ہونے والوں کی یاد میں مشعل روشن کر رہی ہیں — فوٹو زوما پریس
ایک خاتون واہگہ بارڈر پر ہونے والے حملے میں جاں بحق ہونے والوں کی یاد میں مشعل روشن کر رہی ہیں — فوٹو زوما پریس

مملکتِ خداداد پاکستان کا وجود اسلام کے نام پر عمل میں آیا تھا اور اس میں بسنے والے تمام شہریوں کو مساوی اور یکساں حقوق دینے کا وعدہ بھی کیا گیا تھا۔ اللہ کے رسول ﷺ کی قائم کردہ ریاست مدینہ کو پاکستان کے لیے بہترین رول ماڈل قرار دیا گیا تھا جہاں پر بسنے والے ہر پاکستانی شہری کو اس کے جائز اور آئینی حقوق کے ساتھ ساتھ مذہبی آزادی بھی حاصل ہونی تھی۔ لیکن ضیاءالحق کے تاریک دور سے جنم لینے والی مذہبی انتہاپسندی نے اس ملک کو جس طرح بربادی اور تباہی کے راستے پر گامزن کیا، اب بھی اس کا اختتام دور دور تک ہوتا نظر نہیں آرہا۔

اسلام کے نام پر معصوم لوگوں کا بے دریغ خون بہانے والے مٹھی بھر جنونی انتہاپسندوں نے تہیہ کرلیا ہے کہ پاکستان کو مذہب کے نام پر اب دہشتگردوں کی جنت بنانے کے علاوہ اسلام کی تشریح بھی اپنی مرضی سے ہی کرنی ہے اور انہوں نے طے کرنا ہے کہ کس فرقے کے لوگوں نے زندہ رہنا ہے اور کس مسلک کے ماننے والوں کا اب سانس لینا بھی جرم ہے۔

پاکستان میں ہمیشہ سے توہین رسالت یا توہین قران کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ الزام کا صیح یا غلط ہونا بہت ہی ثانوی بات ہوتی ہے۔ توہین مذہب کا الزام لگا کر کسی کو بھی زندہ جلا دینا، کسی بھی انسان کو سنگسار کر دینا یا اسی کے گھر میں پورے خاندان سمیت قتل کر دینا اب پاکستان میں کوئی جرم ہی نہیں رہا۔ مذہب کے نام پر مشتعل ہجوم کو اپنے ذاتی مقاصد اور فائدے کے لیے استعمال کرنا اور کسی بھی اقلیت یا فرقے کے لوگوں کو خاک و خون میں نہلا دینے کو اب کوئی بزدلانہ اور گھناؤنی حرکت نہیں سمجھا جاتا۔

ان کیسز میں اکثریت ان کی ہے کہ جن کے پیچھے ذاتی دشمنی کارفرما ہوتی نظر آئی ہے یا لین دین کا تنازع اور کہیں زمین پر قبضے کا جھگڑا ہوتا ہے، جس کو نمٹانے کے لیے کسی بھی خودساختہ فتوے کی بنیاد بنایا جاتا ہے۔ اس کے بعد مشتعل ہجوم اور مقامی انتہاپسند مذہبی رہنما ملزم کو قانون کے سامنے لاکر اس پر جرم ثابت کرنے کے بجائے اسی قانون کو پسِ پشت ڈال دیتے ہیں جس کی بنیاد پر وہ کسی بھی شخص کو توہین رسالت یا توہین قران کا ملزم گردانتے ہیں۔ پھر وہ خود ہی منٹوں سیکنڈوں میں بغیر کسی گواہی کے فیصلہ صادر کرتے ہوئے بے رحمانہ سزا بھی دے ڈالتے ہیں۔

ہمارے معاشرے کا اصل المیہ یہ ہے کہ ہم میں برداشت اور بُردباری بالکل ختم ہوچکی ہے۔ اچھے برے اور جائز و ناجائز کی تمیز ختم ہوچکی ہے۔ ہم میں اتنا حوصلہ بھی نہیں رہا کہ اس قسم کے حساس معاملات میں کوئی بھی قدم اٹھانے سے پہلے ہم یہ دیکھ لیں کہ آیا جو قدم ہم اٹھانے جارہے ہیں، اس کی اجازت قانون اور دین میں ہے بھی کہ نہیں۔

اس ملک میں جہاں طالبانائزیشن کا دور دورہ پہلے سے ہی ہے، وہاں مذہبی انتہا پسندی سے ہر شعبہ زندگی بری طرح متاثر نظر آتا ہے۔ دراصل ہمارا پورا معاشرہ ہی مذہبی انتہا پسندی کے موذی مرض میں مبتلا ہوچکا ہے، خصوصاً صوبہ پنجاب میں تو صورتِ حال بہت ہی تشویشناک ہوتی جارہی ہے جس کی بدترین مثال گوجرہ، سمبڑیال اور جوزف کالونی کے واقعات ہیں۔

اسی طرح کا ایک واقعہ ابھی چند ہفتے قبل بھی پیش آیا، جب لاہور سے ساٹھ کلومیٹر دور شہر کوٹ رادھا کشن میں ایک اینٹوں کے بھٹے پر مشتعل ہجوم نے قرآن پاک کی مبینہ بے حرمتی کے الزام پر ایک عیسائی جوڑے کو تشدد کرنے کے بعد انہیں بھٹی میں زندہ جلا دیا۔

اس قسم کے سنگین واقعات کے تدارک اور روک تھام کے لیے حکومت نے کبھی بھی بروقت اور ٹھوس اقدامات نہیں کیے۔ انتہاپسند اور مشتعل ہجوم جب تک اپنے اہداف کو حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوجاتے، اس وقت تک قانون نافذ کرنے والے ادارے محض ایک تماشائی کا کردار ادا کرتے ہیں۔

فرقہ وارانہ فسادات کی ایک طویل تاریخ اس خطہ سے جڑی چلی آرہی ہے لیکن محض شیعہ یا سُنّی ہونے کی بناء پر گھات لگا کر قتل کرنا یا خودکش حملوں میں ایک ساتھ بہت سےلوگوں کو نشانہ بنانا محض چند دہائی قبل شروع ہونے والی بیماریاں ہیں۔

ضیاءالحق دور سے افغان جہاد اور انقلاب ایران کے بعد سعودی برانڈ سنٓی ازم اور ایرانی برانڈ شیعہ ازم کی لڑائی ایسی چھڑی کہ آج عام اور سیدھا سادہ پاکستانی دونوں طرف کی انتہاپسندی اور جنونیت سے بری طرح بیزار ہونے کے باوجود اس عفریت سے جان نہیں چھڑا پارہا۔ دونوں طرف کے علماء اور لیڈران اپنی ذمہ داریاں نبھانے میں مکمل طور پر ناکام نظر آتے ہیں۔

مذہبی اور فرقہ ورانہ انتہاپسندی کو بڑھاوا دینے میں ریاستی ادارے بھی ماضی میں مختلف وجوہات کی بناء پر پیش پیش رہے ہیں اور ایسی پالیسیاں بنتی رہی ہیں جس سے نام نہاد مذہبی و جہادی تنظیموں نے ناجائز فائدہ اٹھا کر اس ملک کی اینٹ سے اینٹ بجادی۔ آج حالت یہ ہے کہ ریاست کے تمام اداروں میں مذہبی انتہاپسندی اپنی جڑیں مضبوط کرچکی ہے اور ریاست پاکستان کے شہریوں کو ہر قسم کی مذہبی، مسلکی اور فرقہ وارانہ دہشت گردی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

دنیا بھر میں ہماری شناخت دہشتگرد کے طور پر کی جاتی ہے۔ ہمارے تمام پڑوسی ممالک سے تعلقات نہایت کشیدہ ہیں۔ اور تو اور ہمارا دیرینہ دوست چین بھی اپنے ملک میں مذہبی انتہاپسندی کے حوالے سے پاکستانی کردار سے کچھ زیادہ خوش نظر نہیں آرہا۔ جہاں دنیا بھر میں ہماری رسوائی ہوئی وہیں اپنے ملک میں ہزاروں معصوم اور بے گناہ شہری اس دہشتگردی کا نشانہ بنے جبکہ فوج، پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں نے بھی اپنے لاتعداد افسران و جوانوں کی قربانی دی۔

ماضی میں حکومتی آشیرباد اور خفیہ اداروں کی ''سچا مسلمان ساز'' پالیسیوں کی جھلک ابھی بھی کبھی کبھار نظر آتی رہتی ہیں جب کالعدم تنظیموں سے تعلق رکھنے والے رہنماؤں کو مکمل سرکاری پروٹوکول کے ساتھ کھلے عام جلسے جلوسوں میں مخالف فرقے یا مسلک کے خلاف اشتعال انگیز تقاریر کرتے ہوئے دیکھیں یا پھر حکومتی پارٹی کے کرتا دھرتاؤں کے ساتھ محبت مشن میں مصروف دیکھیں۔ پنجاب اور بلوچستان انتہاپسندی سے سب سے زیادہ متاثر نظر آتے ہیں جہاں مناسب اور موئثر اقدامات نہ کرنے کی وجہ سے مذہبی انتہاء پسندی بڑھانے میں ریاست براہِ راست ملوث محسوس ہوتی ہے۔ فرقہ ورانہ تنظیموں پر ہلکا ہاتھ رکھنے والی پالیسی کی وجہ سے کالعدم جماعتوں نے دوبارہ دم پکڑ لیا ہے اور انتہاپسندوں نے ہرشعبہ زندگی میں اپنی جڑیں مضبوط کرلی ہیں۔ جو قانون ہاتھ میں لے کر خود ہی مدعی، خود ہی منصف بن کر اپنے ہاتھوں سزا دینے پر یقین رکھتے ہیں، بعض اوقات ریاست خاموش تماشائی بنی ہوئی ہوتی ہے۔ ریاستی اداروں میں موجود جنونی اور مذہبی انتہاپسند جو سرکاری ملازم بھی ہیں، براہ راست دہشت گردی میں ملوث ہیں۔ گورنر سلمان تاثیر کو ان کے اپنے ہی سرکاری محافظ ممتاز قادری نے خود ہی فیصلہ سناتے ہوئے مذہبی جنونیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے سرِعام قتل کر دیا، جس کے بعد سے لے کر آج تک ایک مخصوص انتہاپسندانہ سوچ رکھنے والا طبقہ قاتل کے دفاع میں پیش پیش ہے۔

اسی قاتل کی حفاظت یا خدمت پر معمور جیل پولیس کے ایک اہلکار نے اس قاتل کی تعلیمات سے متاثر ہوکر شہر راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں سزائے موت کے پاکستانی نژاد برطانوی قیدی کو فائرنگ کر کے شدید زخمی کر دیا۔ پنجاب کے شہر گجرات میں ایک پولیس افسر نے لڑائی، جھگڑے کے معمولی الزام میں مقامی تھانے میں زیر حراست ایک ملزم کو دورانِ تفتیش اپنی ہی قائم کردہ خود ساختہ عدالت میں ایک نہایت ہی سرسری سماعت کے بعد اس کو توہینِ رسالت کا مرتکب قرار دے کر اس کی گردن اور سر پر کلہاڑی کے مہلک وار کرکے اسے موت کے گھاٹ اُتار دیا۔ اسی طرح سلمان تاثیر قتل کیس کی تاریخ دہراتے ہوئے بلوچستان میں ایک اقلیتی عیسائی ایم پی اے کو اس کے اپنے ہی محافظ سپاہی نے سرِ عام قتل کر ڈالا۔

سرکاری اور غیرسرکاری اداروں کے ساتھ ساتھ تعلیمی ادارے بھی انتہاپسندوں کی آماجگاہ بن چکے ہیں۔ ملک بھر کے طلبا ہوسٹلز سے پولیس نے متعدد بار کالعدم جماعتوں کے دہشتگرد گرفتار کرکے غیرقانونی اسلحےکی بھاری مقدار برآمد کی ہے۔ اشتعال انگیز اور انتہاپسندانہ لٹریچر تو کسی بھی کالج یا یونیورسٹی میں تقسیم ہونا اب کوئی غیرمعمولی بات نہیں رہی۔

ایک مخصوص نام نہاد مذہبی انتہاپسند ٹولہ ریاست اور معاشرے پر قابض ہوکر اسے اپنی ذہنیت کے ہاتھوں یرغمال بنا چکا ہے۔ یہ انتہاپسند ٹولہ آج ملک میں جاری ہرقسم کی مذہبی انتہاپسندی اور دہشت گردی کا سرپرست اور انہیں گائیڈلائین فراہم کرنے والا بن چکا ہے۔ آج اسی ٹولے کی نمائندہ جماعتیں ریاست کے مدمقابل ہیں۔ اس انتہاپسند ٹولے کے مطابق پاکستان کا آئین غیر شرعی ہے، جبکہ اس انتہاپسندی اور دین فروخت کرنے والے دوکانداروں کے سامنے ملک بھر کے معتبر علماء و مدارس جو اکثریت میں ہیں، خاموش تماشائی قرار پائے ہیں، اس کے باوجود جان کو خطرے میں ڈال کر کچھ علماء داعیِ امن و اتحاد کا کردار ادا کر رہے ہیں۔

اس مسئلے کے تدارک کے لیے ریاست کو کسی بھی ایک مسلک، فرقے اور مذہب کی نمائندگی کے بجائے آزاد اور غیرجانبدار رہ کر ٹھوس اور سخت اقدامات کرنے ہوں گے اور ساتھ ساتھ مذہب کے ٹھیکیداروں کو بھی قانون کی بالادستی کے لیے اپنا فرض ادا کرنا ہوگا۔ جس طرح فوج دہشتگردوں کے خلاف بھرپور آپریشن کررہی ہے، بالکل اسی طرح پاکستانی معاشرے میں روزبروز بڑھتی مذہبی اور فرقہ وارانہ انتہاپسندی کے خاتمے کے لیے ریاست کو بھرپور اور سخت اقدامات کرنا ہوں گے، اور ریاستی مذہبی اداروں پر مخصوص تنگ نظرٹولے اور انتہاپسند سوچ کی اجارہ داری کا خاتمہ کرنا ہوگا۔ ضیاء الحق کے سیاہ دور کی مخصوص پالیسی کو ہمیشہ کے لیے دفن کردینا ہوگا۔ ریاستی اداروں کو اب شیعہ سُنّی کی تفریق سے نکلنا ہی پڑے گا۔ حکومتی اداروں کو اب اپنی صفوں کو مذہبی جنونیوں سے پاک کرنا ہوگا۔

ریاست کو ہر مسلک کے معتدل علماء کرام و مدارس کو متعارف اور ان کی حوصلہ افزائی کرنا ہو گی جبکہ مذہب فروخت کرنے والے اور فتوؤں کی لوٹ سیل لگانے والے مذہبی ٹھیکہ داروں کو روکنا ہوگا۔ معتبر، قابلِ احترام اور سنجیدہ علماء و زعماء سے گزارش کرنی ہوگی کہ اس قسم کے انتہاپسند عناصر جو اپنے مذموم مقاصد کے لیے مذہب کو بطور ہتھیار استعمال کرتے ہیں، ان سے مذہب کو بازیاب کرائیں اور کھلم کھلا دست برداری کا اعلان کریں۔ اب ہمیں یہ بات سمجھ میں آجانی چاہیے ورنہ وہ وقت دور نہیں جب ہماری پہچان ہی خودکش حملہ آور، عدمِ برداشت، انتہاء پسندی اور دہشت گردی ہوا کریں گے۔

تبصرے (0) بند ہیں