سال کتنا اچھا یا کتنا برا رہا، یہ تجزیہ خواتین کے کردار کو مدِنظر رکھے بغیر نہیں کیا جاسکتا — رائٹرز
سال کتنا اچھا یا کتنا برا رہا، یہ تجزیہ خواتین کے کردار کو مدِنظر رکھے بغیر نہیں کیا جاسکتا — رائٹرز

کسی ایک سانحے سے گزرتے ہوئے کسی اور سانحے کے بارے میں لکھنا ایک انتہائی دشوار کام ہے۔ اب جبکہ پاکستانی سانحہ پشاور کے صدمے سے باہر آنے کی کوشش کرتے ہوئے تعزیتیں وصول کر رہے ہیں، اپنے بے یار و مددگار ہونے کا اندازہ لگا رہے ہیں، اور ایک ناخوشگوار اور اداس مستقبل سے نظریں چرانے کی کوشش کر رہے ہیں، تو یہی وقت یہ جاننے کا بھی ہے کہ جاتا ہوا سال کیسا رہا۔ اور ایسا کرتے ہوئے خواتین کے کردار کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔

کیا یہ خواتین کے لیے ایک اچھا سال تھا؟

کیا ان کی شناخت وہ پاکستانی بچی بنی جس نے نوبیل پرائز جیتا، یا وہ خاتون جسے کورٹ کے احاطے میں سنگسار کردیا گیا؟ یہ کامیابیوں کا سال تھا یا ناکامیوں کا؟ خوشی کا یا افسردگی کا؟ امید کا یا پچھتاوے کا؟


جانچ شروع کرنے سے پہلے ہمارے پاس اعداد و شمار ہیں۔ پاکستان میں خواتین سے زیادہ مرد پیدا ہوتے ہیں، یعنی ہر 100 لڑکیوں کے مقابلے میں 105.7 لڑکے۔ پھر ان میں سے جو لڑکیاں زندہ بچ جاتی ہیں، ان میں سے تقریباً 40 فیصد تعلیم کے زیور سے آراستہ نہیں ہوپاتیں، اور کبھی بھی نہ اپنا نام لکھ سکتی ہیں اور نہ ہی دستخط کرسکتی ہیں۔ تعلیم سے بے بہرہ یہ زندگی طویل ہونے کے کافی امکانات ہوتے ہیں۔ 1970 سے پاکستانی خواتین کی اوسط عمر 53 سال سے بڑھ کر 66.4 سال ہوچکی ہے۔

وومن آف دی ایئر: پاکستانی مائیں

پاکستان کی 150 کے قریب ماؤں نے اس سال کے آخری مہینے میں اپنے جگر کے ٹکڑوں کو مٹی کے حوالے کیا، اور ان کی ہمت کو سلام کیے بغیر آگے نہیں بڑھا جاسکتا۔ بچوں کے جنازوں کے دل شکن مناظر اس بات کا تقاضہ کرتے ہیں کہ سال 2014 کے آخری لمحات انہی کی یاد میں گزارے جائیں۔

پاکستان کی 75 فیصد سے زیادہ خواتین ماں بنیں گی، اور اپنے بچوں کو اس ملک میں جنم دیں گی جہاں ان کے لیے بہت کم گارنٹیاں موجود ہیں۔ اگر کوئی الفاظ اس ملک کی خواتین کی ذہنی صورتحال کی عکاسی کریں گے، تو وہ آرمی پبلک اسکول کی ہیڈ مسٹریس طاہرہ قاضی کے وہ الفاظ ہوں گے، جو انہوں نے طالبان حملہ آوروں کو کہے 'مجھ سے بات کرو، میں ان کی ماں ہوں۔'

طاہرہ قاضی اب جاچکی ہیں، لیکن ان کی بہادری میں پاکستانی خواتین کو، ابھی کی اور مستقبل کی ماؤں کو، اپنے سامنے موجود چیلنج واضح طور پر نظر آرہا ہے، جو سال کے گزرنے کے ساتھ ختم نہیں ہوگا۔

پڑھیے: جناب اردگان ہم ماؤں کے ساتھ اور بھی بہت کچھ ہیں

پاکستانی ماؤں کی اکثریت خود بھی بچپن میں ہی ہوتی ہے۔ ایک حالیہ تحقیق میں اس بات کا انکشاف ہوا ہے کہ 20 سے 24 سال عمر کی آدھے سے زیادہ شادی شدہ پاکستانی خواتین کی شادیاں 18 سال سے کم عمر میں ہوئیں۔ لیکن پھر بھی یہ اعداد و شمار 1950 کی دہائی کے مقابلے میں کافی بہتر ہیں، جب یہ عمر 13.3 سال تھی، اور اب بڑھ کر تقریباً 23 سال ہوچکی ہے۔

اس میں حیرت کی بات نہیں کہ کم عمر ترین خواتین ہی سب سے غریب اور کم تعلیم یافتہ ہوتی ہیں، اور وہ ملک کے ان دیہاتی علاقوں میں رہتی ہیں جہاں صحت کی خدمات نہ ہونے کے برابر ہوتی ہیں۔ ملک کی امیر ترین خواتین کے 77 فیصد کے مقابلے میں غریب ترین پاکستانی خواتین کی صرف 20 فیصد تعداد کو ہی بچوں کو جنم دیتے وقت طبی مدد حاصل تھی۔

ایک پاکستانی ماں اپنی زندگی کے دوران 3.8 بچوں کو جنم دے گی، جو کہ دنیا میں بلند ترین شرحوں میں سے ہے۔ ماؤں کی صحت کے معاملے میں پاکستان پوری دنیا میں صرف افغانستان سے بہتر ہے۔ پاکستانی ماؤں کی صرف چوتھائی تعداد کو ہی حمل روکنے کی سہولت میسر ہے۔

وہ خواتین جو ماؤں کی دیکھ بھال کے لیے جاتی ہیں، اس سال انہیں بھی نشانہ بنایا گیا۔ لیڈی ہیلتھ ورکرز کو نشانہ بنایا گیا جن میں سے کئی خود بھی ماں تھیں، اور ان ماؤں کی طبی دیکھ بھال کے لیے جاتی تھیں جنہیں کسی اور قسم کی طبی امداد میسر نہیں ہوپاتی۔

نومبر کے آخری دنوں میں جب پولیو سے متاثرہ بچوں کی تعداد 260 ہوکر دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہوگئی، تو چار مزید لیڈی ہیلتھ ورکرز کو فرائض پورے کرنے کی سزا موت کی صورت میں دی گئی۔

لیکن صرف دہشتگردوں کی جانب سے نشانہ بنایا جانا ہی ان ماؤں کی واحد پریشانی نہیں تھی۔ اپنے مرد ساتھیوں کی جانب سے جنسی طور پر ہراساں کیے جانے کے کئی واقعات میں مانسہرہ کی فوزیہ بی بی کا کیس بھی شامل ہے، جنہیں چہرے پر طمانچہ رسید کیا گیا اور گالیاں دی گئیں۔ جب ڈاکٹر جمشید کو کیس کا سامنا کرنا پڑا، تو انہوں نے کہا کہ لیڈی ہیلتھ ورکر نے ان پر حملہ کیا تھا۔ لیکن ان تمام مشکلات کے باوجود پاکستان کی لیڈی ہیلتھ ورکرز نے اپنا کام جاری رکھا۔

ایسی مائیں ہیں جو سوگوار ہیں، اور ایسی مائیں ہیں جن پر سوگ کیا جانا چاہیے۔ 2014 ابھی نصف ہی گزرا تھا کہ 27 مئی کی شام کو حاملہ خاتون فرزانہ پروین کو لاہور ہائی کورٹ کے احاطے میں سنگسار کردیا گیا۔

مزید پڑھیے: پاکستانی خواتین کی موجودہ نسل تبدیلی لائے گی

واقعے کی ابتدائی رپورٹس کے مطابق پروین کو اس کے خاندان نے اپنی پسند کے آدمی سے شادی کرنے پر سنگسار کیا تھا۔ ابتدائی رپورٹس کے مطابق لڑکی کے باپ نے اسے قتل کرنے کا اعتراف کیا۔ لیکن بعد کی رپورٹس میں مزید پیچیدگیاں سامنے آئیں، جس کے مطابق پروین کا شوہر محمد اقبال اپنی پہلی بیوی کے قتل میں بھی ملوث تھا۔

جب اس نومبر کیس کورٹ میں آیا، تو فرزانہ پروین کا باپ، بھائی، کزن، اور ایک اور شخص کو اس کی موت کا مجرم پایا گیا۔ وہ اپنوں کے ہی ظلم کا شکار ہوئی۔ اس طرح کی موت کا سامنا کر کے وہ ہر سال غیرت کے نام پر قتل ہونے والی تقریباً 1000 خواتین کی لسٹ میں شامل ہوگئی۔ 2014 میں سب سے بھیانک اور سب سے مشہور کیس یہی تھا۔

یہ جاچکا سال وہی سال ہے جس میں ایک عورت کو سزائے موت سنائی گئی۔ پانچ بچوں کی ماں آسیہ بی بی کی توہینِ مذہب کیس میں رحم کی اپیل مسترد ہونے کے بعد 17 اکتوبر 2014 کو لاہور ہائی کورٹ نے سزائے موت برقرار رکھنے کا حکم جاری کیا۔ 2 دسمبر 2014 کو ان کے وکیل نے پاکستانی سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی۔ اگر ان کا کیس نہیں سنا گیا، تو وہ اپنی سزائے موت پر عملدرآمد کا انتظار کریں گی۔

پاکستانی عورتیں اسی ہنگامہ خیز سمندر میں موجود ہیں، جو 2015 میں بھی اتنا ہی بپھرا ہوا رہے گا جتنا 2014 میں رہا ہے۔ ہاں کامیابیوں، امیدوں، اور ایوارڈز کی کچھ خوش آئند خبریں بھی موصول ہوئی ہیں۔

لیکن کوئی بھی وعدہ اور امید کی کوئی بھی کرن اس وقت بے معنی لگنے لگتی ہے جب ان 200 ماؤں کو دیکھا جاتا ہے، جو یا تو اپنے پیارے بچوں کو دفنا چکی ہیں، یا تھرتھراتے لبوں کے ساتھ اپنے زخمی بچوں کی صحتیابی کے لیے دعاگو ہیں۔

انگلش میں پڑھیں۔

تبصرے (0) بند ہیں