انسانی حقوق کی تنظیموں کی سویلینز کو پھانسی دینے کی مخالفت
اسلام آباد:انسانی حقوق کی تنظیموں نے ایسے شہریوں کی پھانسی کی سزا پر عمل درآمد کی مخالفت کردی جن کو دہشت گردی کے مقدمات کے علاوہ دیگر مقدمات میں یہ سزا سنائی گئی تھی اور کہا ہے کہ ’یہ حکومت کی اپنی پالیسی کے خلاف ہے‘۔
پشاور میں دہشت گردوں کی جانب سے آرمی پبلک اسکول میں 150 افراد کے قتل کے بعد حکومت نے ملک میں چھ سال سے (2008 میں) کالعدم قرار دی گئی پھانسی کی سزاؤں کو بحال کردیا ہے۔
اس واقعے کے بعد 500 سے زائد مجرموں کو بھانسی کی سزا کا فیصلہ ہو چکا ہے جن میں سے اب تک 20 کو پھانسی دی جاچکی ہے۔
رواں ہفتے سہیل سرور نامی ایک شہری کے ڈیتھ وارنٹ جاری ہونے کے بعد ملک بھر میں ایک سوال اٹھ گیا ہے کہ کیا حکومت دیگر 8 ہزار شہریوں کو جو دہشت گردی کے واقعات میں ملوث نہیں ہیں، کی پھانسی کی سزاؤں پر عمل درآمد کروانے جارہی ہے۔
سہیل سرور اسلام آباد سے 25 کلو میٹر دور واقع ہری پور جیل میں قید ہے۔
سہیل کی پھانسی کیلئے 3 فروری کے ڈیتھ وارنٹ جاری ہوئے ہیں جس کے بعد انسانی حقوق کی تنظیموں نے سوالات اٹھانا شروع کر دیئے ہیں۔
برطانیہ کے لیگل چیرٹی سے منسلک کیٹ ہینگم نے خبر رساں ادارے اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستانی حکومت کی پالیسی اس حوالے سے کلیئر ہے کہ ان لوگوں کو پھانسی دی جائے گی جو دہشت گردی میں ملوث ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ مذکورہ کیس میں شاید جج اس قانون یا حکومتی پالیسی کو سمجھ نہیں سکا یا ان کو مقتول کے لواحیقین کی جانب سے دباؤ کا سامنا ہے۔
تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ ملک میں دہشت گردی میں ملوث ہونے والے مجرموں کے علاوہ دیگر شہریوں کو پھانسی دی گئی تو اس سے پاکستان پر یورپی یونین کی جانب سے ٹیکسٹائل کی صنعت کو ٹیکس کی چھوٹ کے معاہدے پر حکومت کو مشکلات کا سامنا کرنے پڑے گا۔












لائیو ٹی وی
تبصرے (1) بند ہیں