تھرپارکر: خودکشیوں کے رجحان میں خطرناک اضافہ

اپ ڈیٹ 16 فروری 2015
تھرپارکر کے مکین بارشیں نہ ہونے کی وجہ سے صوبے دیگر علا قوں کو ہجرت کرجاتے ہیں۔ —. فائل فوٹو اے ایف پی
تھرپارکر کے مکین بارشیں نہ ہونے کی وجہ سے صوبے دیگر علا قوں کو ہجرت کرجاتے ہیں۔ —. فائل فوٹو اے ایف پی

حیدرآباد: سندھ میں کوئلے کے ذخائر سے مالا مال تھرپارکر کے علاقے اسلام کوٹ میں غربت سے تنگ آکر ایک 41 سالہ شخص نے اپنی 10 سالہ بیٹی کے ساتھ کنوئیں میں چھلانگ لگا کر خودکشی کرلی۔

تھرپارکر میں خشک سالی اور غربت سے پریشان مکینوں کی جانب سے گزشتہ چند سالوں میں اپنے بچوں کے ساتھ خودکشیوں کا رجحان انتہائی خطرناک حد تک بڑھتا جارہا ہے اور یہ واقعہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی بتایا جاتا ہے۔

خوکشی کرنے والے امیر علی ساند کے کزن شاکر دین ساند کا کہنا تھا کہ اس کا کزن امیر علی قرضے کی ادائیگی کی وجہ سے بہت پریشان تھا جو اس نے گزشتہ تین سالوں سے زیرعلاج اپنی بیوی کے علاج معالجے کے لیے لوگوں سے قرض لے رکھا تھا، اس کی بیوی بیماری کی وجہ سے انتقال کرگئی۔

شاکر نے بتایا کہ امیر نے اپنی 10 سالہ بیٹی حاجرہ کے ساتھ خودکشی کی ہے، حاجرہ ایک گورنمنٹ پرائمری اسکول میں زیر تعلیم تھی۔

اپنی دس سالہ بیٹی کے ہمراہ کنوئیں میں کود کر خودکشی کرنے والا امیر ایک ہوٹل میں ملازم تھا، جہاں سے وہ روزانہ 200 سے 300 روپے تک کما لیتا تھا، لیکن ان پیسوں میں اس کے خاندان جس میں بیوی اور بیٹی حاجرہ کے علاوہ دو بیٹے بھی شامل تھے، کی ضروریات زندگی کو پورا کرنا مشکل تھا۔

تھر پارکر میں بارشیں ہی فصلوں، مویشیوں اور انسانوں کے لیے زندگی برقرار رکھنے کا واحد ذریعہ ہیں۔ اگر علاقے میں بارشیں نہ ہو تو یہاں کے مکین اپنے خاندان کی کفالت کے لیے دیگر علاقوں کی جانب نقل مکانی پر مجبور ہو جاتے ہیں۔

عام طور پر صرف خاندان کے مرد ہی روز گار کے لیے دیگر علا قوں کا رُخ کرتے ہیں، تاہم ضرورت پڑنے پر متاثر ہونے والا خاندان اپنے تمام افراد کے ساتھ پانی اور دیگر ضروریات زندگی کے حصول کے لیے یہاں سے کوچ کرجاتے ہیں۔

گزشتہ پانچ مہینوں میں نقل مکانی کرنے والے خاندان کی تعداد میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔

مقامی افراد کا کہنا ہے کہ اکثر خاندانوں کے مرد حضرات ہی غربت سے تنگ آکر خودکشی کرتے ہیں، تاہم گزشتہ کچھ عرصے میں خواتین کی اپنے بچوں کے ساتھ خودکشوں میں بھی اضافہ دیکھا گیا ہے۔

تھر پارکر کے علاقے چھاچھرو میں ایک غیر سرکاری فلاحی ادارے (این جی او) کے سربراہ علی اکبر رحیمو کا کہنا تھا کہ 'تھر والوں کی زندگیوں کا انحصار صرف اور صرف بارشوں پر ہے، اگر بارشیں ہو جایئں تو ہمیں خوراک اور دیگر معاشی ضروریات کو پورا کرنا آسان ہوجاتا ہے اور بارشیں نہ ہوتو، جیسا کہ اب ہو رہا ہے، ہمیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے'۔

ان کا کہنا تھا کہ جب بارشیں نہیں ہوتی تو یہاں کے غریب ہر قسم کے قابل رسائی ذرائع سے قرضے حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں کچھ اپنے مویشی اور سونا بیچتے ہیں تاکہ خوشک سالی کے دنوں میں ان کے خاندان کی ضرویات پوری ہوسکیں جبکہ وہ لوگ جو علاج معالجے اور دواؤں کے لیے قرض حاصل کرتے ہیں،'وہ سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں'۔

این جی او کی جانب سے جمع کیے گئے عدادوشمار کے مطابق 2011ء میں ضلع بھر میں 10مردوں اور 14 خواتین نے خودکشی کے ذریعے موت کو گلے لگایا، 2012ء میں 18 مردوں اور 17 خواتین جبکہ 2013ء میں 12 مردوں اور 17 خواتین نے خودکشی کی۔

این جی او کے سربراہ کا کہنا تھا کہ 2014ء میں تھرپارکر کے خوشسالی سے متاثرہ روہیریرو بھیل گاوں میں ایک خاتون نے اپنے ایک بچے اور ایک خاتون نے اپنے دو بچوں کے ساتھ خودکشی کی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ یہاں خودکشی کی سب سے بڑی وجہ قحط سالی ہے، جو معاشرے میں براہ راست خاندانی مسائل، گھریلون تشدد، غربت اور دماغی امراض کا سبب بنتی ہے۔

واضح رہے کہ تھر پارکر میں قحط سالی اور خوراک، پانی کی کمی کے باعث ماؤں میں کمزوری اور دیگر امراض کی وجہ سے نومولود بچوں کی اموات میں بھی بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔

مقامی صحافیوں کے مطابق گزشتہ سال 15 اگست کے بعد سے اب تک ضلع بھر میں مون سون کی بارشوں کے نہ ہونے کی وجہ سے صوبائی حکومت کی جانب سے 15 علا قوں کو خشک سالی سے متاثرہ قرار دیا جاچکا ہے۔

ضلع تھرپارکر میں اکثر وبیشتر مون سون کی بارشوں کا سلسلہ جون میں شروع ہوکر اگست تک جاری رہتا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں