انڈیا: بیٹی کی پیدائش پر اُگایا جاتا ہے پھلدار درخت

اپ ڈیٹ 17 فروری 2015
ہندوستانی ریاست بہار کے ایک گاؤں دھرہرا میں ایک بچی اپنے لیے اُگائے گئے ایک درخت کے ساتھ۔ —. فائل فوٹو اوپن سورس میڈیا
ہندوستانی ریاست بہار کے ایک گاؤں دھرہرا میں ایک بچی اپنے لیے اُگائے گئے ایک درخت کے ساتھ۔ —. فائل فوٹو اوپن سورس میڈیا

بھاگلپور، بہار: پیدائش سے قبل بیٹیوں کے قتل کو روکنے اور بیٹیوں کے تحفظ کے حوالے سے ایک مثبت روایت ہندوستانی ریاست بہار کے شہر بھاگلپور کے ایک گاؤں میں کئی دہائیوں سے جاری ہے، اس روایت کے تحت والدین بیٹیوں کی پیدائش پر ان کے مستقبل کے لیے پھل دار درخت لگاتے ہیں۔

ہندوستان میں بیٹیوں (لڑکیوں) اور درختوں (جنگلات) دونوں کی ہی کم ہوتی تعداد پر گہری تشویش ظاہر کی جارہی ہے، اس لیے کہ دونوں مسئلے ہی اپنی اپنی جگہ نہایت سنگین ہیں۔ ان دونوں سے نجات پانے کا ایک آسان اور ماحول دوست طریقہ بھاگلپور سے تقریبا 30 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع دھرہرا نامی گاؤں کے لوگوں نے تلاش کرلیا ہے۔

یہاں کئی دہائیوں سے ایک روایت جاری ہے، جس کے تحت بیٹی کی پیدائش کے ساتھ ہی پھلدار درخت کے کم از کم دس پودے لگائے جاتے ہیں۔ اس روایت کو جاری رکھتے ہوئے گاؤں کے لوگوں نے بیٹیوں اور درخت دونوں کو مساویانہ احترام دے کر ماحول کے توازن کو برقرار رکھنے کی کوشش کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں آبادی میں خواتین کا تناسب 60 فیصد سے زیادہ اور جنگلات کا تناسب 200 فی صد تک ہوگیا ہے۔

اس گاؤں کے ہر خاندان کے پاس کھیت و باغ کا تناسب بھی 60 اور 40 فیصد تک ہے۔ بیٹی کی پیدائش کے ساتھ ہی یہاں خاندان کی جانب سے گاؤں کے ارد گرد جنگلات میں، خالی زمین پر، گاؤں کے راستے میں، پگڈنڈيوں یا اسکول و ہسپتال وغیرہ کے احاطے میں پھلدار درخت کے پودے لگا کر ان کی دیکھ بھال کی جاتی ہے۔ یہ پودے بڑے ہو کر جب درخت بن جاتے ہے اور پھل دینے لگتے ہیں تب پھل کی فروخت سے حاصل ہونے والی رقم سے وہ بیٹی کی شادی کا انتظام کرتے ہیں۔

یہاں آم اور لیچی کے درخت زیادہ تعداد لگائے گئے ہیں۔ اس روایت سے پیدائش کے ساتھ ہی بیٹی کی شادی میں اخراجات ہونے والی رقم کا بندوبست کا آغاز بھی ہو جاتا ہے۔ اسے کاروباری زبان میں کہا جائے تو بیٹی کی پیدائش کے ساتھ ہی پودے لگا کر اس کے مستقبل کے لیے سرمایہ کاری کر دی جاتی ہے۔ یوں بیٹی کی شادی کے بوجھ سے خاندان کو پریشانی سے نہیں گزرنا پڑتا۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ موجودہ دور میں ہندوستان بھر میں اس روایت کے فروغ کی ضرورت ہے، اور اس کی اہمیت اس لیے بھی زیادہ ہے کہ بیٹیاں اور درخت دونوں ہی اس ملک میں خطرات کی زد میں ہیں، اور دونوں کو ہی تحفظ کی ضرورت ہے۔

ایک میاں بیوی اپنی بیٹی کے لیے لگائے گئے پھلدار درخت کے ایک پودے کے ساتھ۔ —. فائل فوٹو اوپن سورس میڈیا
ایک میاں بیوی اپنی بیٹی کے لیے لگائے گئے پھلدار درخت کے ایک پودے کے ساتھ۔ —. فائل فوٹو اوپن سورس میڈیا

یہ کہنا تو مشکل ہے کہ ہندوستان کی آبادی میں مردوں اور عورتوں کی تعداد کے درمیان عدم توازن حقیقی معنوں میں کس قدر ہے، لیکن کینیڈا کی ایک عالمی ہیلتھ ریسرچ کے مرکز نے نشاندہی کی ہے کہ پچھلی تین دہائیوں کے دوران ٹیسٹ کرنے اور بیٹی کی متوقع پیدائش کو روکنے کے لیے ایک کروڑ بیس لاکھ خواتین کا حمل ضایع کردیا گیا تھا۔ دہلی سے قریب بہرینی نامی ایک دیہی علاقے میں کی گئی ریسرچ کے مطابق یہاں پیدا ہونے والے بچوں ایک ہزار لڑکوں کے مقابلے میں 378 لڑکیاں پیدا ہوتی ہیں۔

دریائے گنگا جنوبی کنارے اور دریائے کوسی کے شمال مشرق کی جانب دھرہرا نامی گاؤں ناصرف درخت دوست ہے، بلکہ خواتین دوست بھی ہے۔ جبکہ یہ گاؤں ریاست بہار میں واقع ہے، جو جہیز کے حوالے سے خواتین کی ہلاکتوں پر کافی بدنام ہے۔

یاد رہے کہ اس مثبت روایت کا ابلاغ کرنے کے لیے ہالی وڈ کے ایک ڈائریکٹر رابرٹ کار نے ’’مینگو گرلز‘‘ کے نام سے ایک دستاویزی فلم بھی تیار کی تھی۔

تبصرے (0) بند ہیں