متعدد درآمدی فوڈ آئٹمز میں حرام اجزاءکا انکشاف

24 فروری 2015
سپرمارکیٹ کا ایک منظر— اے ایف پی فوٹو
سپرمارکیٹ کا ایک منظر— اے ایف پی فوٹو

اسلام آباد : ایک سنیئر حکومتی عہدیدار نے اس وقت قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کے اراکین کو حیران کردیا جب اس نے تسلیم کیا کہ ملک میں درآمد کی جانے والے اکثر کھانے پینے کی اشیاءمیں حرام اجزاءپائے جاتے ہیں۔

وزارت سائنس و ٹیکنالوجی کے ایڈیشنل سیکرٹری میاں اعجاز نے نے ایسی 19 اشیاءکی فہرست پیش کی جس میں حرام اجزاءپائے گئے، تاہم ان کا کہنا تھا کہ وزارت کے پاس ان مصنوعات کی فروخت روکنے کا مینڈیٹ نہیں۔

ان اشیاءمیں دو برانڈز کے چکن ٹونائٹ (ہالینڈ سے درآمد)، ببلیکیوز (یوکے)، چھوپا ببل (ہالینڈ)، پاسکول یوگی کڈز (اسپین)، تین برانڈز کے اسکیٹل فروٹس (یوکے)، پکنک چکن (امریکا)، سلیما سوپ (یوکے)، کنور چکن سوچ (فرانس)، کپ اے سوپ (یوکے)، ٹیولیپ چکن (ڈنمارک)۔ رائس چکن بروکولی (امریکا)، پاستا چکن بروکولی (امریکا)، پاستا کریمی چکن (امریکا)، ہینز ڈنر چکن (یوکے)، جیل۔او (امریکا) اور پوپ ٹریٹس (امریکا) شامل ہیں۔

وزارت کے ڈیٹا کے مطابق یہ اشیاءمختلف اجزاءجیسے سفید و سرخ وائن، جیلاٹن اور ای 120 (جانوروں سے بننے والا فوڈ کلر) وغیرہ پر مشتمل ہیں۔

فہرست میں شامل چکن کے کچھ فوڈ آئٹمز اسلام کے ذبح شدہ گوشت کے اصول کے حوالے سے ' مشتبہ' ہیں ، اسی طرح کچھ مصنوعات میں " حلال/حرام کی تصدیق کے لیے معقول وضاحت موجود نہیں"۔

قائمہ کمیٹی کے اراکین کو بتایا گیا ہے کہ وزارت پارلیمنٹ کی منظوری سے پاکستان حلال اتھارٹی کے قیام کی کوششیں کررہی ہیں جو کہ حلال اشیاءکی درآمد و برآمد کے ساتھ بین الصوبائی تجارت کو فروغ دے گی۔

اتھارٹی کی تشکیل کے لیے ایک بل کا مسودہ وفاقی کابینہ اور مشترکہ مفادات کونسل کو منظوری کے لیے بھجوا دیا گیا ہے جس کے بعد وزارت اس پوزیشن میں ہوگی کہ ملک میں حرام اجزاءپر مشتمل کھانے پینے کی اشیاءفروخت نہ ہوسکیں۔

وزارت کے حکام کو قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے سائنس و ٹیکنالوجی نے طلب کیا تھا جس کا اجلاس مسلم لیگ قائداعظم کے طارق بشیر چیمہ کی سربراہی میں ہوا۔

گزشتہ سال نومبر میں جے یو آئی کی رکن شاہدہ اختر اور دیگر کی جانب سے ملک میں کھانے پینے کی اشیاءکی فروخت کی روک تھام کے لیے تحریک استحقاق جمع کرائی گئی جس پر اسپیکر قومی اسمبلی نے یہ معاملہ قائمہ کمیٹی کو بھجوا دیا تھا۔

قائمہ کمیٹی کے اراکین کو بتایا گیا کہ 18 ویں ترمیم کی منظوری کے بعد خوراک صوبائی معاملہ بن چکا ہے اور یہ صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ حرام اشیاءکی فروخت کی روک تھام کے لیے فول پروف میکنزم تشکیل دیں۔

وزارت کے حکام کی جانب سے درآمد ہونے والی حرام اشیائے خورونوش کی ذمہ داری لینے سے انکار کے بعد کمیٹی اراکین نے جمعرات کو صوبائی حکومتوں کے متعلقہ افسران کے ساتھ اجلاس کرنے کا فیصلہ کیا۔

کمیٹی کے اجلاس کے بعد ڈان سے بات چیت کرتے ہوئے شاہدہ اختر نے کہا کہ ایسا نظر آتا ہے کہ کوئی بھی " ممنوع" درآمدی اشیائے خورونوش کی ذمہ داری لینے کے لیے تیار نہیں۔

انہوں نے کہا کہ وزارت سائنس و ٹیکنالوجی نے اس کی ذمہ داری وزارت تجارت اور صوبائی حکومتوں پر ڈال دی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ قائمہ کمیٹی کے اراکین کی اکثریت نے فوری طور پر ان اشیاءپر پابندی کا مطالبہ کیا تاہم کمیٹی نے کسی اقدام کی سفارشات سے پہلے متعلقہ حکام کا موقف سننے کا فیصلہ کیا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں