کلاسیکل میوزک: کراچی کا پانچواں موسم
ہم سنتے آئے تھے کہ لاہور میں ”کل پاکستان موسیقی کانفرنس“ جس کی ابتدا 1959 میں ہوئی، وہاں اس وقت کے عظیم گلوکار اور سازندے اپنے فن کا مظاہرہ کیاکرتے تھے۔ اُس پلیٹ فارم سے خالص کلاسیکی موسیقی کی بقا اور فروغ کے لیے کام کیاگیا، جس کی جتنی تحسین بھی کی جائے،کم ہے، لیکن اس سے پھر کئی چراغ روشن ہوئے، جس سے پاکستان سُر کی روشنیوں میں نہاگیا۔
موسیقی کے سجائے گئے ان میلوں میں ایک نسل سے دوسری نسل تک کلاسیکی موسیقی کے فن کو شائقین نے منتقل ہوتے سنا اوردیکھا۔ ایسے جمالیاتی تجربات روایات کاچہرہ اور تہذیب کی روح ہواکرتے ہیں۔
کلاسیکی موسیقی کے فروغ کے لیے ایسا ہی ایک چراغ 2004 کو کراچی میں ”کل پاکستان موسیقی کانفرنس“کے نام سے روشن کیا گیا، جس کی دیکھا دیکھی اسی شہر میں موسیقی کی دیگر محفلیں بھی آباد ہونے لگیں، مثال کے طور پر ”تہذیب فاؤنڈیشن“ جس نے اس شہر کی کلاسیکی موسیقی کے فروغ میں اپنا حصہ ڈالا، لیکن کراچی کی ”کل پاکستان موسیقی کانفرنس“ نے کئی قدم آگے بڑھ کر اس فن کے احیا کے لیے کوششیں کیں۔ نہ صرف کلاسیکی موسیقی سے نوجوان نسل کو روشناس کروایا، بلکہ نیم کلاسیکی موسیقی اور لوک موسیقی کو بھی ساتھ لے کر چلے۔گزرتے وقت کے ساتھ ناپید ہوتے سازوں کی بقا کے لیے بھی کام کیا۔ سب سے بڑھ کر ان تمام کوششوں میں کسی معاشی منفعت کاعمل دخل نہیں، خالصتاً تہذیبی بنیادوں پر اس کام کو جاری رکھا گیا، جبکہ اس پیشے سے وابستہ ہنرمندوں کی عملی طور پر مدد کی گئی۔
ایسا معاشرہ جہاں فن کی ناقدری ہو،امن کا قحط ہو، ایسی ثقافتی سرگرمیاں تازہ ہوا کے جھونکے کا کام دیتی ہیں۔کراچی شہر کی سانسوں میں ان محفلوں کی موسیقی رچ بس گئی ہے۔موسیقی کا یہ میلہ کراچی شہر کے پانچویں موسم میں تبدیل ہوگیا ہے، جس کے آنے سے سریلے لوگوں کے لیے ساز و آواز کی بہار امڈ آتی ہے۔کہنے کو یہ کلاسیکی موسیقی کی روایات کا تحفظ کرنے والی ایک ثقافتی تنظیم ہے، لیکن اس شمع کے گرد ایک ایک کر کے پروانے جدا ہوتے گئے۔ صرف ایک ہی شخصیت اس رونق کو اب تک بحال رکھے ہوئے ہے، جن کا نام آئلہ رضاہے، انہوں نے کلاسیکی موسیقی کی روایات کو نہ صرف زندہ رکھا، بلکہ آبرومندانہ طور پر شائقین تک بھی پہنچایا۔
2015 ”کل پاکستان موسیقی کانفرنس“کی جدوجہد کا 12واں سال ہے۔ اس کے تحت سالانہ دو روزہ موسیقی کے میلے کا اہتمام کیا جاتا ہے، جس میں شائقین جوش و خروش سے شرکت کرتے ہیں، جبکہ سال بھر میں دو سے تین بیٹھکوں کا اہتمام بھی ہوتا ہے۔ اپنے آپ سے بات کرنے کا ایک بہترین وسیلہ ان محفلوں کی صورت میں ہمیں ملتاہے۔ یہ محفلیں موسیقی کے زور پر ہمیں دور تخیل کے اس سفر پر لے جاتی ہیں، جہاں سب کچھ ربط میں آجاتا ہے اور آسودگی کے ٹھنڈے جھونکوں سے طبیعت خوشگوار ہوجاتی ہے۔
اس سالانہ میلے میں شائقین کی تعداد بہت زیادہ ہوتی ہے، البتہ بیٹھک میں مخصوص تعداد میں لوگ شریک ہوتے ہیں، جن میں اکثریت ممبران کی ہوتی ہے۔ یہ لوگ کلاسیکی موسیقی سے گہرا شغف رکھتے ہیں۔ موسیقی کی ان محفلوں میں شریک ہونے کے لیے کسی دعوت نامے کے تکلف کا اہتمام نہیں ہوتا، ہر کسی کو دعوتِ عام ہوتی ہے، یوں بھی محبت اور امن کی سرگرمیوں کے لیے دعوت عام ہی ہوتی ہے۔
یہ تمام محفلیں اور موسیقی کا میلہ کراچی کے مختلف ثقافتی مقامات پر منعقد ہوتا ہے، صرف یہی نہیں بلکہ کراچی کے کئی ملکی اور بین الاقوامی ثقافتی اداروں کے ساتھ بھی اشتراک کیا جاتا ہے۔ انڈس ویلی اسکول آف آرٹس اینڈ آرکیٹیکچر، آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی، نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹس اور ایسے ہی دیگر مقامات پر ان خوبصورت محفلوں کا انعقاد موسیقی کے حسن کو مزید بڑھا دیتا ہے۔ اس میلے میں شہر بھر کے لوگ بھرپور طریقے سے شرکت کرتے اور اپنی سماعتوں کو خوب خوب سیراب کرتے ہیں۔
گزشتہ برسوں میں ”کل پاکستان موسیقی کانفرنس“کی طرف سے تقریباً 300 سے زیادہ گلوکار وں ”اور“ سازندوں کو مدعو کیاگیا۔12 سی ڈیز اور 1 ڈی وی ڈی بھی ریلیز کی گئی۔ اب تک کلاسیکی موسیقی کی محفلوں میں جن فنکاروں نے شرکت کی، ان میں چند نمایاں ہنرمندوں میں استاد فتح علی خان، استاد مبارک علی خان، استاد نصیر الدین سامی، استاد امداد حسین، استاد حسین بخش گلو، استاد ریاض علی، امتیازعلی، استاد غلام حسین شگن، استادبدرالزماں، استاد جاوید بشیر، استاد تنویر احمد، شوبھامڈگل، استاد بدر الزماں، استاد حامد علی خان، اور پاکستان کی کلاسیکی موسیقی سے وابستہ دیگر گھرانوں کے اساتذہ شامل رہے ہیں۔
نیم کلاسیکی موسیقی میں فریدہ خانم، ٹینا ثانی، سلامت علی، شکیلہ خراسانی، مہناز بیگم، فریحہ پرویز، عباس علی خان سمیت دیگر شامل ہیں۔ اس لطیف موسیقی کے سازوں میں بینجو، بانسری، کلیرنٹ، ہارمونیم، پکھاوج، سارنگی، سرود، سیکسوفون، شہنائی، ستار، طبلہ ساگروینا، وائلن جیسے سازوں کو بجانے والے سازندے بھی دو دہائیوں سے سماعتوں کو تسکین پہنچا رہے ہیں۔ لوک موسیقی اور قوالی کی محفلیں بھی ان تقریبات کا حصہ رہیں۔ یہ سلسلہ اب تک جاری ہے۔
رواں برس منعقد ہونے والا موسیقی کا یہ دو روزہ میلہ اپنے انداز سے منفرد تھا۔جس کے پہلے دن شرکت کرنے والے ہمہ جہت فنکار شامل تھے۔ لاہور سے آئے ہوئے پنجاب براس بینڈ نے اس میلے کا اپنے فن سے آغاز کیا۔ صوبہ پنجاب میں روایتی شادیوں میں بینڈ باجے کے ذریعے جس موسیقی کو پیش کیا جاتا ہے، یہ بینڈ اسی موسیقی کی علامت تھا۔ اس میلے کی یہ پہلی مگر جاندار پرفارمنس تھی، جس نے حاضرین کے دلوں کو گرما دیا۔ سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ اس بینڈ نے ”کل پاکستان موسیقی کانفرنس“ کے مزاج کو مدنظر رکھتے ہوئے کلاسیکی راگوں میں اپنے سازوں کا استعمال کیا۔
اس میلے کی دوسری پیشکش عابد علی اور ساجد علی تھے، جنہوں نے بانسری کی مہارت کو شائقین موسیقی پر ثابت کیا۔ یہ دونوں بھائی ایک طویل عرصے سے اس فن سے وابستہ ہیں، ان میں بڑے بھائی عابد علی کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ انہوں نے پاکستان کے معروف گلوکاروں کے ساتھ بانسری بجائی، جن میں سے چند ایک نام لیے جائیں، تو مہدی حسن، میڈم نور جہاں اور استاد نصرت فتح علی خان شامل ہیں، جبکہ چھوٹے بھائی ساجد علی نے کوک اسٹوڈیو کے آخری سیزن میں اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔ بانسری جیسے لطیف ساز پر ان دونوں بھائیوں نے ایسی راگ رنگ کی محفل سجائی، جس نے شائقین کو اپنے سحر میں جکڑ لیا۔
اس میلے میں تیسرے فنکار کے طور پر جس نے اپنے فن کا مظاہرہ کیا، ان کانام استاد فتح علی کمالوی تھا، انہوں نے خالص کلاسیکی موسیقی سے سماں باندھا، جس سے حاضرین بہت لطف اندوز ہوئے۔ ان کے بعد شام چوراسی گھرانے کے سپوت، استاد سلامت علی کے بیٹے اور استاد حسین بخش گلو کے داماد،کلاسیکی موسیقی کے فروغ میں نوجوان نسل کی نمائندگی کرنے والے گلوکار استاد شفقت علی خان نے اپنے فن کا بھرپور مظاہرہ کیا۔
پچاس منٹ کے دورانیے میں انہوں نے خیال گائیکی کا ایک ایسا باب کھولا، جس نے کلاسیکی موسیقی کے شائقین کو مبہوت کردیا۔ پنڈال میں کئی اساتذہ اور شعبہ موسیقی کے طلبا بھی موجود تھے، لیکن سب نے ساکت و جامد ہو کر سماعت کیا، بقول استاد شفقت علی خان ”اتنی دیر میں تو خیال گائیکی کی ٹھیک سے ابتدا بھی نہیں ہوپاتی، جتنی دیر مجھے یہاں گائیکی کا موقع ملا، میں نے کوزے میں دریا بندکرنے کی اپنی سی کوشش ضرور کی، اب یہ تو حاضرین بہتر طور پر بتا سکتے ہیں کہ میں کتنا کامیاب رہا۔“
پہلے روز کی آخری فنکار دلی گھرانے کے استاد نصیرالدین سامی تھے،جنہوں نے محفل کو اپنے عروج پر پہنچا دیا۔اس موقع پر استاد شفقت علی خان سے ہم نے خصوصی گفتگو کی، جس کو یہاں سنا جاسکتا ہے۔
”کل پاکستان موسیقی کانفرنس“ کے اس موسیقی میلے کا دوسرا دن بھی فنکاروں کے لحاظ سے شاندار تھا۔ نوجوان سارنگی نواز ”گل محمد“ نے سارنگی میں سوز کا ایسا رنگ انڈیلا کہ سارے پنڈال میں ایک اداسی پھیل گئی، حاضرین ہمہ تن گوش صرف اس کو سن رہے تھے، جبکہ سارنگی پر اس کی انگلیوں کی حرکت رکی تو سب کوخبر ہوئی، کہ پرفارمنس اپنے اختتام کو پہنچ گئی ہے۔
بقول گل محمد کے ”ہم گھر سے کیسی ہی فنی تیاری کر کے آجائیں، اصل امتحان تو اسٹیج پر ہی ہوتا ہے، یہاں کون فنکار کیسا اظہار کر پائے گا، اس کی خبر خود اسے بھی نہیں ہوتی۔“ہماری تہذیب کے مٹتے ہوئے اس سازکو جس طرح گل محمد جیسے نوجوان نے سنبھالا ہے، اس سے دل کو بہت حوصلہ ہوا۔ سارنگی کی قسمت میں جب تک ایسے نوجوان ہنرمند ہیں، اس ساز کو فراموش نہیں کیا جاسکتا۔
اس روز کے دوسرے فنکار عروج سامی، استاد نصیرالدین سامی کے صاحبزادے ہیں، انہوں نے دلی گھرانے کی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے خوبصورت راگوں کی بندش سے محفل کو چارچاند لگا دیے۔ راگوں کو سازوں میں ملا کر حاضرین پر حیرت انگیز منظر کو متصور کیا، جس کی جتنی داد دی جائے،کم ہے۔
تیسرے فنکار بھی نوجوان نسل سے تھے، جن کا نام تراب علی تھا، انہوں نے ستار نواز بننے کو ترجیح دی اور ”دہلی گھرانے“کی روایت کو آگے بڑھایا۔ ان کے نانا استاد امداد حسین اور ماموں استاد اخلاق حسین اور اب یہ خود تین نسلیں ستار کی خدمت میں کوشاں ہیں۔
اس موقع پر اس خدمت کی ایک جھلک تراب علی نے حاضرین محفل کو دکھائی، جس سے موسیقی کے میلے میں سامعین کو دوبالا لطف آیا۔ دوسرے روز کے چوتھے فنکار غزل گائیک محمد علی تھے، جنہوں نے نیم کلاسیکی موسیقی کے رنگ بکھیرے۔کئی معروف کلاسیکی شعرا کی غزلیں گا کر شائقین موسیقی کا دل جیت لیا۔ ان کے بعد لوک فنکار اکبر خمیسو خان نے اپنے فن کا مظاہرہ کیا اور حیرت انگیز طور پر انہوں نے ایک لوک ساز پر کلاسیکی راگ بجاکر پنڈال پر ایک خوشگوار حیرت طاری کردی۔ انہوں نے حاضرین کے ذوق و شوق کو بھی سراہا۔
دوسرے روز کی اگلی فنکارہ معروف غزل اور کلاسیکی گائیکی پر مہارت رکھنے والی ”حمیراچنا“ تھیں، جنہوں نے دونوں طرز کی گائیکی کو اس محفل میں پیش کیا۔گزرتے وقت کے ساتھ ان کے انداز گائیکی میں بہت مثبت تبدیلی آگئی ہے اور یہ اپنے اظہار میں بہت شفاف اور پر اثر ہوگئی ہیں، یہ علامتیں کسی بھی گلوکار کی ریاضت کا پتا دیتی ہیں، جس کاعملی مظاہرہ حمیرا چنا کی اس گائیکی میں بھی دکھائی اور سنائی دے رہا تھا۔ یہ وہ واحد گلوکارہ ہیں، جو اساتذہ اور نئی نسل کے گلوکاروں اور موسیقاروں کے درمیانی مقام پر موجود ہیں۔
حال ہی میں انہوں نے پاکستان کے مقبول ترین ”میکال حسن بینڈ“سے اشتراک کیا ہے، جس کے تحت یہ دنیا بھر میں ان کے ساتھ اپنے فن کا مظاہرہ کیا کریں گی، جبکہ کوک اسٹوڈیو کے آخری سیزن میں استاد جاوید بشیر کے ساتھ بے مثال گائیکی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے فن کو امر کرلیا۔ اس کا عملی نمونہ یہاں دستیاب ویڈیومیں دیکھاجاسکتاہے۔
”کل پاکستان موسیقی کانفرنس“کے سالانہ میلے کے دوسرے روز آخری فنکار گوالیار گھرانے کے استاد فتح علی خان تھے، جن کا تعلق پاکستان کے شہر حیدرآباد سے ہے۔انہوں نے سندھ کے خطے میں کلاسیکی موسیقی کے فروغ میں کلیدی کردار اداکیاہے۔بہت سارے فنکار ان کے ہاں سے گائیکی کے رموز سیکھ کر میدان میں اترے ہیں،ان کے فن کی جتنی بھی تعریف کی جائے، تھوڑی ہے۔ حسب روایت انہوں نے اپنے فن سے اس میلے کے اختتام کو تکمیل میں بدل دیا۔شاندار گائیکی اورراگوں کے امتزا ج سے حاضرین کے دل میں گھر کرلیا اور وہ ان راگوں کو دل میں لیے گھروں کو روانہ ہوئے۔
شہر کراچی کو ایسی محفلوں کی ضرورت ہے، پانچویں موسم کی طرح اس شہر پر آنے والے اس میلے کی روایت کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم ایسی سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی کریں۔ ان محفلوں میں شریک ہوں، نئی نسل کو اپنی حقیقی تہذیب سے متعارف کروائیں، جب ہی معاشرے سے دہشت گردی کی سیاہی مٹ سکے گی اور ثقافت کا چراغ روشن ہوگا، جس کے لیے ایک ”کل پاکستان موسیقی کانفرنس“ کافی نہیں، ہم سب کو آگے بڑھ کر ساتھ دینا ہوگا۔ذہن سے چپکے منتشر خیالات کو ایسی موسیقی صرف مرتب ہی نہیں کرتی، بلکہ روح کو شفاف اور سماعت کو تروتازہ بھی کردیتی ہے، اگلے برس اس میں آپ بھی آئیے، اس موسیقی کوسنیے اور سر دھنیے۔














لائیو ٹی وی