ہولی وڈ سے لے کر بولی وڈ (اور نئے پاکستانی سینما میں بھی) ایسی فلمیں بنائی جاتی ہیں جن کا مرکزی خیال کھیلوں کے گرد گھومتا ہے اور وہ ہمیشہ ہی دیکھنے والوں کو پسند آتی ہیں۔

کچھ فلمیں اداکاروں کی زندگیاں بنا دیتی ہیں جبکہ کچھ کے ذریعے ڈائریکٹرز اہم اعزاز جیت لیتے ہیں۔

تو کھیلوں پر بننے والی چند ایسی ہی فلموں کا جائزہ لیتے ہیں جنھوں نے دیکھنے والوں پر گہرے اثرات مرتب کیے۔

ناک آﺅٹ

باکسنگ ہوسکتا ہے کہ دنیا میں سب سے زیادہ پسند کیا جانے والا کھیل نہ ہو مگر جب بات ہولی وڈ کی ہو تو وہاں یہ بہت زیادہ بزنس کی ضمانت ضرور ثابت ہوتا ہے۔

رابرٹ ڈی نیرو کی ریگنگ بل (1980) ہو یا ہیوگ جیک مین کی رئیل اسٹیل (2011) اور کلینٹ ایسٹ وڈ کی ملین ڈالر بے بی، بلاشبہ باکسنگ وہ کھیل ہے جس پر سب سے زیادہ فلمیں بنائی گئی ہیں۔

اس حوالے سے راکی (1976) کو کون بھول سکتا ہے جو اب تک باکسنگ پر تیار کی جانے والی سب سے پسند کی جانے والی ہے ۔ جس سے نہ صرف دنیا کے سامنے سلویسٹر اسٹالون سپراسٹار بن کر ابھرے بلکہ اس کے پانچ سیکوئلز بھی سامنے آچکے ہیں جس میں سے آخری 2006 میں ریلیز ہوا۔

راکی فور کا ایک سین
راکی فور کا ایک سین

کلینٹ ایسٹ وڈ نے شہرت ' دی مین ود نو نیم' یا ڈرٹی ہیری کے ذریعے ضرور حاصل کی مگر بہترین ڈائریکٹر کا آسکر ایوارڈ انہیں ملین ڈالر بے بی (2004) پر ہی ملا جس کی کہانی میں وہ ایک نوجوان خاتون باکسر کو شہرت کے لیے تربیت دیتے ہیں اور سب کچھ ٹھیک جارہا ہوتا ہے کہ ایک المیہ سامنے آتا ہے۔

کلینٹ ایسٹ وڈ اور ہلیری سوانک ملین ڈالر بے بی کے ایک سین میں
کلینٹ ایسٹ وڈ اور ہلیری سوانک ملین ڈالر بے بی کے ایک سین میں

ہلیری سوانک اور مورگن فری مین کی متاثرکن اداکاری نے انہیں بہترین اداکارہ اور بہترین معاون اداکار کا آسکر ایوارڈ دلوایا۔

ڈائریکٹر مائیکل مان نے ہر وقت کے سب سے عظیم باکسر کی سوانح حیات پر فلم علی (2001) بنائی جس میں ول اسمتھ نے مرکزی کردار ادا کیا۔

فلم علی کا ایک منظر
فلم علی کا ایک منظر

یہ فلم محمد علی کے اسلام قبول کرنے اور ان کے 1974 تک کے کیرئیر کے گرد گھومتی ہے جس دوران انہوں نے اپنا عالمی ٹائٹل پھر جیتا اور ول اسمتھ نے محمد علی کے پرستاروں کو اپنی اداکاری اور باکسنگ سے مایوس نہیں کیا۔

بولی وڈ اداکارہ پریانکا چوپڑا نے بھی انڈین گولڈ میڈلسٹ باکسر میری کوم (2014) کا کردار کیا اور ناک آﺅٹ کردینے والی پرفارمنس پیش کی۔

کرکٹ کی دنیا

اب اس کھیل کی بات کرتے ہیں جو برصغیر میں سب سے زیادہ مقبول ہے یعنی کرکٹ۔

جس فلم نے اس کھیل کو سینما کی اسکرین پر سب سے اچھے انداز سے پیش کیا وہ آسوتوش گواریکر کی لگان : ونس اپون اے ٹائم ان انڈیا (2001) ہے اور آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ اس کے ٹریلرز اور پوسٹرز میں اس بات کا عندیہ تک نہیں تھا کہ یہ فلم کرکٹ کے گرد گھومتی ہے۔

لوگوں نے سینماﺅں کا رخ اس لیے کیا تھا کہ وہ عامر خان کو دلیپ کمار کے روپ (فلم نیا دور) میں دیکھنا چاہتے تھے اور وہ مایوس نہیں ہوئے۔ اس فلم کے مرکزی کردار نے برطانوی ٹیم کو انڈیا کو ٹیسٹ اسٹیٹس ملنے سے قبل شکست دی۔

لگان کا ایک سین
لگان کا ایک سین

فلم کا بہترین اسکرین پلے، زبردست ہدایکاری اور گزشتہ صدی کے ایک گاﺅں کو اچھے انداز میں پیش کرنا اسے آسکر تک لے گیا۔

اس کے بعد جو فلم قابل ذکر ہے وہ اقبال (2005) ہے جس کے ڈائریکٹر ناگیش ککونور نے ایک ایسے کردار کو اپنے ذہن میں رکھا جو اس کھیل سے محبت کرتا تھا اور انڈین ٹیم کی نمائندگی کرنا چاہتا تھا تاہم یہ دیہاتی لڑکا بولنے یا سننے کی صلاحیتوں سے محروم تھا۔

تو جس طرح یہ گونگا بہترہ نوجوان ہر ایک کی توجہ کا مرکز بنا وہ واقعات اس فلم کو خاص کو بناتے ہیں جبکہ نصیر الدین شاہ کوچ کے کردار میں سب کو پسند آئے اور کپل دیو بھی فلم کے آخر میں مہمان اداکار کے طور پر نظر آئے۔

پاکستان نے بھی کھیلوں پر بننے والی فلموں میں میں ہوں شاہد آفریدی (2013) کے ذریعے انٹری دی جسے سید علی رضا موسیٰ نے ڈائریکٹ اور ہمایوں سعید نے پروڈیوس کرنے کے ساتھ ساتھ انڈر 19 کرکٹرز کی ٹیم کے کوچ کا کردار بھی ادا کیا۔

میں ہوں شاہد آفریدی
میں ہوں شاہد آفریدی

اس کوچ کا ایک ماضی ہوتا ہے مگر وہ اسے فراموش کرکے نوجوانوں کو روشن مستقبل دینا چاہتا ہے۔ اس فلم کا اسکرپٹ واسع چوہدری نے تحریر کیا جبکہ اس کی کاسٹ میں مہ نور بلوچ، جاوید شیخ، ندیم، شفقت چیمہ، نعمان حبیب، عینی جعفری، گوہر رشید، حمزہ علی عباسی اور اسماعیل تارا شامل تھے اور کرکٹ کی کشش ہی لوگوں کو اسے دیکھنے کے لیے کھینچ لائی۔

پیڈل پاور

اس کا مطلب یہ نہیں کہ دیگر کھیل بھی فلمسازوں کی توجہ سے محروم رہے ہوں سائیکلنگ بھی ایسا کھیل ہے جس پر بننے والی فلمیں ہولی وڈ اور بولی وڈ میں کامیاب ثابت ہوئیں، جیسے بریکنگ اوے (1979) نے بہترین اسکرین پلے کا اکیڈمی ایوارڈ اپنے نام کیا تو امریکن فلائرز (1985) نے کیون کوسٹنر کو اسٹار ڈم کی جانب لے جانے میں مدد فراہم کی۔ یہ دونوں فلمیں ایسے سائیکلسٹ کی تھیں جو غیرمتوقع طور پر ریس جیت جاتے ہیں۔

بولی وڈ میں منصور خان نے اس خیال کو لے کر جو جیتا وہی سکندر (1992) بنائی جس میں ڈراما، جذبات، المیہ اور سب سے بڑھ کر سائیکلنگ جیسے عناصر شامل تھے۔ عامر خان کی اداکاری سے سجی یہ فلم اب بھی لوگوں کے ذہنوں میں زندہ ہے۔

فٹبال

فٹبال کے کھیل پر بھی متعدد فلمیں سامنے آئی ہیں مگر کوئی بھی اسکیپ ٹو وکٹری (1981) کی اسٹار پاور کا مقابلہ نہیں کرسکتی جس میں مائیکل کینی نے اتحادی قیدیوں کی فٹبال ٹیم کے کپتان کا کردار ادا کیا، جس کے گول کیپر کے روپ میں سلویسٹر اسٹالون تھے، پیشہ ور فٹبالر بوبی مورے، جون ورک اور پیلے جیسے اسٹارز بھی اس فلم کا خاصہ تھے۔ فلم میں اس ٹیم کا مقابلہ دوسری جنگ عظیم کے دوران قائم کیے جانے والے ایک کیمپ میں جرمن سائیڈ سے ہوتا ہے۔

کیریوٹس آف فائر (1981) ایک اور اسپورٹس ڈراما فلم ہے جس میں طالبعلم تمام تر مشکلات کے باوجود برطانیہ کے لیے 1924 میں اولمپک گولڈ میڈل جیتنے میں کامیاب رہتے ہیں۔ یہ فلم اب بھی اپنی تھیم کی بدولت یاد کی جاتی ہے جبکہ اسے بہترین فلم، بہترین اوریجنل اسکور، بیسٹ اوریجنل اسکرین پلے اور بہترین کاسٹیوم ڈیزائن کے آسکر ایوارڈز سے بھی نوازا گیا۔

کیریوٹس آف فائر
کیریوٹس آف فائر

ہاکی

کسی فلم نے آئس ہاکی کے پرستاروں کو اتنا متاثر نہیں کیا جتنا میریکل (2004) نے کیا جو کہ امریکا اور سوویت یونین کے درمیان 1980 میں ہونے والے مقابلے پر بنائی گئی تھی۔ اس فلم میں کرٹ کرسل نے امریکی ٹیم کے کوچ کا کردار ادا کیا جس نے اپنی ٹیم کو طلائی تمغہ دلانے میں مدد فراہم کی۔

اس فلم کے بیشتر مناظر نے شمیت امین کو چک دے انڈیا کی ہدایتکاری کے لیے متاثر کیا جس میں شاہ رخ خان نے انڈین لڑکیوں کو ورلڈکپ جتوانے والے کوچ کا کردار ادا کیا۔

دیگر کھیل

حقیقی شخصیات پر بننے والی فلمیں ہمیشہ ہی دلچسپ ثابت ہوتی ہیں اور ایسی ہی ایک فلم انویکٹس (2009) تھی جو کہ نوے کی دہائی کے جنوبی افریقہ کے ایک رگبی ورلڈ کپ پلئیر کے گرد گھومتی ہے۔ اس فلم میں میٹ ڈیمین نے پروٹیز کپتان کا کردار ادا کیا، جس نے ورلڈکپ جتوا کر قوم کو نسلی اختلافات بھلا کر متحد ہونے پر مجبور کردیا۔

اسی طرح دی کراٹے کڈ (1984) ہے جس میں ایک عام شخص کائیسیکوی میاگی ڈینئیل لاروسو کو کراٹے چیمپئن بنا دینے والی تربیت دیتا ہے۔

کراٹے کڈ کا ایک منظر
کراٹے کڈ کا ایک منظر

اسی طرح ومبلڈن (2004) نامی فلم ہے جس میں ایک ٹینس کھلاڑی پیٹر کولٹ گرینڈ سلیم کو جیتنے کی کوشش کرتا ہے اور دیگر تو کیا خود کو بھی حیران کردیتا ہے۔

اور بولی وڈ ڈائریکٹر راکیش اوم پرکاش کی بھاگ ملکھا بھاگ (2013) کو کون بھول سکتا ہے جس میں ایسے ایتھلیٹ کی زندگی کو پیش کیا گیا جس نے اولمپک گیمز میں اپنے ملک کی نمائندگی کی۔ فرحان اختر نے اس فلم پر متعدد ایوارڈز جیتے جبکہ انہیں ہر طبقے میں سراہا گیا۔

تبصرے (0) بند ہیں