پشاور: لوئر دیر پی کے-95 کے ضمنی انتخاب میں خواتین کو ووٹ کے حق سے محروم رکھنے کے خلاف کئی درجن خواتین نے پشاور ہائی کورٹ سے رجوع کیا ہے۔

اپنی درخواست میں انہوں نے عدالت سے استدعا کی ہے کہ 7 مئی کے انتخابی عمل کو کالعدم قرار دیا جائے اور نئے انتخاب کا حکم جاری کیا جائے۔

درخواست گزار شبنم، شمیم سلطان اور دیگر خواتین نے ایک عدالت میں وکیل شہاب خٹک کے ذریعے ایک پٹیشن دائر کی ہے، جس میں الزام عائد کیا ہے کہ پی کے-95 کے حالیہ ضمنی انتخابات سے قبل امیدواروں نے پہلے یہ فیصلہ کیا کہ اس حلقہ انتخاب میں خواتین کو ووٹ ڈالنے سے روکا جائے، اور بعد میں انہوں نے خوف کی فضا پیدا کرنے اور خواتین پولنگ اسٹاف کی عدم دستیابی سمیت اس مقصد کے لیے خصوصی انتظامات کیے۔

انہوں نے عدالت سے درخواست کی ہے کہ اس انتخاب کو کالعدم ، خلاف قانون اور آئین کے ساتھ ساتھ عوامی نمائندگی ایکٹ 1976ء کی دفعات اور متعلقہ قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا جائے۔ اس انتخابی حلقے کی خواتین کا کہنا ہے کہ انہیں ووٹ کے حق سے محروم کردیا گیا تھا۔

عدالت سے استدعا کی گئی ہے کہ وہ اس حلقہ انتخاب میں نئے انتخابات کا حکم دے اور خواتین ووٹروں کی شرکت کو یقینی بنائے۔

اس پٹیشن میں چیف الیکشن کمشنر کے ذریعے الیکشن کمیشن آف پاکستان، صوبائی الیکشن کمشنر، پی کے-95 لوئر دیر کے ڈسٹرکٹ ریٹرننگ آفیسر اور ریٹرننگ آفیسر اور جماعت اسلامی کے کامیاب امیدوار اعزاز الحق اور دوسرے نمبر پر آنے والے عوامی نیشنل پارٹی کے امیدوار حاجی بہادر خان سمیت اس حلقہ انتخاب میں مدمقابل سات امیدواروں کو مدعا علیہ نامزد کیا گیا ہے۔

عورت فاؤنڈیشن، شراکتی مضبوطی کی تنظیم (ایس پی او)، ساؤتھ ایشیا پارٹنرشپ پاکستان اور سنگئی فاؤنڈیشن سمیت سول سوسائٹی کی تنظیموں کی مدد سے یہ پٹیشن دائر کی گئی ہے۔

درخواست گزاروں نے کہا ہے کہ 9 مئی کو متعلقہ ریٹرننگ آفیسر کی جانب سے جاری کیے گئے فارم نمبر سترہ کے مطابق ضمنی انتخاب میں اعزاز الحق نے 20 ہزار دو سو اٹھاسی ووٹ جبکہ حاجی بہادر خان نے 16 ہزار چار سو انتالیس ووٹ حاصل کیے۔

انہوں نے کہا کہ مختلف پولنگ اسٹیشنوں کے بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ خواتین کے ووٹ کی تعداد صفر تھی۔

درخواست گزاروں کا کہنا ہے کہ اس حلقہ انتخاب میں خواتین کی تقریباً نصف آبادی کو ووٹ ڈالنے کے بنیادی حق سے محروم رکھا گیا۔

سول سوسائٹی کی تنظیموں نے الزام عائد کیا کہ اس روز تمام انتخابی امیدواروں سمیت متعلقہ انتخابی افسران بھی خواتین کو ووٹ ڈالنے سے روکنے کے غیرقانونی عمل میں ملوث تھے۔

ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ان تنظیموں کے نمائندوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ لوئردیر میں اختیار کیا گیا طریقہ کار 30 مئی کو ہونے والے مقامی حکومتوں کے انتخابات کے دوران خیبرپختونخوا کے کئی اضلاع میں دوہرایا جائے گا۔

اس موقع پر نمایاں مقررین میں ایس پی او کے ارشد ہارون اور اعجاز خان، عورت فاؤنڈیشن کی شبینہ ایاز اور ثمینہ منیر ، ایس اے پی پاک کے سکندر زمان اور سنگئی فاؤنڈیشن کے عمر جاوید شامل تھے۔

انہوں نے الزام عائد کیا کہ ضمنی انتخاب کے امیدوار اور مقامی انتظامیہ نے 7 مئی کی پولنگ سے قبل ایک زبانی معاہدہ کرلیا تھا۔

مقررین نے کہا کہ سول سوسائٹی کی ایک فیکٹ فائنڈنگ ٹیم نے اس حلقہ انتخاب کا دورہ کیا تھا، اور یہ انکشاف ہوا کہ ضمنی انتخاب سے پہلے یہ اعلان ہوا تھا کہ خواتین ووٹ کاسٹ نہیں کریں گی۔

انہوں نے الیکشن کمیشن اور چیف الیکشن کمشنر سے مطالبہ کیا کہ اس ضمنی انتخاب کو کالعدم قرار دیا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر ایسا نہ ہوا تو خواتین کو ووٹ ڈالنے سے روکنے والے لوگوں کی حوصلہ افزائی ہوگی اور وہ اس رویے کو جاری رکھیں گے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں