ٹیڑھی مسکراہٹ

اپ ڈیٹ 06 ستمبر 2017
— Creative Commons
— Creative Commons

یہ آلوک کمار ساتپوتے کے افسانچوں کی چوتھی قسط ہے۔ گذشتہ افسانچے یہاں پڑھیں۔


افسردگی

”اور کیا کررہے ہو بھائی آج کل……؟“ سوال کرنے والے نے سوال کیا۔

”جی، بے روزگار ہوں انکل ابھی تو……“ اس نے سر جھکائے اپنی ٹوٹی چپلوں کی طرف دیکھتے ہوئے خطاوار احساس کے ساتھ کہا۔

”میرا لڑکا تو اپنے کاروبار میں لگ گیا ہے……اچھا کما، کھا رہا ہے……“ سوال کرنے والے نے بتایا۔

”تو……؟ تو میں کیا کروں ……؟ آپ جان بوجھ کرمیرے زخموں پر نمک چھڑکتے ہیں……“ اس نے افسردگی بھری آواز میں کہا۔

”میرا ایسا تو مقصد نہیں تھا۔“ یہ کہتے ہوئے سوال کرنے والے کے لبوں پر ٹیڑھی مسکراہٹ آگئی۔

تکلیف دہ انجام

”اچھا بھائی صاحب، آپ کے ساتھ سفر آرام دہ رہا۔ آگے بھی رابطہ قائم رہے گا۔ اس لیے آپ میرا موبائل نمبرلکھ لیں، اور اپنا موبائل نمبر مجھے دے دیں۔“

”بھائی جی میرے پاس موبائل نہیں ہے۔“

”ارے کیا بات کرتے ہیں۔ آپ کے پاس موبائل نہیں ہے؟ اچھا مذاق کرلیتے ہیں آپ۔“

”میں مذاق نہیں کررہا ہوں۔ میرے پاس واقعی موبائل نہیں ہے۔“

”آج کے زمانے میں جب رکشے، ٹھیلے والوں کے پاس موبائل ہے، ایسے میں میں مان ہی نہیں سکتا کہ آپ کے پاس موبائل نہیں ہے۔“

”ارے بھائی، میرے پاس موبائل نہیں ہے، نہیں ہے، نہیں ہے۔“

”ارے موبائل نہیں ہے، یا آپ ہمیں نمبر ہی نہیں دینا چاہتے۔ ہم آپ کو ٹچے نظر آتے ہیں، یا لوفر نظر آتے ہیں، جو فون کرکے آپ کی بیوی کو پریشان کریں گے۔“

”دیکھیے، آپ مجھ تک ہی رہیں، میری بیوی تک مت پہنچیے، ورنہ مجھ سے برا کوئی نہ ہوگا۔“

”کیا اکھاڑ لیں گے آپ میرا؟“

اس کے بعد دونوں ہی اپنی اپنی آستینیں چڑھانے لگے اور اس طرح ایک آرام دہ سفرکا تکلیف دہ انجام ہوا۔

مالیت (1)

”جی لڑکا تو ویسے ایک چھوٹی سی نوکری میں ہے، پر ہے بڑا ہی ذہین فنکار۔ سبھی قسم کے فن جیسے بت تراشی، اسکیچنگ، فوٹوگرافی، ادب اور موسیقی میں ماہر ہے وہ۔“ ایک رشتہ تجویز کرتے ہوئے ثالث نے لڑکی کے باپ سے کہا۔

”اچھا! اپنے ان فنون سے وہ کتنا کما لیتا ہے؟“ لڑکی کے باپ نے سوال کیا۔

”جی اس نے فن کو فن ہی رہنے دیا ہے، پیشے کے طور پر نہیں اپنایا ہے۔ چونکہ یہ سب اس کا شوق بھر ہیں، اس لیے وہ اپنے ان فن سے کچھ بھی نہیں کماتاہے۔“ ثالث نے جواب دیا۔

”تو کاہے کا فنکار ہے؟ ایسے فن کو ڈھونے کا کیا مطلب ہے، جس میں کوئی کمائی نہ ہو؟ میرا تو یہ ماننا ہے کہ روپے، پیسے کمانا ہی اصلی فن ہے، باقی سب بے کار کی باتیں ہیں۔ میں اپنی لڑکی کی شادی ایسی جگہ پر نہیں کرسکتا۔“ لڑکی کے باپ نے سیدھا سا جواب دیا۔

مالیت (2)

کیوں صاحب، آپ کے تینوں لڑکے کیا کیا کر رہے ہیں؟

جی پہلے لڑکے کو سفارش کروا کر چپراسی بنا دیا ہے، اور دوسرے کو چائے کی دکان کھول کر دے دیا ہے۔

اور تیسرا؟

کیا بتائیں صاحب! تیسرا لڑکا رائٹر ہوگیا ہے۔ پتہ نہیں کہاں کہاں ادبی کانفرنس، سبھا، وبھا میں جاتا رہتا ہے۔

اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ کا تیسرا لڑکا نالائق نکل گیا۔ جی ہاں! ایسا ہی کچھ سمجھ لیجیے۔

امید کی کرن

ناکامی در ناکامی سے ناامید ہو کر اس نے خود کو ایک اندھیرے کمرے میں بند کرلیا، اور تقریباً مردے کی سی حالت میں پڑا پڑا قضا کے بارے میں سوچنے لگا۔

دھیرے دھیرے اس پر ناامیدی حاوی ہونے لگی۔ وہ اسی حالت میں پڑا رہا۔ یکایک اس نے دیکھا کہ کہیں سے ایک کرن سی پھوٹتی ہوئی نظر آرہی ہے، جو کہ بڑھتے بڑھتے اس کے چہرے تک پہنچ چکی ہے۔ کچھ دیر بعد اس کرن میں نہا سا گیا۔ اب اس کے دل سے ناامیدی کا نام ونشان مٹ چکا تھا۔ وہ شگفتہ ہو کر بیٹھ گیا، اور اس کرن سے پوچھنے لگا: ”اے کرن تم کون ہو، جس نے میرے من میں یکدم جوش اور بے نظیر حوصلہ ترسیل بھر دیا ہے؟“

اس پر اس کرن کا جواب تھا: ”میں امید کی کرن ہوں۔ میرا وجود تم میں ہی سمایا ہوا ہے۔ تم میں تو امید کا پورا سورج سمایا ہوا ہے۔ میں صحیح وقت پر جاگ گئی، ورنہ بے معنی ہو جاتا۔“

کرن کے اس جواب سے شگفتہ ہو کر اس نے دروازہ کھولا۔ باہر کی ٹھنڈی ہواؤں نے اس کے جوش کو دگنا کیا۔ اب وہ پھر سے کامیابی پانے کی کوشش میں جٹ گیا۔

تبصرے (1) بند ہیں

حاتم علی Jun 03, 2015 12:49pm
بہت خوب ۔ ۔ ۔ بہت خوبصورت لکھا آپ نے، بلاشبہ تحریر کا ما حصل آخری پیرا ہی ہے ۔ دل کے دریچے وا کر کے جوش کی اُٹھان پیدا کرنا امید ہی کا کام ہے ۔ جیتے رہیے