چاغی میں بچوں کی شرح اموات 34 فیصد

15 جون 2015
چاغی میں ہیلتھ کیئر سینٹرز کی صورتحال انتہائی خراب ہے۔۔۔۔ فوٹو: بشکریہ علی رضا رند
چاغی میں ہیلتھ کیئر سینٹرز کی صورتحال انتہائی خراب ہے۔۔۔۔ فوٹو: بشکریہ علی رضا رند

چاغی: بلوچستان کے پسماندہ علاقے ضلع چاغی میں دوران زچگی ناکافی سہولیات اور بعد ازاں شدید غذائی قلت اور طبی پیچیدگیوں کے باعث 34 فیصد بچوں کی ہلاکت ہو رہی ہے۔

نیشنل پروگرام فار فیملی پلاننگ اینڈ پرائمری ہیلتھ کیئر چاغی کے اعداد و شمار کے مطابق ہر 11واں بچہ مناسب دیکھ بھال نہ ہونے سے موت کے منہ میں چلا جاتا ہے جب کہ ہر دس میں تین بچے غذائی قلت کا شکار ہو رہے ہیں۔

غذائی قلت اورنامناسب طبی سہولیات کے باعث 8 فیصد بچے پیدائش سے پہلے ہی مرجاتے ہیں۔ اسی طرح زچگی کے دوران خواتین کی شرح اموات بھی 4.6 فیصد ہے اور مناسب طبی سہولیات نہ ملنے کے باعث ہر 15 میں سے دو خواتین موت کا شکار ہو رہی ہیں۔

نیشنل پروگرام فار فیملی پلاننگ اینڈ پرائمری ہیلتھ کیئر چاغی کے کوآرڈینیٹر محمد عمران کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ ان خواتین اور بچوں کی زیادہ تعداد دور دراز کے علاقوں سے تعلق رکھتی ہے جن کے اعداد و شمار 100 سے زائد لیڈی ہیلتھ ورکرز اور شہری اسپتالوں و طبی سینٹرز سے جون 2014 تک حاصل کیے گئے ہیں۔

ان کے مطابق یہ اعداد و شمار ضلع چاغی کے 12 میں سے صرف 5 یونین کونسلز کے ہیں جہاں لیڈی ہیلتھ ورکرز موجود ہوتی ہیں جب کہ دیگر 7 یونین کونسلز کا ریکارڈ موجود نہیں ہے۔

محمد عمران کے مطابق پورے ضلع میں ایک بھی ماہر امراض نسواں یعنی گائنا کالوجسٹ نہیں ہے جس کے سبب زچگی کے کیسز میں لوگوں کو 320 کلومیٹر دور کوئٹہ جانا پڑتا ہے جب کہ سڑک کی خراب صورتحال کے باعث یہ سفر 6 گھنٹے سے بھی زائد میں طے ہوتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ چاغی سے کوئٹہ جانے کے دوران راستے میں ہی متعدد خواتین اور بچوں کی ہلاکت ہو جاتی ہے تاہم ان ہلاکتوں کے حوالے سے اعداد و شمار موجود نہیں ہیں۔

ہیلتھ سینٹرز کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ پورے ضلع میں صرف 5 زچہ و بچہ سینٹرز ہیں لیکن ان میں سے بعض سینٹرز فعال نہیں ہیں اسی لیے بیشتر بچے اور مائیں ویکسینیشن سے محروم رہتے ہیں اور بروقت طبی امداد نہ ملنے کے ساتھ ساتھ آگاہی مہمات بھی نہیں چلائی جاتیں جس سے ہلاکتیں ہو رہی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ محکمہ صحت بلوچستان کی جانب سے میٹرنل نیوبرن ہیلتھ کیئر پروگرام کے تحت ہر سال 18 سے 20 ایف ایس ای یا ایف اے پاس لڑکیوں کو مڈوائفری کی ٹریننگ دی جاتی ہے تاکہ پھر وہ اپنی کمیونٹیز میں جا کر زچگی کی کیسز کو مناسب طریقے سے حل کر سکیں لیکن اکثر خواتین ضلعی صدر مقام دالبندین میں قائم مڈوائفری اسکول میں داخلہ نہیں لیتی ہیں کیونکہ یہاں رہائش کا بندوبست نہیں ہے۔

ان کا ماننا ہے کہ زچگی کے دوران ماں اور بچے کی جان کو لاحق سنگین خطرات کی ایک بڑی وجہ مناسب آگاہی کا نہ ہونا بھی ہے حالانکہ لیڈی ہیلتھ ورکرز اپنے اپنے ایریاز میں ماہوار آگاہی میٹنگز کی رپورٹس بھی دیتی ہیں۔

2013 سے یونیسیف اور ورلڈ فوڈ پرواگرام کی تعاون سے جاری نیوٹریشن سیل بلوچستان کے ضلع چاغی میں کوآرڈینیٹر محمد حفیظ شہی بھی لیڈی ہیلتھ ورکرز کی مدد سے ضلع چاغی کے پانچ یونین کونسلزمیں غذائی قلت پر قابو پانے میں سرگرم ہیں۔

انہوں نے آگاہی نہ ہونے کو بڑا مسئلہ قرار دینے کےساتھ ساتھ یہ بھی کہا کہ ضلع چاغی میں ڈاکٹرز بھی پیسے کمانے کے چکر میں غذائی قلت کے شکار بچوں و خواتین کو نیوٹریشن سیل نہیں بھیجتے۔

انہوں نے بتایا کہ جون 2014 سے اب تک یعنی گزشتہ ایک سال کے دوران غذائی قلت کی شکار 1158 حاملہ خواتین اور 916 بچے ان کے پاس رجسٹرڈ ہوئے جنہیں ایک خاص قسم کی خشک خوراک فراہم کی جس کی کل مدت کم از کم دو اور زیادہ سے زیادہ چار ماہ ہوتی ہے۔

حفیظ شہی کے مطابق اگر 2013 سے اپریل 2015 تک مجموعی طور پر ضلع چاغی میں غذائی قلت کے شکار 6612 بچوں کو رجسٹرڈ کیا گیا ہے جن میں سے صرف 4066 بچوں نے مطلوبہ کورس مکمل کیا اور صحتیاب ہوئے۔

ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر چاغی ڈاکٹر بشیر احمد سے جب پوچھا گیا کہ چاغی کے 7 یونین کونسلز میں لیڈی ہیلتھ ورکرز بھرتی کیوں نہیں کیے جاتے تو ان کا کہنا تھا کہ مذکورہ یونین کونسلز میں مطوبہ تعلیمی اہلیت کی حامل خواتین دستیاب نہیں جنہیں بھرتی کیا جائے جس کی واضع مثال یہ ہے کہ مڈوائفری اسکول میں داخلے کے لیے بھی مذکورہ یوسیز سے خواتین داخلہ لینے نہیں آتیں۔

تبصرے (0) بند ہیں