"میں اپنے چھوٹے سے بیٹے کو وہیں چھوڑ آیا ہوں"
کراچی: ہندوستان کی قید سے رہائی پانے والے 88 پاکستانی ماہی گیروں کو لانے والی 2 بسیں ابھی کراچی کے علاقے ٹاور پر ایدھی سینٹر پہنچی بھی نہیں تھیں کہ ان کے رشتے دار اور پاکستان فشر فولک فورم سمیت دیگر غیر سرکاری تنظیموں کے عہدیدار اُن کے استقبال کے لیے وہاں پہلے سے موجود تھے، لیکن یہ سب لوگ اُس 8 سالہ بچے غلام حسین کے بارے میں بات کر رہے تھے، جو وطن واپس نہیں آسکا تھا۔
ٹھٹھہ کے قریب حاجی یوسف کاٹھیار گوٹھ کے رہائشی غلام حسین کے والد، محمد جمن کو اپنی رہائی کی کچھ زیادہ خوشی نہیں تھی، جنھوں نے بوجھل دل کے ساتھ بس سے نیچے قدم رکھا اور استقبال کے لیے موجود ہجوم میں سے ایک شناسا چہرے کو دیکھتے ہی اُس سے لپٹ کر سسکنے لگے۔
جب محمد جمن کے حواس کچھ حواس بحال ہوئے تو انھوں نے ڈان سے بات کرتے ہوئے کہا "میں اپنے چھوٹے سے بیٹے کو وہیں پیچھے چھوڑ آیا ہوں، خدا جانتا ہے کہ میں کس طرح واپس آیا ہوں، میرے دل کی حالت اور جذبات صرف خدا ہی جانتا ہے"۔
جب ان سے تفصیلات پوچھی گئیں تو جمن نے بتایا کہ ہندوستانی حکام کا کہنا ہے کہ اُن کا بیٹا واپس نہیں جاسکتا کیوں کہ اس کے کاغذات مکمل نہیں ہیں اور پاکستانی سفارت خانے کے حکام نے ابھی تک اس کے پاکستانی شہری ہونے کی تصدیق نہیں کی، تاکہ اسے ڈی پورٹ کیا جاسکے۔
"میں نے اُن کی منت کی کہ مجھے میرے بیٹے کے بغیر مت بھیجیں، لیکن اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا"۔
محمد جمن کو اس کے بیٹے اور دیگر افراد کے ہمراہ 18 ماہ قبل ان کی کشتی ' اللہ مدد' سے سرکریک کے علاقے سے ہندوستانی کوسٹ گارڈز نے گرفتار کیا تھا۔
8 سالہ غلام حسین کے والد محمد جمن شدید دل گرفتہ تھے۔ "یہ سراسر میری غلطی تھی، میں اسے اکثر اپنی ماہی گیری کے قصے سناتا رہتا تھا، جس کے بعد اُس نے میرے ساتھ جانے کی خواہش کا اظہار کیا اور اس کے کشتی کے پہلے ہی سفر پر کیا ہوگیا"۔
محمد جمن کو اس کے دوستوں نے بمشکل ٹھٹھہ جانے والی پک اپ میں سوار کرایا۔
مزید پڑھیں:ہندوستان نے 88 پاکستانی ماہی گیر رہا کردیئے
دوسری جانب ابراہیم حیدری کے رہائشی عبدالعزیز نے اپنے دو بچوں سمیر اورعارف کو سینے سے لگا رکھا تھا اور وہ بار بار فرط جذبات سے اُن کے گال اور پیشانیاں چوم رہے تھے۔ "میرے بچو! میرا وعدہ ہے کہ اب جب تک میں زندہ ہوں، آپ لوگوں کو دوبارہ چھوڑ کر نہیں جاؤں گا"۔
ہندوستان کی جام نگر جیل میں 3 برس قید کے بعد رہائی پانے والے عبدالعزیز نے ڈان سے بات کرتے ہوئے کہا "میں کچھ بھی کرلوں گا لیکن ماہی گیری نہیں کروں گا، کیوں کہ اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے"۔
انھوں نے جیل میں گزارے ایام کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ "آپ کو علم نہیں ہے کہ ہندوستان کی جیلوں میں ہم نے کیسے وقت گزارا، وہ ہمیں حیلے بہانوں سے مارتےپیٹتے تھے، ہندوستانی قیدیوں سے بچ جانے والے سالن میں پانی ڈال کر ہمیں کھانے کے لیے دیا جاتا تھا اور روٹی عام طور پر جلی ہوئی ہوتی تھی۔ میں نے جیل میں 3 سال صرف اپنی بیوی اور بچوں کے بارے میں سوچتے ہوئے گزارے جبکہ رہائی کے وقت جیل میں سخت مشقت کرکے جمع کی گئی میری قلیل سی رقم بھی جیلرز نے ہتھیا لی، جن کا کہنا تھا کہ ہندوستانی کرنسی پاکستان میں کس کام کی ہوگی، لیکن چونکہ میں اپنے گھر واپس جارہا تھا، لہذا میں نے اس کی پروا نہیں کی"۔
کیٹی بندر کے رہائشی ایک ضعیف العمر ماہی گیر حاجی عبدالرحیم کاٹھیار کا کہنا تھا کہ " 15 سال بعد وطن واپس آنا بہت اچھا لگ رہا ہے"، جس پر وہاں موجود اُن پر پھولوں کی پتیاں نچھاور کرتے رشتے دار ہنس پڑے، پوچھنے پر وضاحت کی گئی کہ بابا کی عمر زیادہ ہوگئی ہے، اس لیے وہ کنفیوژ ہوگئے ہیں، "انھوں نے ہندوستانی جیل میں 5 سال گزارے ہیں، 15 نہیں!"
جب بابا سے اس حوالے سے سوال کیا گیا کہ کیا اب وہ ماہی گیری کریں گے یا ریٹائرمنٹ لے لیں گے؟ بابا نے نہایت جوش سے جواب دیا: "ریٹائرمنٹ؟ آپ کہتے ہیں میں ریٹائر ہوجاؤں! میں جب تک زندہ ہوں ماہی گیری کرتا رہوں گا"۔











لائیو ٹی وی