اسلام آباد: پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں قصور میں بچوں کے ساتھ زیادتی اور فلم بندی کے واقعات کیخلاف مذمتی قراردادیں منظور کرلی گئیں۔

ڈان نیوز کے مطابق سینیٹ نے متفقہ طور پر قرارداد کے ذریعے قصور واقعے کی سخت الفاظ میں مذمت کی اور درندنگی کا نشانہ بننے والے بچوں کو انصاف فراہم کرنے کا مطالبہ کیا۔

قومی اسمبلی اجلاس میں اسپیکر قومی اسمبلی کی جانب سے تحریک التواء اور توجہ دلاو نوٹس پر قصور واقعہ پر بات کرنے کی اجازت نہ ملنے پر اپوزیشن جماعتوں نے ایوان سے واک آؤٹ کیا

تاہم پھر نکتہ اعتراض پر بات کرنے کا موقع ملا تو ارکان نے افسوس ناک واقعہ کی کھل کر مذمت کی۔

قومی اسمبلی میں متفقہ طور پر منظور کی جانے والی مذمتی قرارداد میں قصور واقعہ کی سخت ترین الفاظ میں مذمت کرنے کے ساتھ ساتھ جنسی تشدد کا نشانہ بننے والے بچوں اور ان کے خاندانوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا گیا۔

قرارداد میں پنجاب حکومت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ قصور واقعہ کی ترجیحی بنیادوں پر تحقیقات کرائی جائیں اور ملوث ملزمان کو مثالی سزا دلائی جائے۔

ایوان زیریں نے بچوں کے حقوق کے لیے موثر قانون سازی کرنے کے عزم کا بھی اعادہ کیا۔

قصور واقعہ پر کچھ ارکان نے ملزمان کا ٹرائل فوجی عدالتوں میں کرنے کا بھی مطالبہ کیا۔

تحریک انصاف کے رہنما شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ ان کی جماعت اس واقعے پر پوائنٹ اسکورنگ نہیں کرنا چاہتی مگر سانحہ ماڈل ٹاؤن کی رپورٹ عام نہ کرنے سے لوگ قصور واقعے پر بھی جوڈیشل انکوائری سے مطمئن نہیں۔

'ہمیں مٹی پاو پالیسی سے جان چھڑانا ہوگی تمام سیاسی جماعتوں کو متحد ہونا ہوگا۔'

ایم کیو ایم کے رشید گوڈیل نے مطالبہ کیا کہ گذشتہ چھ برسوں میں قصور میں تعینات رہنے والے تمام ایس ایس پیز اور ایس ایچ اووز کو شامل تفتیش کیا جائے۔

قومی اسمبلی کا اجلاس منگل کی صبح ساڑھے دس بجے تک ملتوی کردیا گیا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (3) بند ہیں

Muhammad Ayub Khan Aug 11, 2015 10:16am
mujhey naheyin samajh aa raha sanaullah ko qabil aitibaar samjhoon ya parlement ko----------aakhir mey yehi samajh mey aaya ki------in donoN meyn sey jo jhoota hey us ko mustafiy ho jana chahiye
راضیہ سید Aug 11, 2015 01:00pm
پہلی بات کوئی بھی حکومت کفر پر تو قائم رہ سکتی ہے لیکن ظلم اور تشدد پر نہیں اصل میں یہ دیکھنا پڑے گا کہ آج تک بچوں کے لئے کوئی خاص قانون سازی نہیں کی گئی ہاں جب ان کے خلاف کوئی بھی زیادتی ہوئی ہے تو اسکی مذمت کے لئے بس قراردادیں ہی رہ جاتی ہیں ۔ کچھ تنظیمیں ایسی ضرور ہیں جو کہ بچوں کی بہتری کے لئے کام کر رہی ہیں جن میں روزن اور ساحل قابل ذکر ہیں لیکن کیا ان این جی اوز تک دیہی علاقوں میں رہنے والے ان بچوں کی رسائی ہے ؟ کیا ہمارے ملک میں سائبر کرائمز کی کوئی حثییت نہیں ؟ یا معاشرتی برائیوں کی روک تھام کے لئے کوئی ادارہ نہں نہ ہی ایسے والدین ہیں جو کہ بچوں کو موبائل اور اس طرح کی سہولیات دیتے وقت اسکے منفی اثرات کو نہیں دیکھتے ؟
Sharminda Aug 11, 2015 03:14pm
Aik aur mazaq awam kay saath. Ab tu ronay ka bhi dil nahin karta. Har koi bay his ho chuka hai. Woh waqt door nahin jab in kay gharo tak yeh maamla phanchay gaa.