ایک سوال 'مردوں' سے
کبھی نہ کبھی آپ نے ضرور سنا یا دیکھا ہو گا کہ کئی گھرانوں میں جیسے ہی شوہر صاحب گھر میں داخل ہوتے ہیں گھر کے پرسکون ماحول پرایک عجیب کیفیت چھا جاتی ہے.
عام طور پر شوہر حضرات سنجیدہ سا، گمبھیر سا چہرہ لئے اپنے گھر میں داخل ہوتے ہیں اور رویہ ایسا ہوتا ہے کہ گھر کے دوسرے افراد کو ان کے قریب جانے اور کوئی بات چھیڑنے میں ان کے اچھے موڈ کا انتظار کرنا ہوتا ہے.
دوسری طرف جب ایک بیوی اپنی ملازمت کے بعد تھکی ہاری گھر میں داخل ہوتی ہے تو ایک گلاس پانی پینے کے بعد کچن کا رخ کرتی ہے.
اسے خود اپنے آرام سے زیادہ اس آدمی کی فکر رہتی ہے جواس کا شوہر ہے اور کچھ دیر میں گھر پہنچنے والا ہے یا اس سے پہلے ہی گھر پہنچ چکا ہے. کیونکہ اگر کھانا وقت پر نہ ملے اور اسکی ضروریات کی چیزیں اپنی جگہ نظر نہ آئیں تو گھر میں بھونچال آسکتا ہے.
دفتروں میں یا باہر کی دنیا میں ایک عورت کے ساتھ جو کمتری کا سلوک کیا جاتا ہے اسکے خلاف اپنے جذبات اور غصّے کو وہ اس طرح ظاہر نہیں کر سکتیں جتنی آسانی کے ساتھ ان کے شوہر حضرات کرتے ہیں.
اگر کسی عورت نے اپنے شوہرکی زیادتیوں کی وجہ سے علیحدگی اختیار کر لی ہے تو عام طور پر ایسی عورت کے چال چلن پر شبہ کیا جاتا ہے. اور شک یہ ہوتا ہے کہ اس کی زند گی میں شائد کوئی اور مرد آگیا ہے. مرد ذات تو کجا، اسے شازونادر ہی اپنی ہم جنسوں کی حمایت اور ہمدردی حاصل ہوتی ہے.
حیرت کی بات تو یہ ہے کہ اسی عورت سے الگ ہونے والے شخص کو پورے سماج کی ہمدردیاں حاصل ہو جاتی ہیں. فوری طورپر اس کی دوسری شادی کے سلسلے میں گہما گہمی شروع ہو جاتی ہے.
شائد اس لیے کہ ایک عام مرد اکیلا زندگی گزارنے کا اہل نہیں ہوتا ہے. وہ گھر اور باہر کی ذ مےداریوں کے دباؤ کو اس طرح نہیں نبھا سکتا جس طرح ایک عورت نبھا سکتی ہے.
زندگی کے ہر زاویے پر عورت سے یکساں توجہ کی توقع کی جاتی ہے اور بیشتر اوقات وہ ان توقعات پر پوری بھی اترتی ہے.
اس کے برعکس عام طور پر ایک عام مرد اپنے گھریلو اور اس سے جڑے ماحول کو اس طرح دیکھتا ہے جیسے کہ ایک سرنگ کے اندر دیکھ رہا ہے. اسے اپنے ماحول کی 360 ڈگری کا منظر دکھائی نہیں دیتا، عام طور پر وہ ایک وقت میں کئی مسائل سے دوچار ہونے صلاحیت نہیں رکھتا ہے.
مزے کی بات تو یہ ہے کہ مرد اپنی ان کمزوریوں سے بہت اچھی طرح واقف بھی ہے اور اپنے کردار کے اس پہلو کو مثبت انداز میں بیان کرنے کی بھی صلاحیت رکھتا ہے.
ذرا ٹی وی پر پیش کئے جانے والے مزاحیہ ڈراموں (سٹ کام) پر نظر ڈالیے جن کے مردانہ مزاحیہ کرداروں کی کاہلی، معصومیت، بیوقوفیوں اور ماحول سے انجانے پن کو اس طرح پیش کیا جاتا ہے کہ بجائے غصّے کے ان پر ہنسی بھی آ جاتی ہے اور پیاربھی آنے لگتا ہے.
ان ڈراموں کے مصنف کا نام تلاش کریں تو تعجب ہو گا کہ ان ڈراموں کے کرداروں کے موجد زیادہ تر مرد حضرات ہی ہوتے ہیں. انہیں بیشک اپنی کوتاہیوں پر ہنسنے کا فن بھی خوب آتا ہے.
ابھی تک ہمارے معاشرے میں لڑکوں کو لڑکیوں کے مقابل برتری حاصل ہے. بیٹی کو ذرا سا شعور آیا اور اسے ہر کسی کے ساتھ تابعداری کے سارے اصول اس طرح سکھائے جاتے ہیں کہ اس کی ذہنی نشونما میں تابعداری اپنی جڑیں مضبوط کر لیتی ہے.
زندگی کے سفر میں عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ بیوی کی خوداعتمادی کا انحصار اس کے شوہر کے روئیے پر ہوتا ہے. کئی مرد اپنی بیویوں کو بالکل ہی ناکارہ بنا کر رکھنے میں ہی اپنی عافیت سمجھتے ہیں.
ایسی عورتیں جب اکیلی رہ جاتی ہیں تو ان میں مشکل حالات کا مقابلہ کرنے کی ہمت جواب دے جاتی ہے اور وہ اپنے آپ کو مظلوم، کمزور اور تنہا محسوس کرنے لگتی ہیں.
ان عورتوں کا اعتماد اس قدر مجروح ہو جاتا ہے کہ وہ اکیلی گھر سے باہر قدم نہیں نکال سکتیں ہیں. ایسی عورتیں جن کے اعتماد کو بری طرح کچل کے رکھ دیا گیا ہو وہ کیونکر کسی سہارے کے بغیر اپنی بقیہ زندگی سکون اور اطمنان کے ساتھ گزار سکتی ہیں.
کئی کمزور کردار مرد اپنی جھوٹی برتری اور اپنی ہوس کی تسلی کے لیے خود ساختہ شرعی قانون کو اپنی ڈھال بنا لیتے ہیں اور ہر عورت کو کمزور سمجھ کر ان پر ہر طرح سے حملہ آ ور ہوتے ہیں.
مثال کے طور پر ایک بے اولاد بیوہ جس نے ساری زند گی اپنے شوہر کے ساتھ خوشی اور سکون کے ساتھ گزاری تھی، جس نے شانہ بہ شانہ اپنے شوہر کے ساتھ کام کر کے اپنے اور اپنے شوہر کے رہن سہن کا معیار قائم رکھا تھا، جس نے اس کی ہر ہر مشکل میں پورا پورا ساتھ دیا تھا، اسی شوہر کے گزر جانے پر سارے قریبی رشتے دار خاص طور پر وہ مرد جنہیں شرعی قانون کو توڑ مروڑ کر اپنے حق میں استعمال کرنے کے پورے پورے گر آتے ہوں، چاہے وہ اور ان کی اولادیں امیرانہ ٹھاٹھ کے ساتھ رہتے ہوں، وہ اپنی شاطر چالبازیوں کا استعمال کرکے ایک بیوہ کو اس کے سالہا سال کے بسے بسائے گھر سے نکال باہر کرنے میں ہی شرعی قانون کا بول بالا سمجھتے ہیں.
انتہائی شرم اور افسوس کی بات تو یہ ہے کہ وہ اپنے ذہنوں کو اس طرح کی تربیت دیتے ہیں کہ اگر وہ اپنے اس 'ناجائز' حق کا استعمال نہ کریں تو گویا انہیں دوزخ کے عذاب میں ڈالا جائے گا. ان کا تو کہنا ہوتا ہے کہ یہ قانون اللہ تعالہ کا بنایا ہوا ہے وہ کیونکر اس سے دستبردار ہو سکتے ہیں.
انتہائی افسوس کا مقام ہے کہ ہماری سوسائٹی اور کلچر میں، بظاہر مہذب خاندانوں میں، ایسی ذلت آمیز حرکات سے ان مردوں کو نہ تو ان کی تعلیم یافتہ اولادیں ہی روکتی ہیں نہ ہی ان کی ماں، بیوی، بیٹیاں یا بہنیں.
ایسے مرد ان بیواؤں پرہاتھ اٹھانے، اور زبردستی کی چھینا جھپٹی اور کبھی کبھی قتل وغارت سے بھی باز نہیں آتے.
ہمارے ملک میں ایسی مثالیں عام طور پر نظرآتی ہیں لیکن ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ وہ لوگ جو ان واقعات کو اپنی آنکھوں سے دیکھتے اور کانوں سے سنتے ہیں، بڑی بے حسی کے ساتھ یہ کہہ کر اپنا منہ موڑ لیتے ہیں کہ؛
'ہاں، افسوس کا مقام تو ہے، پر ہوتا یہی سب کچھ ہے اپنے سماج میں'.
جوباہمت عورتیں اپنے حق کے لیے ان حضرات سے مقابلہ کرنے قانون کا دروازہ کھٹکھٹاتی ہیں وہاں بھی انہیں دشوار گزار راستوں سے گزرنا پڑتا ہے.
آخر یہ کیونکر ممکن ہے کہ ایک باپ اپنی ناخلف اولاد کو تو قانونی طور پر عاق کر سکتا ہے لیکن ایک مہذب، اعلیٰ تعلیم یافتہ اور سمجھدار بیٹا اپنے ظالم، خود غرض اور بدکردار باپ کو عاق نہیں کر سکتا. ان کی بیویاں، بہنیں اور بیٹیاں بھی حقائق کی طرف سے آنکھیں موند کر اپنے آپ کو کیونکر لا تعلق کر لیتی ہیں؟
چلیے دیکھتے ہیں کہ ایک اچھے اور کامیاب خاندان کی نشونماء میں ایک شوہر کا کیا کردار ہونا چاہئیے؛
عام تاثر یہ ہے کے وہ اپنے خاندان کی 'ضروریات' کا ذمہ دارہوتا ہے.
لیکن لفظ 'ضروریات' کے معنی کی تشریح کرنا بہت ضروری ہے. اس ایک لفظ میں بہت کچھ شامل ہے.
مرد کی ذمہ داری صرف یہ نہیں کہ وہ اپنے خاندان کو روٹی، کپڑا اور مکان مہیا کردے، بلکہ اسے یہ سمجھنا چاہئیے کہ ان چیزوں سے زیادہ اہم ضروریات اپنے خاندان کے افراد کی جذباتی، روحانی، جسمانی اور ذہنی صحت کی دیکھ بھال بھی ہے.
وہ اپنے خاندان کا محافظ ہوتا ہے. اس کا مطلب یہ نہیں کہ اگر کوئی اسکے خاندان کے کسی فرد کو ٹیڑھی نظر سے دیکھے تو وہ آپے سے باہر ہو جائے اور اس شخص کو زد و کوب کرکے اسے سزا دے. محافظ کا کام اپنے خاندان کو درپیش ہر طرح کے اندیشوں سے محفوظ رکھنا ہے.
وہ اپنے خاندان کا لیڈر ہوتا ہے. اپنے خاندان کے مسائل کو بیوی پر لادنے کی بجائے اس میں پوری دلچسپی لیتا ہے اور مسائل کو حل کرنے میں پہل کرتا ہے. ایک خاندان کی کامیابی کا دارومدار سب سے زیادہ اس بات پر ہوتا ہے کہ میاں اور بیوی، دونوں نے اپنے مسائل حل کرنے میں پچاس فی صد کی بجائے سو فیصد حصّہ لیا ہے.
وہ اپنے خاندان' اپنی کمیونٹی اور اپنے چاہنے والوں کے لیے ایک مثالی استاد کا رول ادا کرتا ہے. اس کے لیے ضروری ہے کہ اپنے کردارکا میعار بلند رکھے. خاص طور پر اپنی اولاد کی اچھی اور میعاری اٹھان کے لیے.
کیا یہ ممکن ہے؟ اگر نہیں تو کیوں نہیں!؟












لائیو ٹی وی
تبصرے (8) بند ہیں