• KHI: Partly Cloudy 25.5°C
  • LHR: Partly Cloudy 14.3°C
  • ISB: Rain 15.6°C
  • KHI: Partly Cloudy 25.5°C
  • LHR: Partly Cloudy 14.3°C
  • ISB: Rain 15.6°C

ایک سوال 'مردوں' سے

شائع June 20, 2013

السٹریشن --.
السٹریشن --.

کبھی نہ کبھی آپ نے ضرور سنا یا دیکھا ہو گا کہ کئی گھرانوں میں جیسے ہی شوہر صاحب گھر میں داخل ہوتے ہیں گھر کے پرسکون ماحول پرایک عجیب کیفیت چھا جاتی ہے.

عام طور پر شوہر حضرات سنجیدہ سا، گمبھیر سا چہرہ لئے اپنے گھر میں داخل ہوتے ہیں اور رویہ ایسا ہوتا ہے کہ گھر کے دوسرے افراد کو ان کے قریب جانے اور کوئی بات چھیڑنے میں ان کے اچھے موڈ کا انتظار کرنا ہوتا ہے.

دوسری طرف جب ایک بیوی اپنی ملازمت کے بعد تھکی ہاری گھر میں داخل ہوتی ہے تو ایک گلاس پانی پینے کے بعد کچن کا رخ کرتی ہے.

اسے خود اپنے آرام سے زیادہ اس آدمی کی فکر رہتی ہے جواس کا شوہر ہے اور کچھ دیر میں گھر پہنچنے والا ہے یا اس سے پہلے ہی گھر پہنچ چکا ہے. کیونکہ اگر کھانا وقت پر نہ ملے اور اسکی ضروریات کی چیزیں اپنی جگہ نظر نہ آئیں تو گھر میں بھونچال آسکتا ہے.

دفتروں میں یا باہر کی دنیا میں ایک عورت کے ساتھ جو کمتری کا سلوک کیا جاتا ہے اسکے خلاف اپنے جذبات اور غصّے کو وہ اس طرح ظاہر نہیں کر سکتیں جتنی آسانی کے ساتھ ان کے شوہر حضرات کرتے ہیں.

اگر کسی عورت نے اپنے شوہرکی زیادتیوں کی وجہ سے علیحدگی اختیار کر لی ہے تو عام طور پر ایسی عورت کے چال چلن پر شبہ کیا جاتا ہے. اور شک یہ ہوتا ہے کہ اس کی زند گی میں شائد کوئی اور مرد آگیا ہے. مرد ذات تو کجا، اسے شازونادر ہی اپنی ہم جنسوں کی حمایت اور ہمدردی حاصل ہوتی ہے.

حیرت کی بات تو یہ ہے کہ اسی عورت سے الگ ہونے والے شخص کو پورے سماج کی ہمدردیاں حاصل ہو جاتی ہیں. فوری طورپر اس کی دوسری شادی کے سلسلے میں گہما گہمی شروع ہو جاتی ہے.

شائد اس لیے کہ ایک عام مرد اکیلا زندگی گزارنے کا اہل نہیں ہوتا ہے. وہ گھر اور باہر کی ذ مےداریوں کے دباؤ کو اس طرح نہیں نبھا سکتا جس طرح ایک عورت نبھا سکتی ہے.

زندگی کے ہر زاویے پر عورت سے یکساں توجہ کی توقع کی جاتی ہے اور بیشتر اوقات وہ ان توقعات پر پوری بھی اترتی ہے.

اس کے برعکس عام طور پر ایک عام مرد اپنے گھریلو اور اس سے جڑے ماحول کو اس طرح دیکھتا ہے جیسے کہ ایک سرنگ کے اندر دیکھ رہا ہے. اسے اپنے ماحول کی 360 ڈگری کا منظر دکھائی نہیں دیتا، عام طور پر وہ ایک وقت میں کئی مسائل سے دوچار ہونے صلاحیت نہیں رکھتا ہے.

مزے کی بات تو یہ ہے کہ مرد اپنی ان کمزوریوں سے بہت اچھی طرح واقف بھی ہے اور اپنے کردار کے اس پہلو کو مثبت انداز میں بیان کرنے کی بھی صلاحیت رکھتا ہے.

ذرا ٹی وی پر پیش کئے جانے والے مزاحیہ ڈراموں (سٹ کام) پر نظر ڈالیے جن کے مردانہ مزاحیہ کرداروں کی کاہلی، معصومیت، بیوقوفیوں اور ماحول سے انجانے پن کو اس طرح پیش کیا جاتا ہے کہ بجائے غصّے کے ان پر ہنسی بھی آ جاتی ہے اور پیاربھی آنے لگتا ہے.

ان ڈراموں کے مصنف کا نام تلاش کریں تو تعجب ہو گا کہ ان ڈراموں کے کرداروں کے موجد زیادہ تر مرد حضرات ہی ہوتے ہیں. انہیں بیشک اپنی کوتاہیوں پر ہنسنے کا فن بھی خوب آتا ہے.

ابھی تک ہمارے معاشرے میں لڑکوں کو لڑکیوں کے مقابل برتری حاصل ہے. بیٹی کو ذرا سا شعور آیا اور اسے ہر کسی کے ساتھ تابعداری کے سارے اصول اس طرح سکھائے جاتے ہیں کہ اس کی ذہنی نشونما میں تابعداری اپنی جڑیں مضبوط کر لیتی ہے.

زندگی کے سفر میں عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ بیوی کی خوداعتمادی کا انحصار اس کے شوہر کے روئیے پر ہوتا ہے. کئی مرد اپنی بیویوں کو بالکل ہی ناکارہ بنا کر رکھنے میں ہی اپنی عافیت سمجھتے ہیں.

ایسی عورتیں جب اکیلی رہ جاتی ہیں تو ان میں مشکل حالات کا مقابلہ کرنے کی ہمت جواب دے جاتی ہے اور وہ اپنے آپ کو مظلوم، کمزور اور تنہا محسوس کرنے لگتی ہیں.

ان عورتوں کا اعتماد اس قدر مجروح ہو جاتا ہے کہ وہ اکیلی گھر سے باہر قدم نہیں نکال سکتیں ہیں. ایسی عورتیں جن کے اعتماد کو بری طرح کچل کے رکھ دیا گیا ہو وہ کیونکر کسی سہارے کے بغیر اپنی بقیہ زندگی سکون اور اطمنان کے ساتھ گزار سکتی ہیں.

کئی کمزور کردار مرد اپنی جھوٹی برتری اور اپنی ہوس کی تسلی کے لیے خود ساختہ شرعی قانون کو اپنی ڈھال بنا لیتے ہیں اور ہر عورت کو کمزور سمجھ کر ان پر ہر طرح سے حملہ آ ور ہوتے ہیں.

مثال کے طور پر ایک بے اولاد بیوہ جس نے ساری زند گی اپنے شوہر کے ساتھ خوشی اور سکون کے ساتھ گزاری تھی، جس نے شانہ بہ شانہ اپنے شوہر کے ساتھ کام کر کے اپنے اور اپنے شوہر کے رہن سہن کا معیار قائم رکھا تھا، جس نے اس کی ہر ہر مشکل میں پورا پورا ساتھ دیا تھا، اسی شوہر کے گزر جانے پر سارے قریبی رشتے دار خاص طور پر وہ مرد جنہیں شرعی قانون کو توڑ مروڑ کر اپنے حق میں استعمال کرنے کے پورے پورے گر آتے ہوں، چاہے وہ اور ان کی اولادیں امیرانہ ٹھاٹھ کے ساتھ رہتے ہوں، وہ اپنی شاطر چالبازیوں کا استعمال کرکے ایک بیوہ کو اس کے سالہا سال کے بسے بسائے گھر سے نکال باہر کرنے میں ہی شرعی قانون کا بول بالا سمجھتے ہیں.

انتہائی شرم اور افسوس کی بات تو یہ ہے کہ وہ اپنے ذہنوں کو اس طرح کی تربیت دیتے ہیں کہ اگر وہ اپنے اس 'ناجائز' حق کا استعمال نہ کریں تو گویا انہیں دوزخ کے عذاب میں ڈالا جائے گا. ان کا تو کہنا ہوتا ہے کہ یہ قانون اللہ تعالہ کا بنایا ہوا ہے وہ کیونکر اس سے دستبردار ہو سکتے ہیں.

انتہائی افسوس کا مقام ہے کہ ہماری سوسائٹی اور کلچر میں، بظاہر مہذب خاندانوں میں، ایسی ذلت آمیز حرکات سے ان مردوں کو نہ تو ان کی تعلیم یافتہ اولادیں ہی روکتی ہیں نہ ہی ان کی ماں، بیوی، بیٹیاں یا بہنیں.

ایسے مرد ان بیواؤں پرہاتھ اٹھانے، اور زبردستی کی چھینا جھپٹی اور کبھی کبھی قتل وغارت سے بھی باز نہیں آتے.

ہمارے ملک میں ایسی مثالیں عام طور پر نظرآتی ہیں لیکن ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ وہ لوگ جو ان واقعات کو اپنی آنکھوں سے دیکھتے اور کانوں سے سنتے ہیں، بڑی بے حسی کے ساتھ یہ کہہ کر اپنا منہ موڑ لیتے ہیں کہ؛

'ہاں، افسوس کا مقام تو ہے، پر ہوتا یہی سب کچھ ہے اپنے سماج میں'.

جوباہمت عورتیں اپنے حق کے لیے ان حضرات سے مقابلہ کرنے قانون کا دروازہ کھٹکھٹاتی ہیں وہاں بھی انہیں دشوار گزار راستوں سے گزرنا پڑتا ہے.

آخر یہ کیونکر ممکن ہے کہ ایک باپ اپنی ناخلف اولاد کو تو قانونی طور پر عاق کر سکتا ہے لیکن ایک مہذب، اعلیٰ تعلیم یافتہ اور سمجھدار بیٹا اپنے ظالم، خود غرض اور بدکردار باپ کو عاق نہیں کر سکتا. ان کی بیویاں، بہنیں اور بیٹیاں بھی حقائق کی طرف سے آنکھیں موند کر اپنے آپ کو کیونکر لا تعلق کر لیتی ہیں؟

چلیے دیکھتے ہیں کہ ایک اچھے اور کامیاب خاندان کی نشونماء میں ایک شوہر کا کیا کردار ہونا چاہئیے؛

عام تاثر یہ ہے کے وہ اپنے خاندان کی 'ضروریات' کا ذمہ دارہوتا ہے.

لیکن لفظ 'ضروریات' کے معنی کی تشریح کرنا بہت ضروری ہے. اس ایک لفظ میں بہت کچھ شامل ہے.

مرد کی ذمہ داری صرف یہ نہیں کہ وہ اپنے خاندان کو روٹی، کپڑا اور مکان مہیا کردے، بلکہ اسے یہ سمجھنا چاہئیے کہ ان چیزوں سے زیادہ اہم ضروریات اپنے خاندان کے افراد کی جذباتی، روحانی، جسمانی اور ذہنی صحت کی دیکھ بھال بھی ہے.

وہ اپنے خاندان کا محافظ ہوتا ہے. اس کا مطلب یہ نہیں کہ اگر کوئی اسکے خاندان کے کسی فرد کو ٹیڑھی نظر سے دیکھے تو وہ آپے سے باہر ہو جائے اور اس شخص کو زد و کوب کرکے اسے سزا دے. محافظ کا کام اپنے خاندان کو درپیش ہر طرح کے اندیشوں سے محفوظ رکھنا ہے.

وہ اپنے خاندان کا لیڈر ہوتا ہے. اپنے خاندان کے مسائل کو بیوی پر لادنے کی بجائے اس میں پوری دلچسپی لیتا ہے اور مسائل کو حل کرنے میں پہل کرتا ہے. ایک خاندان کی کامیابی کا دارومدار سب سے زیادہ اس بات پر ہوتا ہے کہ میاں اور بیوی، دونوں نے اپنے مسائل حل کرنے میں پچاس فی صد کی بجائے سو فیصد حصّہ لیا ہے.

وہ اپنے خاندان' اپنی کمیونٹی اور اپنے چاہنے والوں کے لیے ایک مثالی استاد کا رول ادا کرتا ہے. اس کے لیے ضروری ہے کہ اپنے کردارکا میعار بلند رکھے. خاص طور پر اپنی اولاد کی اچھی اور میعاری اٹھان کے لیے.

کیا یہ ممکن ہے؟ اگر نہیں تو کیوں نہیں!؟


Shahida profile Picture شاہدہ غنی 1971 سے انگلینڈ میں رہتی ہیں.

شاہدہ غنی
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تبصرے (8) بند ہیں

imran Jun 20, 2013 02:27pm
Fazool
saleemalam Jun 20, 2013 05:50pm
you have highlighted the society norm nicely and raised a very good question. in most cases men in laws( along with their wives) become so selfish that they want to snatch everything from the widow in the name of shraih. they don't want to know whether it was the widow''s hard earning as well. for them money is everything. ..... and such people are never satisfied with what they get in the name of shariah. They just want more and more and more.......!
mahe' talat abidi Jun 20, 2013 05:59pm
Shahida, this time you have shown the ugly face of male supremacy in our culture, well done! You are a very courageous woman to write about these taboo subjects, generally, as you yourself have pointed out that people shrug and say"well, this is our culture, it has been happening for centuries." For God's sake we are living in 21century not in stone age. Unless we recognise these major short comings, how are we going to deal with them? We have to change our perception of women's place in our society. I get annoyed with our women,the mothers, who should be teaching their boys to treat their sisters and wives with respect and humanity. Every point you have made rings a bell, because I see it around me all the time. Keep writing about these issues, who knows you and others like you may bring the change in our patriarchal society.
ainee Niazi Jun 21, 2013 08:54am
ایس اس لئے ہے کہ اس میں عوروں کی اپنی غلطیاں بھی ہیں ایک اولاد کو تر بیت دینے والی بھی ماں یعنی عورت ہو تی ہے کیا یہ ممکن نہیں جب ماں اپنے بچوں کی تر بیت کر ہی ہو تو بیٹے اور بیٹی کا فرق نہ رکھے دونون کو ایک جیسی تو جہ، کھا نا اور سب سے بڑھ کر سیلف رسپیکٹ دی جا ئے شا ئد ہم نہ سہی ہماری آنے والی نسل سے یہ امتیاز مٹ جا ئے بس ایسا کر نے کی ضرورت ہے ہما ری اپنی فیملی اس کا ثبوت ہے ہم نے بیٹے اور بیٹی میں کو ئی فرق نہیں رکھا جو گھر کے کام شی کر سکتی ہےوہ ھی کر سکتا ہے ایک بار ہم سب کو اس پر سو چنے کی ضرورت ہے
Raziq Jun 21, 2013 10:29am
Achhi kaavish hai. England mein reh kar aisi batein ki ja sakti hain. har society ka apna rehn sehn hota hai jo ke qataei taur par maali halaat se juda hota hai aur unhi par munhasar hota hai. Pakistani society ke taqaze aur hain aur UK ki pakistani community ke aur. Ab wahan par paida hone wale masail par agar baat ki jaye to halaat kuch itne achhe bhi nahin. Jo log apni jawani main waha ja base the ab unki auladen jawan ho chuki hain. Choonke wo uss society ki parwarda hain iss lye apne 'duqyanoosi' parents ke kehni mein bhi nahin aati. Yani totally BAGHI hain. Mazkoora article ki rooh ko agar dekha jaye to iss ka end result bewiyoon ka apne shoharon se aur aulad ka apne baapon se BAGHI hona hi thehrta hai. Yeh 'haqooq' aur 'mera haqq' type ke naare jo aajkal youngsters mein maqbool hain ussi baghiyana pan ka munh bolta saboot hain. Lehaza writings mein aur doosare tumam media mein yeh dhayan rakha jana chahye ke aisi koi cheez shamil na ho jo kisi ko bhi baghyanapan ki targheeb de jiske nataij intehai bhiyanak hain.
mahe' talat abidi Jun 21, 2013 04:43pm
Imran sahib, You must belong to the tribe of male chauvinists, because it touches a cord in you and of course you have to retaliate.
Walikhanafridi Jun 22, 2013 12:50am
افرین رازق بھایی
Sarfraz Jun 22, 2013 08:50pm
اپنی گهریلو نا کامیوں کو مردوں پر ڈال کر سستی شہرت تو مل سکتی ہے لیکن حقا ئق اس کے بر عکس ہیں ..

کارٹون

کارٹون : 21 دسمبر 2025
کارٹون : 20 دسمبر 2025