بہار تو آسان تھا، کھیل ابھی باقی ہے

10 نومبر 2015
بہار کے وزیرِ اعلیٰ نتیش کمار (بائیں) انتخابات میں کامیابی کے اعلان کے بعد لالو پرساد یادَو (دائیں) کی سرگوشی پر مسکرا رہے ہیں۔ — رائٹرز۔
بہار کے وزیرِ اعلیٰ نتیش کمار (بائیں) انتخابات میں کامیابی کے اعلان کے بعد لالو پرساد یادَو (دائیں) کی سرگوشی پر مسکرا رہے ہیں۔ — رائٹرز۔

بادی النظر میں دیکھیں تو بہار میں مقابلہ ہندوستان کے روایتی سیکیولر پن اور بیرونِ ملک مقیم ہندوستانیوں کی بھڑکائی ہوئی ہندوتوا عصبیت کے درمیان تھا۔ ان سادہ مزاج لوگوں کو پورے نمبر ملنے چاہیئں، بھلے ہی یہ اپنی جیت کے لیے بارک اوباما کی مودی کو سرزنش کو بھی کریڈٹ دے رہے تھے۔ اب ہم ان کو دو تہائی ووٹ ملنے کی وجوہات پر بحث کرتے رہیں، مگر نتیش کمار اور لالو پرساد یادَو نے ہندوتوا کے فاشزم کو فی الحال روک دیا ہے۔

یہ نیویارک میں مقیم انتہاپسندوں کے لیے بھی ایک جھٹکا ہے۔ مگر یہ یاد رکھنے کی بات ہے کہ انتہاپسندوں کو ازسرِنو گروپ بندی کرنے میں وقت نہیں لگتا۔ اس سال کی شروعات میں اروِند کیجریوال کی فیصلہ کن کامیابی کے بعد وہ اپنی انہی حرکتوں پر واپس لوٹ آئے ہیں۔ عوامی غم و غصے کے کئی واقعات کے ساتھ ساتھ محمد اخلاق کا بہیمانہ قتل بھی ان حرکتوں میں شامل ہے۔

لالو پرساد یادَو نے کئی زخم کھائے ہیں اور وہ ہندوتوا کے لیے ایک برا خواب ہیں۔ جب لال کشن ایڈوانی بابری مسجد کے ڈھائے جانے سے دو سال قبل ایودھیا کے سفر پر نکلے تو لالو پرساد بہار کے وزیرِ اعلیٰ تھے۔ یہ ایڈوانی کی سالگرہ تھی جب لالو نے انہیں بہار میں بند کر دیا۔ ایک بار پھر ایڈوانی کی سالگرہ تھی جب لالو نے بہار میں نریندرا مودی کو ہرایا۔ ظاہر ہے کہ انہوں نے اپنی دیہاتی ہمت کے اس اظہار کے کئی نقصانات بھی جھیلے ہیں۔

نتیش کمار بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) سے سراسر نظریاتی بنیادوں پر علیحدہ ہوئے تھے۔ انہوں نے وزارتِ عظمیٰ کے لیے بی جے پی کی جانب سے مودی کی نامزدگی پر اپنے راستے جدا کر لیے۔ اس طرح وہ لالو کے قدرتی ساتھی ہیں، بھلے ہی دونوں اپنے اپنے مفاد کے تحت کام کر رہے تھے۔ ان دونوں کا ڈی این اے بھی ملتا جلتا ہے کیونکہ وہ ان کسانوں کے نمائندہ ہیں جن کی زندگیاں پہلے لارڈ کارنوالیس نے اور پھر ان کے ہندوستانی جانشینوں نے برباد کر دی تھیں۔ اتوار کے دن بی جے پی کو دو تہائی اکثریت سے ہرانے کے بعد لالو نے مزاحیہ انداز میں تسلیم کیا کہ، "مجھے منہ پھٹ کہا جاتا ہے، جو کہ میں ہوں۔ نتیش بہت نرم مزاج ہیں۔"

لیکن ابھی آرام اور اطمینان کا وقت نہیں ہے۔ آگے بھی سفر اتنا ہی مشکل ہے جتنا کہ پچھلے 25 سالوں میں رہا ہے۔ ایودھیا، ممبئی، گودھرا، مظفرنگر، صفِ اول کے دانشوروں کے قتل، مبینہ طور پر گائے کا گوشت کھانے والے شخص کے قتل، اور دیگر کئی واقعات کے بعد اب مشتعل ہجوم نے اپنا رخ لبرل دانشوروں کی جانب کر لیا ہے۔ بہار کے معاملے پر ہندوتوا حلقے میں اٹھنے والی متوقع انگلیاں دوسروں کے لیے پریشان کن ہو سکتی ہیں۔ کیا ہوگا اگر بی جے پی کے صدر امیت شاہ کو وزیرِ داخلہ بنا دیا جائے جیسا کہ سننے میں آ رہا ہے؟

ہندوستان کے سیکیولر گروپس کے لیے راستہ ابھی بھی دائیں بازو کے چیلنجز سے بھرپور ہے، مگر منزل تک ان کے سفر میں ان کا ذاتی مفاد بھی آڑے آ سکتا ہے۔ جب بہار سے نتائج آئے، تو اسی وقت لیفٹ فرنٹ کیرالہ کے بلدیاتی انتخابات میں اپنی کامیابی کا جشن منا رہا تھا۔ اس طرح کے نتائج کچھ وقت میں متوقع اسمبلی انتخابات کے رجحانات کا اچھا اشارہ ہیں۔

لیکن ایک پرانی پریشان کن صورتحال اب بھی باقی ہے، اور وہ یہ کہ ایک ریاست میں جو بائیں بازو کا اتحادی ہے، وہ دوسری ریاست میں مخالف ہے۔ لالو اور نتیش سابق کامریڈ تھے جن کی راہیں جدا ہوگئیں۔ اپنی آپس کی مخاصمت کی وجہ سے پارلیمانی انتخابات میں بہار بی جے پی کے ہاتھ میں چلا گیا۔ اور اب بطور اتحادی انہوں نے خود کو ہندوتوا انتہاپسندی کے خلاف ایک مؤثر ڈھال ثابت کیا ہے۔ مگر یہی بات دوسروں پر صادق نہیں آتی۔

اتحاد کے ایک رہنما پینا رائے وجیئن نے، جب ان کی جماعت کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا مارکسسٹ نے کیرالہ کے بلدیاتی انتخابات میں کانگریس کی زیرِ تحت یونائیٹڈ ڈیموکریٹک فرنٹ پر برتری حاصل کی، کہا کہ "بلدیاتی انتخابات کے نتائج کرپشن اور عصبیت کے رجحانات کے خلاف فیصلہ ہیں۔"

مگر اس موقع پر وہ حقیقت پسندی کو بھولے نہیں۔ "بی جے پی، جس نے سوچا تھا کہ وہ ریاست میں عصبیت کو فروغ دے کر ووٹ حاصل کر لے گی، بری طرح ہاری ہے، مگر انہوں نے ریاست کے چند علاقوں میں انتخابی کامیابی حاصل کی ہیں۔ اس سے عوام کو سیکیولر ازم کے پرچم تلے جمع کرنے کی ضرورت کا اندازہ ہوتا ہے۔"

لالو اور نتیش نے بی جے پی کو بہار میں روک دیا ہے۔ کانگریس اور بائیں بازو کی جماعتیں بھی وہاں ہندوتوا کے خلاف ایک صفحے پر تھیں۔

لیفٹ فرنٹ کیرالہ میں کانگریس کے ساتھ براہِ راست مقابلے میں ہے، اس لیے وہاں کا منظر بہار سے کافی مختلف ہے۔ دونوں سیکیولر جماعتوں کو ایک دوسرے کا مقابلہ کرنے اور اس دوران بی جے پی کا راستہ بند رکھنے کے لیے بے پناہ سیاست کرنی پڑے گی۔ مغربی بنگال میں تصویر اس سے بھی زیادہ دھندلا جاتی ہے۔ لیفٹ فرنٹ وزیرِ اعلیٰ ممتا بینرجی کو نشانہ بنائے رکھتا ہے مگر ممتا نے لیفٹ کی ہی طرح بی جے پی کو دور مگر اپنی نظروں میں رکھا ہوا ہے۔

مزید پیچیدگی کی بات یہ ہے کہ ممتا کانگریس پارٹی سے ہی علیحدہ ہوئی تھیں، جیسا کہ زیادہ تر ہندوستانی سیاسی جماعتوں کے ساتھ ہے۔ ایک عام خیال ہے کہ لیفٹ فرنٹ اور کانگریس ممتا کے خلاف اگلے الیکشن میں اتحاد کر سکتے ہیں۔ پر اگر وہ مغربی بنگال میں ایک ساتھ نہیں کھڑے ہوتے، تو ووٹ تین سیکیولر دھڑوں لیفٹ، ممتا اور کانگریس کے درمیان تقسیم ہوں گے، جس کا فائدہ براہِ راست بی جے پی کو پہنچے گا۔

ایک اور امکان بھی موجود ہے جو بہار سے کافی مختلف ہے۔ یہ عوام کی ذہانت ہے۔ دوسری اطراف ہندوتوا کے جیتنے کے امکانات رہیں گے ہی، مگر اس کے برعکس اروِند کیجریوال کا ماڈل واضح اور دل گرما دینے والے نتائج پیدا کر سکتا ہے۔ انہوں نے کسی کو بھی نہیں چھوڑا۔ انہوں نے بی جے پی کو عصبیت پسندی کے لیے اور کانگریس کو کرپشن کے لیے نشانہ بنایا، اور فیصلہ عوام پر چھوڑ دیا۔ لہٰذا دہلی نے کانگریس کو صفر نشستیں دیں اور بی جے پی کو محض تین۔ باقی ساری کیجریوال کے حصے میں آئیں۔

لیکن اتر پردیش سب سے زیادہ پریشان کن ریاست ہے۔ ایک سال میں وہاں انتخابات ہونے والے ہیں۔ وزیرِ اعلیٰ ملائم سنگھ یادیو اور دلت رہنما مایاوتی سخت حریف ہیں۔ دونوں ہی سیکیولر جماعتوں کے سربراہ ہیں۔ دونوں نے ہی بی جے پی کے ساتھ تعلقات بنائے رکھے ہیں مگر شاید مایاوتی اس تعلق کو بھلا دینا چاہیں گی۔ ملائم سنگھ یادَو کو بی جے پی کا ہندو کارڈ استعمال کرتے ہوئے دیکھا جا رہا ہے۔

اس لیے شاندار فتح اور نئی امید کے باوجود بہار کی فتح صرف ایک آسان حصہ تھا۔ اصل کھیل تو ابھی باقی ہے۔

لکھاری دہلی میں ڈان کے نمائندے ہیں۔

[email protected]

انگلش میں پڑھیں.

یہ مضمون ڈان اخبار میں 10 نومبر 2015 کو شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں