نیا صوبہ یا پرانا؟ فیصلہ فاٹا کے عوام کو کرنے دیں

فاٹا کے مستقبل کے حوالے سے کوئی بھی فیصلہ قبائلی عوام کی مرضی معلوم کیے بغیر نہیں ہونا چاہیے۔ — اے ایف پی/فائل۔
فاٹا کے مستقبل کے حوالے سے کوئی بھی فیصلہ قبائلی عوام کی مرضی معلوم کیے بغیر نہیں ہونا چاہیے۔ — اے ایف پی/فائل۔

ملکی اور بین الاقوامی حالات و واقعات کو دیکھتے ہوئے قبائل کے سنجیدہ طبقے کو یہ امید ہو چلی ہے کہ مستقبل قریب میں انہیں اپنے مستقبل کا فیصلہ جمہوری اصولوں کے عین مطابق اپنی مرضی سے کرنے کا اختیار دیا جائے گا، سیاسی پارٹیوں کی طرف سے ان کے جمہوری حقوق کو بھر پور پذیرائی ملے گی اور ہر فورم پر قبائل کے اس حق کو تائیدی کلمات سے نوازا جائے گا۔

قبائل کی یہ توقع بے جا بھی نہیں اور اس کے حق میں ٹھوس دلائل موجود ہیں۔ آج پوری دنیا گلوبل ولیج بن چکی ہے۔ میڈیا سے تعلق رکھنے والا ہر شخص جانتا ہے کہ آج دنیا کے مختلف گوشوں میں جمہوری فیصلوں کے تحت منظور کردہ قوانین کے مطابق زندگی گذارنے کے لیے آوازیں اٹھ رہی ہیں۔

یہ علاقے ایسے بھی نہیں کہ وہاں قانون کی حکمرانی نہیں۔ وہاں باقاعدہ آئین و قانون کی حاکمیت ہے، لیکن ایک مخصوص علاقے کے لوگ سمجھتے ہیں کہ نافذ شدہ آئین کے تحت انہیں حکومتی نظم و نسق میں انصاف پر مبنی نمائندگی حاصل نہیں اور سرکار کی طرف سے ملنے والے فنڈز اور دیگر مفادات و مراعات میں انہیں ان کے جائز حق سے محروم رکھا گیا ہے۔ وہ خود کو دوسرے درجے کا شہری سمجھتے ہیں جس سے مسائل کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ جنم لیتا ہے اور متعلقہ علاقے کا احساسِ محرومی نظم و نسق کے قیام اور تیز تر ترقی کے حصول میں شدید رکاوٹ بنتا ہے جس کے منفی اثرات نہ صرف مقامی آبادی بلکہ پورے ملک پر پڑتے ہیں۔

پڑھیے: فاٹا کے حل طلب مسائل اور حکومتی بے حسی

مملکتِ خداداد پاکستان کے ارباب اقتدار نے ماضی میں فاٹا کے حوالے سے کسی سنجیدہ کردار کا مظاہرہ نہیں کیا۔ سابقہ حکومتوں نے قبائل کو ریاست کے سٹریٹیجک مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کیا۔ "بڑی بازی" میں انہیں "چھوٹی چھوٹی بازیاں" کھیلنے کے مواقع قصداً فراہم کیے گئے، لیکن اخلاص اور ایثار کے جذبے سے سرشار قبائل کے ساتھ زیادتی یہ ہوئی کہ انہیں مستقبل میں مرکزی قومی دھارے میں شامل ہونے کے لیے تیار نہیں کیا گیا چنانچہ اربابِ اقتدار کی غفلت سے یہاں بہت سے مسائل جنم لے چکے ہیں جن میں سب سے بڑا مسئلہ ان علاقوں کا عسکریت پسندوں کے محفوظ ٹھکانے میں تبدیل ہونا ہے۔

قبائل کے سنجیدہ طبقے کو اس بات کا اندیشہ ہے کہ فاٹا کے حوالے سے متوقع تاریخی فیصلہ ہونے کے موقع پر کہیں روایتی غیر سنجیدگی کا مظاہرہ نہ کیا جائے اور یہاں کے باشندوں کو اعتماد میں لیے بغیر ایسے فیصلے نہ کر دیے جائیں جو فاٹا کو ایک نئے بحران سے دوچار کر دیں۔

ایک طرف تو پہلے سے قائم صوبوں کی تعداد بڑھانے کے مطالبات سامنے آرہے ہیں۔ ان مطالبات کے حق میں دیے جانے والے دلائل کی بنیاد یا تو مفاد پرستی پر قائم ہے اور یا مبینہ ناانصافی اور محرومی کا ازالہ کرنے پر۔ لیکن تعجب ہوتا ہے کہ جب ایک ایسا علاقہ جو باقاعدہ قانون کے زیرِ اثر نہ ہونے کی وجہ سے ابتر صورتحال کا شکار ہے، اورجس کے ساتھ اغیار تو درکنار اپنوں نے بھی سوتیلی ماں کا سلوک روا رکھا ہے، اس کے اصلاح و احوال کی اگر واقعی کوئی منصوبہ بندی کرنے کے وقت جمہوریت کے علمبردار یہ بات بھول جاتے ہیں کہ کسی بھی جمہوری ملک میں ہر علاقے کے عوام کی رائے کا احترام لازمی ہوتا ہے۔

فاٹا کے عوام بھی اس ملک کے باشندے ہیں، یہ بھی انسانوں کے زمرے میں شامل ہیں، اگرچہ قیامِ پاکستان سے لے کر آج تک ان کے ساتھ دوسرے درجے کے شہری کا سلوک روا رکھا گیا۔ کس قدر خوشی کی بات ہوتی اگر آئے روز ملکی اخبارات میں اس بات کا تذکرہ ہوتا کہ قبائل ہمارے مصیبت زدہ بھائی ہیں، ان کی تقدیر کا فیصلہ ہونے والا ہے، ان لوگوں نے پاکستان کے لیے ہر وہ قیمت ادا کی ہے جو ان سے مانگی گئی یا ادا کرنے پر مجبور کیے گئے، یہ ہمارے ملک کے بازوئے شمشیر زن ہیں، ان کی تقدیر کا فیصلہ خالصتاً کثرت رائے کے مطابق ہوگا۔

پڑھیے: اب فاٹا کو پاکستان میں شامل کرنے کا وقت ہے

حد درجہ افسوس ہوتا ہے کہ جنہیں فاٹا کے جغرافیائی محلِ وقوع کا کوئی اندازہ نہیں، دور افتادہ اور حقیقی قبائلی اقوام کی طرز زندگی سے وہ عملًا کوئی واقفیت نہیں رکھتے، قبائل کے فیصلوں کے طریق کار کا تجربہ نہیں رکھتے، وہ پشاور اور اسلام آباد میں بیٹھ کر فاٹا کے مستقبل کی تجویز مرحمت فرما دیتے ہیں۔ انہیں اس بات کا کوئی احساس نہیں ہوتا کہ فاٹا کا سنجیدہ طبقہ اس قسم کے بیانات سے کیا تاثر لے گا اور کس قسم کے رد عمل کے جذبات پیدا ہوں گے؟

فاٹا کے عوام بخوبی جانتے ہیں کہ آج تک اس علاقے کے مستقبل کے حوالے سے جو تجاویز سامنے آئی ہیں ان کا خلاصہ کچھ یوں ہے۔

(۱) فاٹا ایک الگ صوبہ بنے اور اس کی اپنی حکومت ہو۔

(۲) فاٹا کو صوبہ خیبر پختونخوا کا حصہ بنا دیا جائے۔

(۳) فاٹا کی موجودہ صورت برقرار رہے لیکن

(الف) اس کا اپنا گورنر ہو جس کا تعلق قبائل سے ہو۔

(ب) گورنر کے زیر انتظام فاٹا کونسل ہو جو منتخب افراد پر مشتمل ہو۔

(ت) فاٹا کونسل میں تمام ایجنسیوں اور ایف آرز کی مساوی نمائندگی ہو اور اس کونسل کے پاس پورے فاٹا کا نظم و نسق وضع کرنے کا اختیار ہو۔

(ث) فاٹا کونسل کے زیر اثر ایجنسی کونسل کا قیام عمل میں لایا جائے جو ہر ایجنسی کے انتظام و انصرام کا اختیار رکھے۔

(ج) ہر ایجنسی کے اندر جتنی تحصیل ہیں، ہر تحصیل کے لیے تحصیل کونسل کا انتخاب کیا جائے جو تحصیل کی سطح پر معاملات نمٹائے۔

فاٹا سے متعلق مختلف فورمز پر پیش کی گئی مندرجہ بالا تجاویز میں تجربہ کار قبائلی دانشوروں، فاٹا کے سابق و حالیہ سینیٹرز اور ممبرانِ قومی اسمبلی کی آراء شامل ہیں۔ علاوہ ازیں یہ تجاویز دینے میں ان سابق چنندہ بیوروکریٹس کی دماغ سوزی کا بھی حصہ ہے جو قبائل میں اہم عہدوں پر تعینات رہ چکے ہیں اور جنہیں قبائل کے اندر نظم و نسق کے قیام کے حوالے سے نہ صرف وسیع تجربہ حاصل ہے بلکہ تقریباً ان کی تمام تر پیشہ وارانہ زندگیاں قبائلی علاقہ جات کی بھاری بھرکم انتظامی ذمہ داریاں سنبھالتے گذری ہیں۔

مزید پڑھیے: فاٹا: مسلسل جنگ سے ذہنی امراض میں خطرناک اضافہ

مندرجہ بالا تجاویز کے علاوہ کوئی قابلِ التفات تجویز سامنے نہیں آئی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ان میں سے کسی ایک بھی تجویز کا انتخاب قبائل کا حق ہے یا پورے ملک کے سیاسی قائدین بالعموم اور صوبہ خیبر پختونخوا کے سیاسی قائدین بالخصوص اس بارے میں کوئی فیصلہ مسلط کرنے کے مجاز ہیں؟ بندے کے خیال میں ہر منصف مزاج سیاست دان اس بات سے انکار نہیں کر سکے گا کہ یہ فیصلہ صرف اور صرف فاٹا کے عوام پر چھوڑ دینا چاہیے کہ وہ کس قسم کا مستقبل اختیار کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں۔

یہاں ایک اور سوال بھی جواب کا متقاضی ہے۔ وہ یہ کہ جو سیاسی قائدین اور ان کی اندھی تقلید میں بد مست پیروکار آئے روز فاٹا کو خیبر پختونخوا میں ضم کرنے کی رٹ لگاتے نہیں تھکتے، وہ ذرا اس بات کی بھی وضاحت کر لیں کہ اس صورت میں فاٹا کے اندر انتظامی اور قانونی شکل و صورت کیا ہوگی؟ کیا آج کے بندوبستی علاقوں اور افغان سرحد کے ساتھ ملحق دشوار گزار پہاڑی علاقوں میں یکساں قانون نافذ ہوگا یا موجودہ قبائل کے لیے الگ نظم و نسق کے قوانین نافذ ہوں گے؟ اگر یکساں قانون ہوگا تو اس کے نفاذ کی کیا صورت اور ضمانت ہوگی اور اگر قوانین الگ ہوں گے تو پھر صوبے کے ساتھ فاٹا کے الحاق کا فائدہ کیا ہوا؟

نیز اگر خیبر پختونخوا کے جنوبی علاقے مثلاً کرک، بنوں، لکی مروت، پیزو، ٹانک، کلاچی، پہاڑپور، درابن اور پروا کے علاقے قیام پاکستان کے تقریباً ستر سال بعد بھی پینے کے صاف اور میٹھے پانی سے محروم ہیں، صحت کی سہولیات کا فقدان ہے، علاقے کی واحد گومل یونیورسٹی کا تعلیمی معیار کی حالت دگرگوں ہے اور دور حاضر کی زندگی کی بنیادی ضروریات عنقاء ہیں تو اس صوبے کے ترقیاتی فنڈز میں فاٹا کا حصہ کیا ہوگا؟ ترقیاتی منصوبوں اور عوام کے معیارِ زندگی کے لحاظ سے مردان اور کوہاٹ ڈویژن کے مقابلے میں آج بنوں اور ڈیرہ اسماعیل خان ڈویژن کی کیا حالت ہے؟ سوچنے کی بات ہے کہ اس صورت میں خیبر پختونخوا کے ساتھ انضمام کی صورت میں قبائلی پٹی کے جنوبی ایجنسیوں کی حالت کیا ہوگی؟

بعض لوگ یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ فاٹا کے الگ صوبہ بننے کے بعد اس کے لیے وسائل کہاں سے میسر ہوں گے؟ ایسے لوگوں کی خدمت میں عرض ہے کہ وہ یا تو حقائق سے بے خبر ہیں یا حقائق سے چشم پوشی کرتے ہیں۔ فاٹا کے اندر ہر قسم کے اتنے قدرتی خزانے ودیعت موجود ہیں کہ اس کے بارے میں سرِدست سوچا بھی نہیں جا سکتا۔ یہ الگ بات ہے کہ یہ راز نہ تو انگریز حکومت نے فاش کیا ہے اور نہ ہی قیام پاکستان کے بعد اس سے پردہ اٹھایا جا سکا ہے۔ یہ راز راز رہے گا جب تک فاٹا میں قانون کی مکمل حکمرانی قائم نہ ہو۔

تبصرے (2) بند ہیں

حجاب خان اسلام آباد Nov 13, 2015 08:13pm
فاٹا ایک الگ صوبہ بنے یا اسے صوبہ خیبر پختونخوا کا حصہ بنا دیا جائے ضرورت اس بات کی ہے کہ فاٹا میں قانون کی عملداری قائم ہو اور عوام کی مرضی کے مطابق اصلاحات ہوں
حافظ Nov 14, 2015 02:28am
آزاد ملک بنا دیا جائے کیونکہ ستر سال سے تو سیاستدان کچھ کر نہیں سکے یا کسی ملٹی نیشنل کو تین سو سال کی لیز پر دے دیا جائے۔