کسی معاشرے پر بھی جب زوال آتا ہے، تو بہت سے شعبہ ہائے زندگی متاثر ہوتے ہیں۔ زوال اپنی پوری علامتوں کے ساتھ ظہور پذیر ہوتا ہے، اس کو سمجھنے کے لیے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں ہوتی۔ گزشتہ کچھ دہائیوں سے ہمارے معاشرے میں مذہبی انتہاپسندی اور عدم برداشت میں اضافہ ہوا ہے جس کے نتیجے میں ثقافت بالخصوص ادبی منظر نامہ بھی لپیٹ میں آیا۔ قیام پاکستان سے پہلے اور بعد کے شعر و ادب کا موازنہ کر لیا جائے تو فرق واضح ہے۔ شاعری اور نثر دونوں کی کہکشاں پر ایک سے بڑھ کر ایک ستارہ چمکا، پھر بتدریج تاریکی میں اضافہ ہونے لگا اور ہم تخلیقی تنہائی کا شکار ہوگئے۔

عہدِ حاضر میں کتاب، کتب بینی، کتاب لکھنے اور چھاپنے والوں کا باریکی سے جائزہ لیا جائے تو بات سمجھ میں آجاتی ہے۔ قارئین پر ادب کے مصنوعی ستارے مسلط کرنے کی کوششیں کی گئیں، ادبی منظرنامے پر ایسے مصنوعی ستاروں کی کثیر تعداد موجود ہے جنہوں نے کچی پکی شاعری، ڈائجسٹ زدہ فکشن، یادداشتوں کے نام پر اپنی ذاتی اور غیر دلچسپ داستانیں، پھیکے سفرنامے اور ناقص تراجم سمیت کئی اصناف پر کتابوں کے ڈھیر لگا رکھے ہیں۔

ان مصنوعی ستاروں کا وجود اہل ادب کے لیے بوجھ مگر ادبی تاجروں کے لیے غنیمت ہے۔ انہی کے دم سے ادب میں ایک نئی صنعت متعارف ہوئی، جس کا نام ”ادبی کانفرنس“ ہے. پاکستان کے ہر بڑے شہر میں یہ صنعت خوب پنپ رہی ہے۔ یہ ادبی صنعتکار خود کو ادب کا مسیحا سمجھتے ہیں۔ اس کاروبارِ مسیحائی کو چمکانے میں جہاں نام نہاد تخلیق کاروں نے حصہ لیا وہیں اس بہتی گنگا میں وہ دانشور بھی پیچھے نہیں رہے جن کی کتابیں ہم اپنے سینوں سے لگا کر رکھتے ہیں۔

گزشتہ 8 برسوں سے کراچی میں ”عالمی اردو کانفرنس“ کے عنوان سے ”اردو شعر و ادب کا مجلسی بازار“ لگ رہا ہے۔ ماضی کی طرح اس سال بھی کانفرنس کے انعقاد کے لیے تجاویز مانگ کر نظرانداز کردی گئیں۔ کسی تجویز پرعمل ہوا بھی تو جس نے وہ مشورہ دیا تھا، اسی کو نکال باہرکیا۔ اس کی ایک مثال معروف براڈ کاسٹر اور ادبی شخصیت رضا علی عابدی ہیں جن کی سب سے زیادہ کتابیں ”بچوں کے ادب“ سے متعلق ہیں۔ عابدی صاحب کی تجویز پر عمل درآمد ہوا، مگر ان کو شامل کیے بغیر۔

پڑھیے: راتوں رات اردو ادیب بننے کا طریقہ

اس ادبی صنعت کے تین تاجر ہیں، جن کی مرہون منت گلشن کا یہ کاروبار خوب فروغ پا رہا ہے۔ ان تینوں کا ادب میں بنیادی حوالہ ”ناشر“ ہونا ہے۔ تینوں کتابیں چھاپنے کا کاروبار کرتے ہیں۔ ایک تاجر سرکاری ادارے سے تعلق رکھتے ہیں جبکہ دو تاجر نجی کتابوں کے اداروں سے یہ ادبی خدمت کر رہے ہیں۔

ان ادبی تاجروں کے ہاں سے کتاب چھپوانے کا فائدہ یہ ہے کہ آپ اس کانفرنس میں آسانی سے شرکت کرسکتے ہیں اور وہاں کتاب کی تقریبِ رونمائی بھی ہوسکتی ہے۔ یہی نہیں بلکہ کراچی اور لاہور کی دیگر ادبی کانفرنسوں میں بھی یہ سہولتیں میسر آسکتی ہیں کیونکہ دوسرے شہروں کے ادبی تاجروں کو یہ سہولتیں یہاں اس کانفرنس میں مہیا کی جاتی ہیں۔

گلشن کے اس کاروبار میں ایک اور طبقہ بہت اہم ہے، جن میں اکثریت کا تعلق صحافت سے ہے۔ وہ کالم نویس، ادبی رپورٹر، ادبی صفحات کا انچارج، کتابوں کا مبصر، اخبار کا مدیر، چینل کا مالک وغیرہ ہیں۔ تجارت اور صحافت کے امتزاج سے ادب کی خدمت کا یہ فریضہ بخوبی انجام دیا جا رہا ہے۔

ہمیشہ کی طرح اس بار بھی کراچی آرٹس کونسل کی کانفرنس کے کتابچے میں مہمانوں اور مقررین کے ناموں کی بھرمار تھی، جس میں سے اکثریت کو اطلاع بھی نہیں تھی کہ وہ مدعو ہیں۔ اس حوالے کے لیے محمود شام اور ڈاکٹر رؤف پاریکھ کے نام کافی ہیں۔ کئی بزرگ مشاہیر جنہوں نے خرابیء صحت کی وجہ سے مجلسی مصروفیات ترک کر رکھی ہیں، ہر سال ان کے نام بھی شامل کر لیے جاتے ہیں۔ حوالے کے لیے ڈاکٹر اسلم فرخی اور کمال احمد رضوی کے نام کافی ہیں۔

اسی ترکیب کے ذریعے گزشتہ برس تک بیرون ممالک، بالخصوص ہندوستان کے معروف شعراء گلزار اور جاوید اختر کا نام استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ اب کی بار پرہیز کیا گیا مگر یہ پرہیز صرف بیرون ملک کے تخلیق کاروں کے لیے تھا، اپنے مشاہیر اب بھی تختہ مشق کا حصہ بنے۔ اس ادبی زوال میں حقیقی دانشور بھی برابر کے حصے دار ہیں، جن کی اکثریت اس ادبی صنعت کی حوصلہ افزائی کرتی ہے، کئی ایک تو ایسے کاریگر بھی ہیں جو اپنی تحریروں میں اس ادبی تجارت کی بے ضمیری کا رونا روتے ہیں، مگر پھر منظر بدلتا ہے اور کسی ایسی کانفرنس میں وہ بھی وفد کا حصہ ہوتے ہیں۔

اس برس کئی ایسی کتابوں کی تقریب رونمائی کی گئی، جن کو شائع ہوئے بھی برسوں گزر گئے ہیں مگر ہمارے مشاہیر نے اس میں پوری تندہی سے حصہ لیا۔ آخر کو گلشن کا کاروبار چلنے میں ہی ان کا بھی فائدہ ہے۔

ایک اور بات یہ کہ حال ہی میں کوئٹہ کے انتہائی باصلاحیت نوجوان شاعر ”دانیال طریر“ کا انتقال ہوا مگر کسی نے اسے یاد کرنے کی زحمت گوارا نہ کی۔ ایسی صورتحال میں یہ کہنا کہ کانفرنس میں نوجوانوں کی نمائندگی موجود ہے، مگر نوجوان شاعر کی یاد میں دو لفظ بھی نہ بولنا کانفرنس کے منتظمین کے دعووں سے چغلی کھاتا ہے.

پاکستان اور ہندوستان کے علاوہ کوئی غیر ملکی ادیب کانفرنس میں شامل نہیں تھا۔ جو لوگ دیگر ممالک سے آئے، ان میں اکثر ہر سال چھٹیاں منانے پاکستان آتے ہیں، چونکہ وہ اپنے ٹکٹ پر آتے ہیں، اس لیے ان کو شامل کر لیا جاتا ہے۔

اس سال جن مشاہیر کے ناموں کا کانفرنس میں استعمال کیا گیا، پھر خطبہ استقبالیہ میں ان کی غیر حاضری کے عذر بھی خطبہ استقبالیہ میں تراشے گئے، ان میں مشتاق احمد یوسفی، امر جلیل، ڈاکٹر انوار احمد، کمال احمد رضوی، ساجد حسن، آئی اے رحمان، مسعود اشعر، مستنصر حسین تارڑ اور دیگر کئی نام شامل ہیں۔

پڑھیے: مشتاق یوسفی اور شامِ شعرِ یاراں کا معمہ

ضیاء محی الدین کے سیشن کی ابتداء میں سیکرٹری آرٹس کونسل کراچی ان کا تعارف کرواتے ہوئے حاضرین سے یوں مخاطب ہوئے، ”آپ سے درخواست ہے کہ ایسی خاموشی اختیار کریں جیسے آپ اپنے کسی گھر والے کی میت میں خاموش ہوتے ہیں۔“ یہ معیارِ نظامت تھا۔

پاکستان بھر میں بالخصوص کراچی کے ادبی منظرنامے پر گلشن کا یہ ادبی کاروبار خوب پھل پھول رہا ہے۔ تخلیق کی حرمت کیا ہوتی ہے، تخلیق کار کا ادب کیا ہوتا ہے، سچے حروف کیسے دل میں اترتے ہیں، محسوسات کو زبان دے کر کیسے روح میں اتارا جاتا ہے، اس مصنوعی ادبی میلے میں ان احساسات کا دور دور تک شائبہ دکھائی نہ دیا۔

ادبی صنعت کے ایجادکاروں کے نام جاوید اختر صاحب کی خوبصورت شاعری، جس میں سچے تخلیق کاروں کے لیے تھپکی ہے اور ادبی جعل سازوں کے لیے طمانچہ

شہر کے دوکاندارو

کاروبارِ الفت میں

سود کیا زیاں کیا؟

تم نہ جان پاؤ گے

دل کے دام کتنے ہیں؟

خواب کتنے مہنگے ہیں؟

اور نقدِ جاں کیاہے؟

تم مریضِ دانائی

مصلحت کے شیدائی

راہِ گمراہاں کیا ہے؟

تم نہ جان پاؤ گے

جانتا ہوں میں تم کو ’ذوقِ شاعری بھی ہے’

شخصیت سجانے میں

اک یہ ماہری بھی ہے

پھر بھی حرف چنتے ہو؛

صرف لفظ سنتے ہو

ان کے درمیاں کیا ہے؟

تم نہ جان پاؤ گے

ضرور پڑھیں

تبصرے (17) بند ہیں

Rashid Ashraf Dec 12, 2015 07:16pm
زندہ باد کسی نے تو اس تماشے کو بے نقاب کرنے کی کوشش کی۔ میں مضمون نگار کو سلام پیش کرتا ہوں۔ آٹھ برسوں سے یہی تماشہ ہورہا ہے مگر نتیجہ صفر۔
gulzar ahmed khan Dec 12, 2015 08:47pm
بہت خوب صاحب ، ہر چند کہ آپ کے بلاگ میں ایک تشنگی سی محسوس ہوئی ، تاہم آپ کی باتیں دل کو لگیں ، ہم بحیثیت معاشرہ زوال کا شکار ہیں شائد اس کی وجہ صحافیوں کا ادیب ہونا اور شعراء کا بالا تر طبقات سے کلمہ تحسین حاصل کرنے کی جستجو ہے ، ، براہ کرم اس کی وجوہ بھی سامنے آنا چاہئیے ، تاکہ ادب کو بچایا جاسکے ، بہت شکریہ
shama zaidi Dec 13, 2015 12:01am
v trueeeeeee,haqeeqat se qareeb tareen batain bayan ki gai hn.mazmoon nigar mubarakbad k mustahiq hn.....magar iss mazmoon per wohi shair yad aaraha hy k,.....kia poochhte ho haal mere karobaar ka,Aaeney bechta hoon mai aandhon k shehr mai.Allah aap ko zindagi de.aameen.
محمد ارشد قریشی ( ارشی) Dec 13, 2015 01:25am
خرم سہیل بھائی مجھے حالیہ تین پروگراموں میں جانے کا اتفاق ہوا تھا اور تینوں پروگراموں میں میری رضا علی عابدی صاحب سے ملاقات ہوئی تھی وہ تو تمام پروگراموں میں موجود تھے ۔ باقی آپ کی تحریر سے مجھے کافی حد تک اتفاق ہے ان پرگراموں میں حال ہی میں انتقال کرجانے والے ادب کے سرمائے جمیل الدین عالی کے بارے میں بھی کچھ زیادہ نہیں کہا گیا جبکہ ان کا نام بھی شرکاء کی فہرست میں شامل تھا شائید اس کی اشاعت کے بعد عالی جی کا انتقال ہوا ہو ۔ لیکن ان کا زکر ہر نشست میں ہونا تھا سو نہ ہوا۔ اسی طرح بھارت سے جن شعراء کو مدعو کیا گیا تھا ان میں کوئی بہت اہم نام نہیں تھا جب کہ بھارت کا ایک نوجوان شاعر عمران پرتاب گڑھی جو بھارت میں رہتے ہوئے مسلمانوں ، کشمیر ، فلسطین کے بہترین ترجمانی کرتا ہے ان کی اسلامی مدارس اور کشمیر پر ایک نظم نے تو پوری دنیا میں تہلکہ مچا رکھاہے اور کراچی کے نوجوانوں میں ان کی شاعری بہت مقبول ہے لیکن انہیں بھی مدعو نہیں کیا گیا۔ بہت سی کوتاہیاں دیکھنے میں آئیں ۔
Ak Dec 13, 2015 03:45am
Aapki Jurrat ko salam . . . .
Saleem Aazar Dec 13, 2015 09:15pm
بہت فکر انگیز تحریر ہے، جنہیں مرض دانائی لاحق ہے اور عقل کل ہونے کا دعویٰ بھی یہ ان کے منہ پر طمانچہ ہے مگر اس کی گونچ دل میں سنائی دیتی ہے۔ اگر صاحب دل ہوں۔ جاوید اخترکے ان سوالات دل کے دام کتنے ہیں؟ خواب کتنے مہنگے ہیں؟ اور نقدِ جاں کیاہے کے جوابات وہ راہِ گمراہاں اور مصلحت کے شیدائی ہر گز نہ دے پائیں گے، بے شک وہ شخصیت سجانے میں ماہری بھی ہیں لیکن وہ صرف حرف چنتے ہیں اور لفظ سنتے ہیں‌ لیکن ان کے درمیاں کیا ہے؟ انہیں‌معلوم نہیں نہ وہ کبھی جان پا ئیں گے انہیں‌تو یہ بھی سمجھ میں‌نہیں‌آئے گا کہ کیا حرف اور لفظ کا کوئی درمیان بھی ہوتا ہے اس لیے کہ ان کا کنارہ، درمیان اور سارا میدان دولت کی کثافت اور مصلحت کی چکاچوند سے لتھڑا ہوا ہے کیا خوب تحریر ہے، بہت عمدہ
Ahsan Zaidi Dec 13, 2015 10:49pm
Excellent Khurram Regards. Ahsan Zaidi
khushnood zehra Dec 14, 2015 09:55am
بہت حقیقت پسندانہ تجزیہ ہے، اور ایک بات جو محسوس ہوئی اردو کانفرنس میں اگر ذرائع ۔۔ابلاغ کے کردار کے حوالے سے گفتگو ہو تو بی بی سی اردوہی محور بنا رہتا ہے
tanveer rauf Dec 14, 2015 01:28pm
Khurram sahib aap ka اردو کانفرنس: ادب کی تجارت کا دوسرا نام؟ perha. ek ek lufz pe yaqeen ha. aap ne behudd sacchai se kerwa such likha ha. waqai aisa he hay. ek card pe tu Jameel Aali merhoom ka name bhi dekha mei ne jub k unki rehlat ho chuki thi card print honay se pehle. hamari be hissi, gher zimma dari aur khud numai apnay urooj pe hay. Allah pak subko mehfooz rakhay. yeh jhooti chamak damak aarzi ha, ---Feathers fly high while pearls lie below---- wali baat ha. App isi taraha nishan dahi ker te rahein. Allah pak apkoahosla aur jazba isi tara qaim rakhay aur apni hifazat mei rakhay ameen
اے علی صدیقی Dec 14, 2015 03:10pm
محترم خرم صاحب۔ آپ کی تحریر عمدہ اور پر خلوص جذبات سے لیس اور آپ کی اردو ادب سے بے حد محبت کے عکاس بھی ہے، یہ درست ہے کہ اردو کی عالمی کانفرنس کے 8برس ایک خاص سوچ کی رہبری کرتے ہیں،اس میں نمود و نمائش کے ساتھ کئی لوگوں کی خوش آمد پسندانہ طبعیت بھی ہوسکتی ہے مگر اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ آرٹس کونسل کی انتظامیہ نے اردو ادب کی ٹوٹی پھوٹی ہی سہی مگر خدمت کی کوشش کی ہے اگر ایسا نہ ہوتا تو کئی ادب کے ستارے ہر برس اس میں شریک نہ ہوتے، رضا علی عابدی،سحر انصاری،کشور ناہید،اصغر ندیم سید،عطا الحق قاسمی،انور شعور ،صابر ظفر جیسے صاحبان علم و ادب یقینا اس تقریب سے منہ موڑ لیتے ۔ لیکن کیونکہ آرٹس کونسل کی جانب سے تقریب ہوئی،اس میں خامی بھی رہی،اس پر تنقید آپ کا حق ہے، آپ کے نظر میں ان 8 برس سے پہلے کراچی میں ادبی سرگرمیوں کا اس تواتر سے نہ ہونے کی کوئی خاص وجوہ موجود ہے؟ اگر ہے تو آئندہ تحریر میں اس پر بھی روشنی ڈالئے گا۔ شکریہ ممنون رہیوں گا۔
صبا پرویز کیانی Dec 14, 2015 03:27pm
حقیقت پسندانہ اور کڑوا سچ ،جسے شاید آج کے نام نہاد ادب کے ٹھکیدار رد کر دیں۔
Humaira Ather Dec 14, 2015 05:22pm
خرم صاحب! آپ ناحق واویلا کر رہے ہیں۔ یہ تو دراصل ہوتی ہی ’’بے ادبی کانفرنس‘‘ ہے۔ کوئی انہیں یہ بتانے والا نہیں کہ گھر والوں کی میّت (خدانخواستہ) میں کیسی خاموشی؟ وہاں تو بآواز بلند بین ہوتے ہیں۔ آہ وبکا اور سسکیاں ہوتی ہیں۔ رہ گئی بات ان کا ساتھ دینے والوں کی، تو کسی اور کو کیا کہیں خود جناب رضاعلی عابدی نے ایک سیشن میں کہا کہ ’’ایک احمد شاہ ابدالی وہ تھا جس نے دلی کو اجاڑا تھا اور ایک یہ احمد شاہ ہے جو ادب کو پروان چڑھا رہا ہے۔‘‘ آپ کیا جناب رضاعلی عابدی سے تاریخ کو یوں مسخ کرنے کی توقع کرسکتے ہیں؟ شاید احمد شاہ جیسے لوگوں کے بارے ہی میں کہا گیا ہے کہ: سر پر چڑھ کے بول رہے ہیں پودے جیسے لوگ پیڑ بنے خاموش کھڑے ہیں کیسے کیسے لوگ بہرکیف ہم تو افتخار عارف کی زبان میں یہی کہہ سکتے ہیں۔ بکھر جائیں گے کیا ہم جب تماشا ختم ہوگا میرے معبود آخر کب تماشا ختم ہوگا کہانی میں نئے کردار شامل ہو گئے ہیں نہیں معلوم اب کس ڈھب تماشا ختم ہوگا دلِ ما مطمئن ایسا بھی کیا مایوس رہنا جو خلق اٹھی تو سب کرتب تماشا ختم ہوگا
Syed Majid Ali Dec 15, 2015 12:08am
خرم بھائی ۔ بڑی جرائت سے کام لیا، بڑی عمدہ تحریر ہے۔آپ خراج تحسین کے مستحق ہیں۔آپ کی جرائت کوسلام پیش کرتاہوں۔ یقیناًدورحاضر میں ادب کی خدمت کی بجائے بے ادبی کی جارہی ہے۔ یہ عالمی اردو کانفرنس اسی کی عکاسی کررہی تھی۔
Syed Majid Ali Dec 15, 2015 12:42am
خرم بھائی ۔ بڑی جرائت سے کام لیاہے ، بڑی عمدہ تحریر ہے۔آپ خراج تحسین کے مستحق ہیں یقیناًدورحاضر میں ادب کی خدمت کی بجائے بے ادبی کی جارہی ہے۔ یہ عالمی اردو کانفرنس آپ کی تحریر کی عکاسی کررہی تھی۔
a jilani Dec 15, 2015 02:41pm
سہیل صاحب ۔ آپ کا کالم لاجواب ہے ۔ آپ نے واقعی حقیقت کی صحیح ترجمانی کی ہے۔ یہ کانفرنسیں مافیا سے کم نہیں اور تحسین باہمی کی علم بردار ہیں۔ میں یہ اس لئے نہیں لکھ رہا کہ انہوں نے مجھے اس بار دعوت نہیں دی لیکن کئی سال ہوئے کانفرنس کے منتظم نے لندن سے بلا کر میری سخت ہتک کی ۔ مجھ سے کہا گیا کہ میں برطانیہ میں اردو کے بارے میں مقالہ پیش کروں لیکن عین وقت پر انہوں نے مجھے اسے سامعین کے سامنے پیش کرنے سے روکنے کی کوشش کی۔ اس کے بعد میں نے ایسی کانفرنسوں میں شرکت سے توبہ کر لی ہے۔ میں راشد اشرف کو سلام پیش کرتا ہوں کہ انہوں نے بھی اس تماشہ کو بےنقاب کیا ہے۔
جمشید ساحل Dec 16, 2015 11:12am
خُرم سُہیل صاحب! سلام مسنون آپ کی تحریر دراصل وہ لبادہ ہے جو "اہل ادب" نے اپنے چہروں پر چڑھا رکھا ہے۔ جینوئن ادیب ایسی پزیرائی سے لاتعلق ہوتا ہے بڑا ادب اس قسم کی عارضی زندگی کا متحمل نہیں ہوتا۔ آج مشاعرے ایک دوسرے کی واہ واہ کے سوا کیا ہیں ؟ کالم نویس اوراینکرز اپنی اپنی بقاء کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ اور اس "جنگ" میں وہ خود کو زندہ رکھنے کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں۔ ہمارے ہاں آرٹ دیہی زندگی میں ہے اور جینوئن شاعرو ادیب گوشہ نشینی اختیار کیے مسلسل کام کر رہے ہیں رہا سوال بڑے شہروں میں مشاعروں کا احوال تو جہاں آرٹ ہی نہ ہو وہاں کونسلیں مصنوعی سانسوں کا بندھن قائم رکھنے کا جتن کرتی ہیں۔ والسلام جمشید ساحل
جمشید ساحل Dec 16, 2015 01:28pm
خُرم سُہیل صاحب! سلام مسنون آپکی تحریر دراصل وہ لبادہ ہے جو "اہلِ ادب" نے اپنے چہروں پر چڑھا رکھا ہےجینوئن ادیب پزیرائی سے لاتعلق ہوتا ہے اور ہمیشہ سے تخلیق ہونے والا بڑا ادب اس قسم کے "لوازمات" کا متحمل نہیں ہوتا۔ آج مشاعرے ایک دوسرے کی واہ واہ کے سوا کیا ہیں ؟ کالم نویس اور اینکرز اپنی اپنی بقائ کی جنگ لڑ رہے ہیں اور اس "جنگ" میں وہ خود کو زندہ رکھنے کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں۔ ہمارے ہاں آرٹ دیہی زندگی میں ہے اور جینوئن شاعر و ادیب گوشہ نشینی اختیار کیے مسلسل کام کر رہے ہیں رہا سوال بڑے شہروں میں مشاعروں کا احوال تو جہاں آرت ہی نہ ہو وہاں کونسلیں مصنوعی سانسوں کا بندھن قائم رکھنے کا جتن کرتی ہیں۔ والسلام جمشید ساحل