اسلام آباد: متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے رہنما عمران فاروق قتل کیس میں گرفتار ملزمان نے مجسٹریٹ کے سامنے اپنے اعترافی بیان میں کئی اہم انکشافات کیے ہیں.

گرفتار ملزم محسن علی نے مجسٹریٹ کے روبرو اعتراف کیا کہ عمران فاروق کا قتل ایم کیو ایم کے سینیئر رہنما محمد انور کی ہدایت پر کیا گیا، محمد انور کا خیال تھا کہ عمران فاروق ایم کیو ایم کا علیحدہ گروپ بنانا چاہتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں :عمران فاروق قتل کیس: دو ملزمان کا اعتراف جرم
کاشف کامران (جن کا انتقال ہو چکا ہے) اور سید محسن علی—۔ فائل فوٹو
کاشف کامران (جن کا انتقال ہو چکا ہے) اور سید محسن علی—۔ فائل فوٹو

ملزم نے انکشاف کیا ہے کہ کاشف کو پارٹی کی مرکزی قیادت سے حکم ملا تھا کہ عمران فاروق کو قتل کر دو۔

ڈان نیوز کو دستیاب ملزمان کے اعترافی بیان کے نکات کے مطابق ملزم کا کہنا تھا کہ قتل کی منصوبہ بندی کراچی میں ہی ہوئی، جس کے بعد وہ اسٹوڈنٹ ویزے پر لندن پہنچے۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ جب میں (محسن علی) لندن پہنچا تو اکبر نامی شخص لینے آیا تھا۔

مزید پڑھیں :عمران فاروق قتل کا مقدمہ پاکستان میں درج

خیال رہے کہ ملزم کاشف کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ اس کا انتقال ہوچکا ہے۔

محسن علی کا کہنا تھا کہ کاشف علی لندن پہنچا اور آتے ہی عمران فاروق کی ریکی شروع کردی۔

ملزم کے مطابق محمد انور نے عمران فاروق کے قتل کی تاریخ 16 ستمبر مقرر کی، اس سے پہلے مقتول کے معمولات کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔

واضح رہے کہ 17 ستمبر ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کا یوم پیدائش ہے۔

قتل کی تیاری کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ واردات کے لیے ون پاؤنڈ شاپ سے چھریوں کا سیٹ خریدا گیا، کاشف نے چھریاں عمران فاروق کے گھر کے قریب باغیچے میں چھپا دی تھیں۔

عمران فاروق کے قتل کے روز کے بارے میں محسن علی کا کہنا تھا کہ 16 ستمبر 2010 کی شام عمران فاروق کو اچانک سامنے آکر روکا اور ان کو گرفت میں لے کر دبوچ لیا، کاشف نے عمران فاروق کے ماتھے پر اینٹیں مارنے کے بعد سینے اور پیٹ پر چھریوں کے وار کیے۔

ملزم محسن کے مطابق قتل کی واردات کے بعد بارش سے بچنے کے لیے پہنا جانے والا رین کوٹ اور چھریاں انھوں نے راستے میں ہی پھینک دیں۔

محسن علی کا دعویٰ تھا کہ اسے متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے لندن سیکرٹریٹ میں ذمہ داریاں دینے کی پیشکش کی گئی تھی جبکہ عارضی طور پر ایک اسٹور میں نوکری بھی شروع کروا دی گئی تھی۔

خالد شمیم کی اہلیہ بینا ان کی تصویر اٹھائے ہوئے ہیں—۔ فائل فوٹو
خالد شمیم کی اہلیہ بینا ان کی تصویر اٹھائے ہوئے ہیں—۔ فائل فوٹو

عمران فاروق قتل کے دوسرے ملزم خالد شمیم نے انکشاف کیا کہ پارٹی نے اسے خوش ہوکر واٹر بورڈ کراچی میں نوکری دلوائی اور وہ گھر بیٹھے تنخواہ وصول کرتا رہا جبکہ ایم کیو ایم قائد الطاف حسین سے پارٹی امور کے حوالے سے ایک مرتبہ فون پر رابطہ ہوا۔

عمران فاروق قتل کے حوالے سے خالد شمیم کا کہنا تھا کہ لندن میں موجود رہنما محمد انور کے مطابق عمران فاروق الگ گروپ بنانا چاہتے تھے، یوں محمد انور کی ہدایت پر معظم اور کاشف علی سے مل کر عمران فاروق کے قتل کا منصوبہ بنایا۔

خالد شمیم کے مطابق قتل کی منصوبہ بندی ایم کیو ایم کے کراچی میں واقع مرکز نائن زیرو پر ہوئی تھی۔

اعترافی بیان میں ملزم کا کہنا تھا کہ اس کی محسن علی سے ملاقات بھی نائن زیرو پر ہی ہوئی۔

خالد شمیم کا کہنا تھا کہ قتل کے لیے محمد انور نے الطاف حسین کے کزن کے ہاتھ 25ہزار پاؤنڈ (تقریباََ 35 لاکھ روپے) بھجوائے جبکہ محسن علی اور کاشف کا لندن اکیڈمی آف مینجمنٹ سائنسز میں داخلہ بھی کروایا گیا۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ملزم کاشف نے ملزم معظم کو فون کرکے کوڈ ورڈز 'ماموں کی صبح ہوگئی' میں اطلاع دی، جس کا مطلب تھا ڈاکٹر عمران فاروق قتل کر دیئے گئے۔

ملزم نے یہ بھی تصدیق کی کہ 16 ستمبر کو عمران فاروق کے قتل کی تاریخ محمد انور کے کہنے پر مقرر کی گئی تھی۔

خالد شمیم کا دعویٰ تھا کہ ان کے قتل کی بھی منصوبہ بندی کرلی گئی تھی۔

واضح رہے کہ 2 روز قبل متحدہ قومی موومنٹ کے سابق رہنما ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل میں ملوث گرفتار 2 ملزمان محسن علی اور خالد شمیم نے اسلام آباد کے ڈپٹی کمشنر کے سامنے اپنے جرم کا اعتراف کرتے ہوئے کرمنل پروسیجر کوڈ کی دفعہ 164 کے تحت اپنا بیان ریکارڈ کرویا تھا جبکہ قتل کے مبینہ مرکزی ملزم معظم علی نے جرم سے انکار کیا تھا۔

یاد رہے کہ یہ متعدد بار رپورٹ ہوچکا ہے کہ محسن اور کامران کو 2010 میں کراچی ایئرپورٹ پر لینڈ کرنے کے بعد پاکستان کے حساس اداروں نے اپنی تحویل میں لے لیا تھا۔

کیس کے تیسرے مبینہ ملزم خالد شمیم کو جنوری 2011 میں حراست میں لیا گیا جس کے بعد ان کے لاپتہ ہونے کے حوالے سے پٹیشن سندھ ہائی کورٹ میں دائر کی گئی۔

گزشتہ سال مارچ میں معظم علی کو ان ملزمان کو برطانیہ کا ویزا فراہم کروانے میں مدد دینے کے الزام میں ان کے عزیز آباد میں واقع گھر سے گرفتار کیا گیا۔

دوسری جانب 18 جنوری 2015 کو فرنٹیئر کور (ایف سی) نے دعویٰ کیا کہ انھوں نے محسن اور شمیم کو بلوچستان کے علاقے چمن سے گرفتار کیا۔

ایف سی کا دعویٰ تھا کہ دونوں غیر قانونی طریقے سے افغانستان سے پاکستان میں داخل ہورہے تھے۔

5 دسمبر 2015 کو کراچی میں بلدیاتی انتخابات کے موقع پر ایف آئی اے نے ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین، ان کے بھتیجے افتخار حسین، معظم علی خان، خالد شمیم، کاشف خان کامران اور سید محسن علی کے خلاف مقدمہ درج کیا تھا۔


آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں

تبصرے (1) بند ہیں

Israr Muhammad Khan Yousafzai of Shewa Jan 09, 2016 11:36pm
یہ اعترافی بیان تو ٹھیک ٹھاک بیان لگتا ھے لیکن چند سوال اٹھتے ھیں (1) ملزمان واردات کے بعد پاکستان کیسے پہنچے پاکستان پہنچانے میں کس نے کتنی مدد کی تھی (2) ملزمان کو کراچی ائرپورٹ پر کس نے پکڑا تھا اور کیوں پکڑا تھا اور یہ کہ ملزمان اتنے عرصہ کس کے پاس تھے (3) اگر کسی نے پکڑا تھا انکو سیدھا پیش کیا جاتا انکو دوبارہ چمن بوڈر پر گرفتار کرنے کا کیا جواز تھا