کیٹی بندر کا شمار سندھ کے ضلع ٹھٹہ کے انتہائی پسماندہ علاقوں میں ہوتا ہے۔ یہ چند جھونپڑیوں اور پکے مکانوں پر مشتمل دیہات نما شہر ہے لیکن ایک شاندار ماضی رکھتا ہے اور کراچی بھی اس شہر کے قرض تلے دبا ہوا ہے۔ کیٹی بندر کے اس تعارف پر پھر کبھی لکھوں گا۔

7 فروری 2016 کی صبح کیٹی بندر نے پاکستانی عوام کو ایک دفعہ پھر جانوں کا نذرانہ دے کر اپنی طرف متوجہ کروایا۔ کیٹی بندر کے دیہہ 'جاوو کونچی' میں قائم ایک گاؤں ابراہیم جت ہے، جبکہ مقامی لوگ 'گھوڑو' کریک کے علاقے 'واٹھو' سے اس علاقے کو جاتے ہیں۔

اس گاؤں تک پہنچنے کے لیے کشتی کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ کیٹی بندر سے کشتی میں تقریباً 2 سے ڈھائی گھنٹے کا سفر طے کر کے اس گاؤں تک پہنچا جاتا ہے۔ مذکورہ گاؤں میں آتشزدگی نے 6 معصوم بچوں اور 2 خواتین سمیت 11 انسانی جانیں نگل لیں جبکہ 6 لوگ اس آگ میں جھلس کر شدید تشویشناک حالت میں کراچی شہر منتقل کیے گئے۔

11 ہلاکتوں میں ایک ہی گھر کے 9 لوگ لقمہ اجل بنے جبکہ کراچی منتقل کیے جانے والے چاروں افراد بھی اسی خاندان سے جڑے ہوئے ہیں۔ اس تمام تر ریسکیو آپریشن کو اپنی مدد آپ کے تحت مکمل کیا گیا جبکہ حکومتی مشینری حادثے کے 16 گھنٹے بعد چند خیموں اور راشن کے چند تھیلوں سمیت تماشائیوں کی طرح برآمد ہوئی۔

ریونیو کے ایک اعلیٰ افسر نے مجھے جائے حادثہ پر تفصیلات دیتے ہوئے بتایا کہ اس حادثے میں سب سے زیادہ متاثر حسین جت کا خاندان ہوا جس کے 9 افراد لقمہ اجل بنے، جبکہ دیگر جھلس کر زخمی ہوئے۔

حسین جت کے بھائی الله بچایو اور دیگر مقامی باشندوں نے بتایا کہ یہ حادثہ رات تقریباً 12 سے 1 بجے کے درمیان پیش آیا۔ ان کا کہنا تھا کہ معمول کے مطابق وہ گھر میں رکھے ہوئے ڈیزل کے ڈرم سے ڈیزل دیگر ڈرم میں منتقل کر رہے تھے کہ اس وقت ایک بچی سے چراغ، جسے مقامی زبان میں 'بتو' کہا جاتا ہے، ڈیزل کی منتقلی کے دوران نیچے گرے ہوئے ڈیزل میں گر گیا جس سے فوری طور پر آگ بھڑک اٹھی۔

دیکھتے ہی دیکھتے 9 لوگ اس آگ میں جھلس کر اور دھوئیں کی وجہ سے سانس بند ہو کر ہلاک ہوگئے، جبکہ دیگر شدید زخمیوں کو طویل مشقت اور مشکلات سے کراچی پہنچایا گیا، جہاں دو مزید ہلاکتیں ہوگئیں۔ اس آتشزدگی میں 7 گھر اور ان میں موجود ماہی گیری کا اور دیگر سامان راکھ کے ڈھیر میں تبدیل ہو گیا۔

ماہی گیروں پر کام کرنے والی فلاحی تنظیم فشر فوک فورم ٹھٹہ کے جنرل سیکرٹری شہزادو اوٹھو کے مطابق ضلع میں تقریباً اڑھائی لاکھ سے زائد لوگ ماہی گیری کے پیشے سے منسلک ہیں اور 15 ہزار سے زائد کشتیاں اس کام میں حصّہ لیتی ہیں، مگر ان اڑھائی لاکھ ماہی گیروں کے لیے ضلعی یا سندھ حکومت کی جانب سے کسی قسم کی کوئی بھی سہولیات موجود نہیں ہیں۔

ضلع ٹھٹہ میں کل 17 کریک ہیں جن میں سے چار کریکس پر آبادی ہے۔ ان چار کریکس پر محتاط اندازے کے مطابق 3500 گھر قائم ہیں لیکن حکومت کی جانب سے کوئی ایک بھی ایمرجنسی سینٹر قائم نہیں کیا گیا۔ کھاروچھان اور کیٹی بندر جو کہ ماہی گیری کا مرکز مانے جاتے ہیں، بدقسمتی سے دونوں شہروں میں ایمرجنسی کی صورت میں ابتدائی طبی امداد کی کوئی سہولت میسر نہیں اور پانی کے درمیان جزیروں پر رہنے والے لوگوں کے لیے پورے ضلع میں ایک بھی حکومتی بوٹ ایمبولینس موجود نہیں ہے۔

ٹھٹہ کی ساحلی پٹی کو حکومت کی جانب سے خطرے کی زد میں قرار دیا جا چکا ہے مگر پوری پٹی پر کوئی بھی ایمرجنسی سینٹر قائم نہیں اور نہ ہی ایمرجنسی کی صورت میں کوئی دیگر سہولت مہیا ہے۔ بالخصوص کیٹی بندر اور کھارو چھان تو بنیادی سہولیات سے بھی مکمل طور محروم ہیں۔

1997 میں اس وقت کی وزیراعظم بینظیر بھٹو نے کیٹی بندر کو کیٹی بندر پروجیکٹ کے ذریعے انڈسٹریل زون بنانے کا فیصلہ کیا تھا اور کیٹی بندر پروجیکٹ کا سنگ بنیاد بھی رکھا گیا تھا۔ کیٹی بندر پروجیکٹ کے تحت وہاں بجلی گھر اور دیگر منصوبے تعمیر ہونے تھے مگر کچھ عرصے بعد اس وقت کے صدر فاروق لغاری نے بینظیر بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹ دیا اور اگلے وزیراعظم نواز شریف نے کیٹی بندر پروجیکٹ کے تابوت میں کیل ٹھوک کر اس منصوبے کے ساتھ ساحلی پٹی پر بسنے والے لوگوں کے خوابوں، امیدوں اور روزگار کے مواقع کو بھی دفن کر دیا۔

ٹھٹہ کی ساحلی پٹی میں ہونے والی حالیہ ہلاکتیں کوئی پہلا حادثہ نہیں۔ یہاں بسنے والے لوگ کبھی سیلاب، کبھی سمندری طوفان اور کبھی کشتیاں الٹنے سے موت کے مناظر دیکھتے رہتے ہیں، جبکہ ہندوستانی فورسز کے ہاتھوں گرفتاریاں اور سالہا سال جیلیں بھی کاٹتے ہیں۔

اس حادثے سے کچھ گھنٹے پہلے بھی 11 ماہی گیروں کی ہندوستانی فورسز کی جانب سے گرفتار کرنے کی خبریں مجھ تک پہنچی تھیں۔ ہاں مگر ہماری میڈیا کے لیے یہ لوگ اور یہ گرفتاریاں اہمیت نہیں رکھتیں، اس لیے ہماری میڈیا پر یہ خبریں نشر یا چھپ نہیں سکیں۔

گزشتہ سال بھی سیلاب نے کھاروچھان میں بڑے پیمانے پر تباہی مچائی اور اس سیلاب نے اس علاقے میں خاص طور پر ہونے والی کیلے کی فصل کو بھاری نقصان پہنچایا، سینکڑوں ایکڑ پر کیلے اور مختلف سبزیوں کی فصلیں زیر آب آ گئیں اور دیہات بھی سیلاب کی تباہ کاریوں سے محفوظ نہ رہ سکے، جس کے باعث مکینوں کو نقل مکانی کرنی پڑی۔ اس سے قبل بھی متعدد بار اس علاقے کے مکین نقل مکانی کرتے رہے ہیں۔

شہزادو اوٹھو کا کہنا ہے کہ "حکومت کی جانب سے ان علاقوں کو اس طرح سے نظر انداز کیا گیا ہے کہ جیسے یہ علاقہ پاکستان کا حصّہ ہی نہ ہو۔ اس علاقے کے مکین انتہائی ابتری کی زندگی گزار رہے ہیں۔"

کیٹی بندر، کھاروچھان اور میرپور ساکرو کی ساحلی پٹی حکومتی وزرا کو صرف اس وقت یاد آتی ہے جب ان کے اپنے مفادات اس علاقے سے جڑے ہوتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے گزشتہ دور حکومت میں جب کیٹی بندر میں تمر کے پودے لگا کر ورلڈ ریکارڈ بنانے کی مہم کے آغاز کے لیے صوبائی وزیر سسی پلیجو کیٹی بندر جا رہی تھیں تو اس علاقے کے لوگوں نے ان کا گھیراؤ کر کے پانی کی قلت کے خلاف شدید احتجاج کیا تھا، جبکہ لگائے گئے لاکھوں پودوں کا آج کوئی وجود نہیں۔

حکومت کو کیٹی بندر سمیت ٹھٹہ کے ساحلی علاقوں پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے اور کیٹی بندر کو سندھ کی دوسری بندرگاہ بنا کر ملکی معیشت کو مضبوط کیا جا سکتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ 5280 میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کے منصوبے کو، جو 1997 میں بنایا گیا تھا، پایہء تکمیل تک پہنچا کر ملک سے لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے، جبکہ اس علاقے میں انڈسٹریل زون کا قیام جہاں ملکی معیشت کو سہارا دے گا، وہیں مقامی لوگوں کو روزگار بھی فراہم کر سکتا ہے۔

حکومت کو ساحلی پٹی پر خصوصی ایمرجنسی سینٹر قائم کرنے چاہیئں جبکہ بوٹ ایمبولینس کی موجودگی کو بھی یقینی بنانا چاہیے تاکہ آئندہ ایسے حادثات یا قدرتی آفات کے پیش نظر انسانی جانوں کا تحفظ ہو سکے ورنہ حسین جیسا پھر کوئی اس قسم کے حادثوں کا شکار ہوتا رہے گا۔

تبصرے (2) بند ہیں

Ali keerio Feb 09, 2016 06:43pm
informative article sir
Syed Haider Feb 09, 2016 11:53pm
Good to read about Keti Bundar news. It is extremely sad that our past and present government never took care of our innocent hardworking coastal people. These people are the backbone of our nation, we should be proud of them. This is shame that Federal Government and Sind Government have not done basic development work. I sincerely advice to local people do not give your votes to lairs, and corrupt party leaders, who they have not done anything for children and youth of Keti Bundar and surrounding regions. Before giving vote to any of them ask them to work with local children, workers and fishermen for 2 years and build a project for the local community. Our people are smart, intelligent and hardworking, they need support for infra structure and education. May be people of Keti Bundar can do community development projects by them selves. I do not have much hopes with these greedy leaders and suckers. North Karachi. Pakistan Zindabad.