پشاور: صوبہ خیبر پختونخوا کے احتساب کمیشن کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) لیفٹیننٹ جنرل (ر) محمد حامد خان نے صوبائی حکومت کی جانب سے احتساب ایکٹ 2015 میں ترمیم کے باعث احتجاجاً اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔

واضح رہے کہ صوبائی حکومت کی جانب سے لائے گئے ترمیمی آرڈیننس کے تحت کرپشن میں مبینہ طور پر ملوث کسی بھی مشتبہ شخص کی گرفتاری کے لیے پانچ رکنی کمیشن کی منظوری کو لازمی قرار دیا گیا ہے، جبکہ مشتبہ شخص کے جسمانی حراست کی مدت بھی 45 دنوں سے 15 دن کردی گئی ہے۔

حامد خان کے استعفیٰ کا پہلا صفحہ
حامد خان کے استعفیٰ کا پہلا صفحہ

آرڈیننس کے ذریعے کمیشن کی جانب سے کسی بھی قانون ساز کی گرفتاری کو چیئرمین سینیٹ یا اسپیکر قومی یا صوبائی اسمبلی کی منظوری سے مشروط کیا گیا ہے، جبکہ کسی سرکاری ملازم کی گرفتاری کے لیے بھی کمیشن کو، صوبائی چیف سیکریٹری کی اجازت کا پابند بنایا گیا ہے۔

حامد خان کے استعفیٰ کا دوسرا صفحہ
حامد خان کے استعفیٰ کا دوسرا صفحہ

احتساب ایکٹ میں ترامیم کے بعد کمیشن اپنی انکوائری 90 دن اور تحقیقات 30 دنوں میں مکمل کرنے کا پابند ہوگا، انکوائری کو کمیشن کی منظوری کے بعد تحقیقاتی عمل میں تبدیل کیا جاسکے گا، جبکہ کسی بھی مشتبہ شخص کو انکوائری کے نہیں بلکہ صرف تحقیقات کے مرحلے میں گرفتار کیا جاسکے گا۔

حامد خان کے استعفیٰ کا تیسرا صفحہ
حامد خان کے استعفیٰ کا تیسرا صفحہ

ایکٹ میں ایک اور ترمیم کے تحت کسی بھی گمنام شکایت کے تحت کوئی انکوائری شروع نہیں کی جائے گی اور کسی غیر سنجیدہ شکایت پر عائد کیے جانے والے جرمانے کی رقم 5 لاکھ سے کم یا 20 لاکھ سے زیادہ نہیں ہوگی۔

محمد حامد خان نے گورنر خیبر پختونخوا سردار مہتاب عباسی کو بھجوائے جانے والے تین صفحات پر مشتمل استعفے میں عہدہ چھوڑنے کی وجوہات بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ احتساب ایکٹ میں ترامیم سے ان کے اختیارات کم ہوگئے ہیں، نئے قانون سے کمیشن کی فیصلہ سازی متاثر ہوگی، جبکہ اس نے احتساب کے عمل کو بھی متنازع بنا دیا ہے۔

اکتوبر 2014 میں صوبائی احتساب کمیشن کے ڈی جی نے کہا کہ دو سال سے کم مدت میں کمیشن نے 90 انکوائریز اور 43 کیسز کی تحقیقات کی، جبکہ عدالت میں 13 ریفرنسز فائل کیے گئے۔

ان کا کہنا تھا کہ خیبر پختونخوا کی تاریخ میں پہلی بار طاقتور وزرا اور سینیئر بیوروکریٹس کو کرپشن کے الزامات میں گرفتار کیا گیا اور عدالت میں ان کے خلاف مقدمات چلائے گئے۔

محمد حامد خان کے مطابق انسداد کرپشن اسٹیبلشمنٹ (اے سی ای) کو احتساب کمیشن کا حصہ ہونا چاہیے تھا، تاہم قانون میں تبدیلی کرکے اے سی ای کو آزادانہ طور پر کام کرنے سے روک دیا گیا۔

خیال رہے کہ حامد خان کی جانب سے 4 فروری کو وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا پرویز خٹک کو لکھے جانے والے خط میں درخواست کی گئی تھی کہ احتساب ایکٹ میں ترامیم نہ کی جائیں، کیونکہ اس سے آزادانہ اور شفاف احتساب کا عمل متاثر ہوگا۔

دو روز قبل وزیراعلیٰ کو لکھے جانے والے دوسرے خط میں انہوں نے کئی قانونی پہلو اٹھائے ہیں، جن سے ان کے خیال میں کمیشن کی کارکردگی متاثر ہوگی۔

دوسری جانب صوبائی حکومت کے ترجمان کا کہنا تھا کہ احتساب کے قانون میں ترامیم کے بعد احتساب کا عمل زیادہ بامعنی، مضبوط اور تیز ہوگا، جبکہ اس سے کمیشن بھی بطور ادارہ مضبوط ہوگا۔

یہ خبر 11 فروری 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔


آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔

تبصرے (1) بند ہیں

tuaha Feb 11, 2016 12:20pm
میرے خیال میں اچھی ترمیم ہیں یہ