• KHI: Partly Cloudy 16.2°C
  • LHR: Partly Cloudy 12°C
  • ISB: Partly Cloudy 12.9°C
  • KHI: Partly Cloudy 16.2°C
  • LHR: Partly Cloudy 12°C
  • ISB: Partly Cloudy 12.9°C

فتور: کلاسک ناول سے ناانصافی

شائع February 22, 2016

برطانیہ کے کلاسیکی ناول نگار چارلس ڈکنز کے ناول ”Great Expectations“ کو بولی وڈ میں موضوع بنایا گیا اور اس ناول کے مرکزی خیال کو بنیاد بنا کر فلم ”فتور“ بنائی گئی۔ فلم کی کہانی کشمیر کے دو خاندانوں کے گرد گھومتی ہے جس میں سے ایک کی سربراہ ”نواب بیگم“ (تبو) ہیں۔ ان کی ایک بیٹی (کترینہ کیف) ہے جو انتہائی خوبصورت ہے۔

دوسرے خاندان کا سربراہ مفتی ہے۔ اس کی بیوی کا بھائی نور فلم کا ہیرو ہے۔ اس کی زندگی کے دو حصے دکھائے گئے ہیں، ایک بچپن اور دوسرا جوانی کا دور۔ دونوں میں ان کو بیگم کی صاحب زادی سے محبت کرتے دکھایا گیا ہے۔ بیگم کا کسی دور میں مفتی سے عشق رہا تھا، مگر مفتی کی جانب سے انہیں دھوکا دیے جانے کے بعد اب وہ دانستہ طور پر مفتی کے سالے کو اپنی بیٹی کا گرویدہ بنانے کے بعد دل کو توڑنے کی کوشش کرتی ہیں، تاکہ انتقام لیا جا سکے۔ یہ فلم کا مختصر خلاصہ ہے، جس میں مرکزی طور پر تو چارلس ڈکنز کے ناول سے قریب رہنے کی کوشش کی گئی ہے، مگر کہانی میں کشمیر کی سیاست کو شامل کر کے فلم کا تاثر خود ہی توڑ دیا گیا۔

پاکستان میں یہ فلم بری طرح ناکام رہی اور ہندوستان سمیت دیگر ممالک میں بھی اس کو بہت اچھا ردعمل نہیں ملا، مگر رومانوی فلمیں دیکھنے والوں کو یہ فلم متاثر کرنے میں کامیاب رہی۔

اس کے باوجود فلم کا ناکام ہونا سمجھ نہیں آتا۔ اس کی وجوہات جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ پاکستان میں تو فلم ناکام ہونے کی وجہ بہت واضح ہے،اچھی خاصی رومانوی فلم میں انڈو پاک سیاست شامل کر دی۔ یہ فلم چونکہ کشمیر کے تناظر میں بنائی گئی ہے اس لیے اس کے کئی مناظر میں اصل مسئلہ کشمیر پر ہندوستانی مؤقف کو درست بنا کر پیش کیا گیا ہے۔

مثال کے طور پر فلم کے ایک منظر میں اجے دیوگن، جنہیں مجاہد دکھایا گیا ہے، کشمیر کی آزادی کی لڑائی کو بے کار کہتے دکھائی دیتے ہیں۔ ایک اور منظر میں فلم کا مرکزی ہیرو نور، جس کی محبوبہ کی شادی ایک پاکستانی سفارت کار سے طے ہوجاتی ہے، وہ اس رقیب سفارت کار سے اور تو کچھ کہہ نہیں پاتا، البتہ ایک تقریب میں اس کے سامنے ہنگامہ کرتا ہے۔

جب اس کے سکیورٹی گارڈ اس کو روکتے ہیں اور پکڑ کر وہاں سے دور لے جانے کی کوشش کرتے ہیں، تو وہ سنی دیول کی ایک پرانی فلم ”ماں تجھے سلام“ کے گھسے پٹے ڈائیلاگ چیخ چیخ کر دہراتا ہے کہ ”دودھ مانگو گے، تو کھیر دیں گے، فردوس مانگو گے تو چیر دیں گے۔“ اصل ڈائیلاگ میں کشمیر کا لفظ ہے جسے فلم میں کترینہ کے نام کی مناسبت سے فردوس سے بدل دیا گیا ہے۔

اب اس ساری صورت حال سے چارلس ڈکنز والے پلاٹ کا کوئی لینا دینا ہے، نہ ہی ایک مصور کو یہ انداز گستاخی زیب دیتا ہے اور نہ جانے اسکرین پلے اور مکالمے لکھتے ہوئے الفاظ کی کیا کمی پڑ گئی، جو سنی دیول کی مدد حاصل کرنا پڑی۔ اچھی خاصی فلم کو سنی دیول کے حوالے کر کے برباد کر دیا۔

فلم کے پروڈیوسر سدھارتھ رائے کپور ہیں جو فلم کے مرکزی کردار اور ہیرو ادیتیا رائے کپور کے بھائی بھی ہیں۔ اگر ان کے بھائی صاحب پروڈیوسر نہ بھی ہوتے، تو فلم کا تھیم ایسا ہے کہ اس میں ادیتیا جیسے اداکار کو ہی کاسٹ کیا جانا چاہیے تھا، کیونکہ ان کی شخصیت اس طرح کی فلموں میں معاون ثابت ہوتی ہے اور اداکاری بھی ٹھیک کرتے ہیں۔

فلم میں ادیتیا رائے کپور کو کشمیر سے تعلق رکھنے والے باصلاحیت آرٹسٹ کے طور پر دکھایا گیا ہے. - پبلسٹی فوٹو.
فلم میں ادیتیا رائے کپور کو کشمیر سے تعلق رکھنے والے باصلاحیت آرٹسٹ کے طور پر دکھایا گیا ہے. - پبلسٹی فوٹو.

البتہ کترینہ کیف کو اس فلم میں شامل کرنے کا جو مقصد تھا، وہ پورا ہوگیا۔ ایک خوبصورت ماں کی حسین صاحب زادی دکھائی دینی چاہیے تھی، وہ دکھائی دی، اداکاری تو کترینہ سے خیر کیا ہوتی، البتہ ان کی اداؤں سے فلم میں گزارا کر لیا گیا۔

اداکاری اگر کسی نے کی ہے تو وہ تبو ہیں۔ انہوں نے اپنی زندگی کا بہترین کام اس فلم میں کیا ہے۔ گزرتے وقت کے ساتھ تبو بہت میچور اداکارہ کے طور پر سامنے آئی ہیں۔ فلم کے اس کردار میں پہلے ریکھا تھیں، انہوں نے کچھ مناظر فلم بند بھی کروا دیے تھے، مگر بعد میں وہ اس فلم سے علیحدہ ہوگئیں اور تبو نے یہ کردار نبھایا، مگر ریکھا سے نصف تجربہ رکھنے کے باوجود انہوں نے 'بیگم' کے کردار میں جان ڈال دی۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ فلم کی ساکھ کو بچانے میں تبو کی اداکاری کام آگئی۔

اس فلم کا سب سے شاندار پہلو اس کی موسیقی ہے۔ موسیقار امیت تریویدی نے بہت دلکش دھنیں بنائی ہیں، اور دو گیتوں 'پشمینہ' اور 'رنگارے' میں اپنی آواز کا جادو بھی جگایا ہے۔ دیگر گیتوں میں بھی گلوکاروں نے بھی خوب نبھایا ہے۔ فلم کے دو گیتوں 'ہمیں استو' اور 'بتیاں' میں پاکستانی گلوکارہ 'زیب بنگش' کو بھی شامل کیا گیا ہے، یہ وہی زیب ہیں، جنہیں پاکستان میں زیب اینڈ ہانیہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ کوہاٹ سے تعلق رکھنے والی اس باصلاحیت گلوکارہ نے نہایت خوبصورتی سے اپنی صلاحیتوں کو ان دونوں گیتوں کے ذریعے ثابت کیا ہے۔

فلم کے تمام گیت لاجواب ہیں اور اس بات کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے، کیونکہ ایک مصور کی زندگی کو پینٹ کرنے کے لیے جس طرح کی دھنیں، دلکش شاعری اور فلمانے کا انداز چاہیے تھا، ان سب پہلوؤں کا خیال رکھا گیا ہے۔ فلم کے پس منظر کی موسیقی ہتیش سونک نے ترتیب دی اور کمال مہارت سے اپنا کام کیا ہے۔

یہ فلم جن مقامات پر فلمائی گئی، ان میں سرفہرست علاقہ کشمیر کا ہے، سری نگر کی معروف ڈل جھیل اور نشاط باغ کے مقام پر اس فلم کی عکس بندی کی گئی۔ دہلی میں ہمایوں کے مقبرے کے مقام پر بھی اس کو فلمایا گیا۔ ممبئی کے مختلف اسٹوڈیوز میں بھی اس کی شوٹنگ ہوئی، جبکہ پولینڈ کے کچھ علاقوں میں بھی اس کو فلمایا گیا۔ فلم میں کشمیر کے مناظر دیکھنے کے قابل ہیں۔ فلم کی سینماٹوگرافی، ایڈیٹنگ، لائٹنگ، حتیٰ کہ کاسٹیوم وغیرہ سب بہت عمدہ رہے۔ ان شعبوں سے وابستہ تمام لوگوں نے فلم میں جمالیاتی رنگ بھر دیے، شاید یہی وجہ ہے کہ ایک نظر میں یہ فلم آنکھوں کو بھائی۔

اچھی موسیقی کی وجہ سے کہانی میں بھی دلچسپی پیدا ہوئی۔ تبو جیسی شاندار اداکارہ اور ادیتیا جیسے وجیہہ شخص کی وجہ سے فلم دیکھ بھی لی گئی، مگر ایک تشنگی کا احساس رہ گیا۔ اگراس فلم کی کہانی کے پلاٹ میں سیاست کی جگہ صرف رومان ہی موضوع رہتا، تو یہ بہت بھرپور تاثر چھوڑ سکتی تھی، اس کے باوجود رومانوی فلمیں دیکھنے والے اسے بغیر زیادہ امیدیں لگائے، ایک ہلکی پھلکی فلم کے طورپر دیکھ سکتے ہیں۔

فلم: فتور

ملک: ہندوستان

زبان: اردو۔ہندی

ہدایت کار: ابھیشک کپور

موسیقار: امیت تریویدی

فنکار: ادیتیا رائے کپور، کترینہ کیف، تبو، محمد ابرار، لارا دتا، اجے دیوگن اور دیگر

ریلیز: 12 فروری 2016 (ہندوستان۔پاکستان)

خرم سہیل

بلاگر صحافی، محقق، فری لانس کالم نگار اور کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔

ان سے ان کے ای میل ایڈریس [email protected] پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تبصرے (7) بند ہیں

Mustafa Kamal Feb 22, 2016 08:23pm
i watched this movie last Saturday at arena cinema, but i could not found basic theme of this story.
solani Feb 23, 2016 12:12am
Adatya! Ab muje dhoka mat dena.
راشد نذیر Feb 23, 2016 12:22am
ایک اور بھارتی فلم، ایک اور بے سروپا کہانی جس کو بارہ مصالحے لگا کر بیچنے کی کوشش کی گئی۔ بھارتی فلموں اور بے تکی، بے سروپا اسکرپٹ کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ اچھے ناولوں اور کہانیوں کا ستیاناس کرنا بھارتی فلموں کی ایک درخشاں روایت رہی ہے۔ اور لگتا ہے یہ فلم بھی اسی روایت کا تسلسل ہے۔ بھارتی فلموں سے ڈھنگ کی کہانی کی امید لگانا بے سود ہے۔
حافظ Feb 23, 2016 02:27am
ٹریلر میں تو کشمیر کا لفظ ہے فردو س کا نہیں۔
AHMED ZARAR Feb 23, 2016 02:36am
always go for Indian parallel cinema movies. you will get interesting results than commercial cinema.
حنیف سحر Feb 23, 2016 08:35am
ادبی مضامین کی بڑی شدید کمی محسوس ہوتی ہے۔ اچھی کتابوں پر بھی کوئی تبصرے نہیں دیے جاتے۔کیا میں ڈراموں پر تبصرے کرسکتا ہوں؟
خرم سہیل Feb 23, 2016 11:57am
@حافظ کے لیے ۔ تحریر میں کچھ نکتے ایسے ہوتے ہیں ، اگر ہم ان کی وضاحت کریں تو تحریر کی روانی متاثر ہوتی ہے ، اب چونکہ آپ نے یہ نکتہ اعتراض اٹھایا ہے ، تو میں جواب دے رہا ہوں ۔ فلم اور ٹریلر میں بالکل کشمیر کا لفظ ہی استعمال کیا گیا ہے ، مگر چونکہ بحیثیت پاکستانی ہم ان الفاظ کو درست نہیں سمجھتے ، تو اس لیے تحریر میں یہ انہی معنوں میں لکھا ہے،جس تناظر میں فلم کا ہیرو کہہ رہا ہے ، درحققیت ان ڈائیلاگز کے ذریعے وہ یہ بتانا چاہ رہا ہے کہ فردوس صرف اس کی محبوبہ نہیں بلکہ کشمیر سے تعلق رکھنے کی وجہ سے وہاں کی نمائندہ بھی ہے اور ہم وہ تمہیں نہیں دے سکتے ۔ اسی میں دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ پاکستان کے علاوہ جہاں فلم ریلیز ہوئی ، بشمول ٹریلر لفظ کشمیر ہے ، مگر پاکستان میں کچھ مقامات پر فلم میں اس ڈائیلاگ میں ترمیم کرکے لفظ کشمیر کی جگہ فردوس کردیا گیا ہے ۔ اب انڈین ورژن میں تو کشمیر ہی سنائی دے گا اور جیسا میں نے تبصرے میں بھی لکھا ، کشمیر ہندوستانیوں کا احساس جرم ہے ، جو انہیں ستاتا رہتا ہے اور پھوٹ پڑتا ہے کبھی کسی فلم میں ، کبھی کسی گیت میں تو کبھی کسی کتاب میں ، اب اس کا کچھ نہیں ہوسکتا۔شکریہ

کارٹون

کارٹون : 14 دسمبر 2025
کارٹون : 13 دسمبر 2025