فتور: کلاسک ناول سے ناانصافی
برطانیہ کے کلاسیکی ناول نگار چارلس ڈکنز کے ناول ”Great Expectations“ کو بولی وڈ میں موضوع بنایا گیا اور اس ناول کے مرکزی خیال کو بنیاد بنا کر فلم ”فتور“ بنائی گئی۔ فلم کی کہانی کشمیر کے دو خاندانوں کے گرد گھومتی ہے جس میں سے ایک کی سربراہ ”نواب بیگم“ (تبو) ہیں۔ ان کی ایک بیٹی (کترینہ کیف) ہے جو انتہائی خوبصورت ہے۔
دوسرے خاندان کا سربراہ مفتی ہے۔ اس کی بیوی کا بھائی نور فلم کا ہیرو ہے۔ اس کی زندگی کے دو حصے دکھائے گئے ہیں، ایک بچپن اور دوسرا جوانی کا دور۔ دونوں میں ان کو بیگم کی صاحب زادی سے محبت کرتے دکھایا گیا ہے۔ بیگم کا کسی دور میں مفتی سے عشق رہا تھا، مگر مفتی کی جانب سے انہیں دھوکا دیے جانے کے بعد اب وہ دانستہ طور پر مفتی کے سالے کو اپنی بیٹی کا گرویدہ بنانے کے بعد دل کو توڑنے کی کوشش کرتی ہیں، تاکہ انتقام لیا جا سکے۔ یہ فلم کا مختصر خلاصہ ہے، جس میں مرکزی طور پر تو چارلس ڈکنز کے ناول سے قریب رہنے کی کوشش کی گئی ہے، مگر کہانی میں کشمیر کی سیاست کو شامل کر کے فلم کا تاثر خود ہی توڑ دیا گیا۔
پاکستان میں یہ فلم بری طرح ناکام رہی اور ہندوستان سمیت دیگر ممالک میں بھی اس کو بہت اچھا ردعمل نہیں ملا، مگر رومانوی فلمیں دیکھنے والوں کو یہ فلم متاثر کرنے میں کامیاب رہی۔
اس کے باوجود فلم کا ناکام ہونا سمجھ نہیں آتا۔ اس کی وجوہات جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ پاکستان میں تو فلم ناکام ہونے کی وجہ بہت واضح ہے،اچھی خاصی رومانوی فلم میں انڈو پاک سیاست شامل کر دی۔ یہ فلم چونکہ کشمیر کے تناظر میں بنائی گئی ہے اس لیے اس کے کئی مناظر میں اصل مسئلہ کشمیر پر ہندوستانی مؤقف کو درست بنا کر پیش کیا گیا ہے۔
مثال کے طور پر فلم کے ایک منظر میں اجے دیوگن، جنہیں مجاہد دکھایا گیا ہے، کشمیر کی آزادی کی لڑائی کو بے کار کہتے دکھائی دیتے ہیں۔ ایک اور منظر میں فلم کا مرکزی ہیرو نور، جس کی محبوبہ کی شادی ایک پاکستانی سفارت کار سے طے ہوجاتی ہے، وہ اس رقیب سفارت کار سے اور تو کچھ کہہ نہیں پاتا، البتہ ایک تقریب میں اس کے سامنے ہنگامہ کرتا ہے۔
جب اس کے سکیورٹی گارڈ اس کو روکتے ہیں اور پکڑ کر وہاں سے دور لے جانے کی کوشش کرتے ہیں، تو وہ سنی دیول کی ایک پرانی فلم ”ماں تجھے سلام“ کے گھسے پٹے ڈائیلاگ چیخ چیخ کر دہراتا ہے کہ ”دودھ مانگو گے، تو کھیر دیں گے، فردوس مانگو گے تو چیر دیں گے۔“ اصل ڈائیلاگ میں کشمیر کا لفظ ہے جسے فلم میں کترینہ کے نام کی مناسبت سے فردوس سے بدل دیا گیا ہے۔
اب اس ساری صورت حال سے چارلس ڈکنز والے پلاٹ کا کوئی لینا دینا ہے، نہ ہی ایک مصور کو یہ انداز گستاخی زیب دیتا ہے اور نہ جانے اسکرین پلے اور مکالمے لکھتے ہوئے الفاظ کی کیا کمی پڑ گئی، جو سنی دیول کی مدد حاصل کرنا پڑی۔ اچھی خاصی فلم کو سنی دیول کے حوالے کر کے برباد کر دیا۔
فلم کے پروڈیوسر سدھارتھ رائے کپور ہیں جو فلم کے مرکزی کردار اور ہیرو ادیتیا رائے کپور کے بھائی بھی ہیں۔ اگر ان کے بھائی صاحب پروڈیوسر نہ بھی ہوتے، تو فلم کا تھیم ایسا ہے کہ اس میں ادیتیا جیسے اداکار کو ہی کاسٹ کیا جانا چاہیے تھا، کیونکہ ان کی شخصیت اس طرح کی فلموں میں معاون ثابت ہوتی ہے اور اداکاری بھی ٹھیک کرتے ہیں۔

البتہ کترینہ کیف کو اس فلم میں شامل کرنے کا جو مقصد تھا، وہ پورا ہوگیا۔ ایک خوبصورت ماں کی حسین صاحب زادی دکھائی دینی چاہیے تھی، وہ دکھائی دی، اداکاری تو کترینہ سے خیر کیا ہوتی، البتہ ان کی اداؤں سے فلم میں گزارا کر لیا گیا۔
اداکاری اگر کسی نے کی ہے تو وہ تبو ہیں۔ انہوں نے اپنی زندگی کا بہترین کام اس فلم میں کیا ہے۔ گزرتے وقت کے ساتھ تبو بہت میچور اداکارہ کے طور پر سامنے آئی ہیں۔ فلم کے اس کردار میں پہلے ریکھا تھیں، انہوں نے کچھ مناظر فلم بند بھی کروا دیے تھے، مگر بعد میں وہ اس فلم سے علیحدہ ہوگئیں اور تبو نے یہ کردار نبھایا، مگر ریکھا سے نصف تجربہ رکھنے کے باوجود انہوں نے 'بیگم' کے کردار میں جان ڈال دی۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ فلم کی ساکھ کو بچانے میں تبو کی اداکاری کام آگئی۔
اس فلم کا سب سے شاندار پہلو اس کی موسیقی ہے۔ موسیقار امیت تریویدی نے بہت دلکش دھنیں بنائی ہیں، اور دو گیتوں 'پشمینہ' اور 'رنگارے' میں اپنی آواز کا جادو بھی جگایا ہے۔ دیگر گیتوں میں بھی گلوکاروں نے بھی خوب نبھایا ہے۔ فلم کے دو گیتوں 'ہمیں استو' اور 'بتیاں' میں پاکستانی گلوکارہ 'زیب بنگش' کو بھی شامل کیا گیا ہے، یہ وہی زیب ہیں، جنہیں پاکستان میں زیب اینڈ ہانیہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ کوہاٹ سے تعلق رکھنے والی اس باصلاحیت گلوکارہ نے نہایت خوبصورتی سے اپنی صلاحیتوں کو ان دونوں گیتوں کے ذریعے ثابت کیا ہے۔
فلم کے تمام گیت لاجواب ہیں اور اس بات کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے، کیونکہ ایک مصور کی زندگی کو پینٹ کرنے کے لیے جس طرح کی دھنیں، دلکش شاعری اور فلمانے کا انداز چاہیے تھا، ان سب پہلوؤں کا خیال رکھا گیا ہے۔ فلم کے پس منظر کی موسیقی ہتیش سونک نے ترتیب دی اور کمال مہارت سے اپنا کام کیا ہے۔
یہ فلم جن مقامات پر فلمائی گئی، ان میں سرفہرست علاقہ کشمیر کا ہے، سری نگر کی معروف ڈل جھیل اور نشاط باغ کے مقام پر اس فلم کی عکس بندی کی گئی۔ دہلی میں ہمایوں کے مقبرے کے مقام پر بھی اس کو فلمایا گیا۔ ممبئی کے مختلف اسٹوڈیوز میں بھی اس کی شوٹنگ ہوئی، جبکہ پولینڈ کے کچھ علاقوں میں بھی اس کو فلمایا گیا۔ فلم میں کشمیر کے مناظر دیکھنے کے قابل ہیں۔ فلم کی سینماٹوگرافی، ایڈیٹنگ، لائٹنگ، حتیٰ کہ کاسٹیوم وغیرہ سب بہت عمدہ رہے۔ ان شعبوں سے وابستہ تمام لوگوں نے فلم میں جمالیاتی رنگ بھر دیے، شاید یہی وجہ ہے کہ ایک نظر میں یہ فلم آنکھوں کو بھائی۔
اچھی موسیقی کی وجہ سے کہانی میں بھی دلچسپی پیدا ہوئی۔ تبو جیسی شاندار اداکارہ اور ادیتیا جیسے وجیہہ شخص کی وجہ سے فلم دیکھ بھی لی گئی، مگر ایک تشنگی کا احساس رہ گیا۔ اگراس فلم کی کہانی کے پلاٹ میں سیاست کی جگہ صرف رومان ہی موضوع رہتا، تو یہ بہت بھرپور تاثر چھوڑ سکتی تھی، اس کے باوجود رومانوی فلمیں دیکھنے والے اسے بغیر زیادہ امیدیں لگائے، ایک ہلکی پھلکی فلم کے طورپر دیکھ سکتے ہیں۔
فلم: فتور
ملک: ہندوستان
زبان: اردو۔ہندی
ہدایت کار: ابھیشک کپور
موسیقار: امیت تریویدی
فنکار: ادیتیا رائے کپور، کترینہ کیف، تبو، محمد ابرار، لارا دتا، اجے دیوگن اور دیگر
ریلیز: 12 فروری 2016 (ہندوستان۔پاکستان)













لائیو ٹی وی
تبصرے (7) بند ہیں