جامعہ کراچی کا شمار ملک کی ایسی ممتاز درسگاہوں میں ہوتا ہے جنہیں عالمی شناخت اور شہرت حاصل ہے۔ رواں سال عالمی جامعات کی رینکنگ میں جامعہ کراچی دنیا بھر کی ابتدائی 800 یونیورسٹیوں میں سے ایک قرار پائی۔ صبح اور شام کے اوقات میں 35 ہزار سے زائد طلباء و طالبات زیرِ تعلیم ہیں۔

جامعہ کراچی ملک بھر میں ’برانڈ‘ کا درجہ بھی رکھتی ہے اور اس کے فارغ التحصیل طلبہ کو ملازمتوں کے لیے مقدم بھی تصور کیا جاتا ہے، مگر اس سب کے باوجود اندرونی حقیقت نہ صرف تکلیف دہ بلکہ قابلِ اعتراض حد تک پیچیدہ، گھٹن زدہ اور ضرر رساں ہے۔

افسوس ناک امر یہ ہے کہ جامعہ کراچی اپنے آپ میں جامعہ مسائل و مصائب بن چکی ہے، جس کے کم و بیش ہر گوشے سے مسائل و مشکلات کے ریلے یہاں تعلیم حاصل کرنے کو ایک پرسکون تجربہ بنانے کے بجائے ایک مشکل جدوجہد بنا دیتے ہیں.

جامعہ کراچی کے پرشکوہ وجود میں ابتر سیکیورٹی، ٹرانسپورٹ کے مسائل، بوسیدہ انفراسٹرکچر، کئی شعبہ جات میں صفائی ستھرائی اور مینٹیننس کے ناقص ترین انتظامات، جامعہ کی گذرگاہوں میں زمانے سے موجود رینجرز کے باوجود سیاسی پشت پناہیوں کے سبب غنڈہ گردی، کہیں اساتذہ کا غیر سنجیدہ ترین رویہ اور کہیں طلبہ میں احساسِ ذمہ داری کا فقدان بلکہ اسے بحران کہنا زیادہ مناسب ہوگا، عام ہے۔

مثال کے طور پر جامعہ میں سیکیورٹی کے نام پر گاڑیوں کے داخلے کی صرف دو مقامات سے اجازت ہے، اور اس کے بعد طلباء ایک پورے ضلعے جتنی بڑی یونیورسٹی میں پیدل ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کے لیے مجبور ہوتے ہیں۔

لڑکے تو پھر بھی موٹرسائیکلوں پر ایک دوسرے کے پیچھے بیٹھ کر گزارا کر لیتے ہیں، مگر لڑکیوں کو اس حوالے سے شدید مشکل پیش آتی ہے، کیونکہ ہر شعبہ دوسرے شعبے اور مرکزی دروازے سے انتہائی دور ہے، جبکہ یونیورسٹی کے اندر کوئی شٹل سروس موجود نہیں، جس کی وجہ سے بے پناہ توانائی اور وقت صرف ہونا معمول کی بات ہے۔

یونیورسٹی کے باہر بھی ٹرانسپورٹ سروس کا کوئی حال نہیں ہے۔ 35 ہزار سے زائد طلباء کو لانے لے جانے کے لیے دستیاب پوائنٹ بسیں اونٹ کے منہ میں زیرے سے بھی کم کے مترادف ہیں۔ نتیجتاً یونیورسٹی کی ہر بس ایسے کھچاکھچ بھری ہوئی ہوتی ہے کہ جیسے جانوروں کو مویشی منڈی تک لے جایا جا رہا ہو۔ پوائنٹ کی یہ سہولت بھی صرف صبح کے اوقات میں پڑھنے والے طلباء کے لیے دستیاب ہے، اور شام کے اوقات میں پڑھنے والے طلباء کس طرح یونیورسٹی آتے جاتے ہیں، یہ یونیورسٹی انتظامیہ کا مسئلہ نہیں ہے۔

بیشتر شعبہ جات میں دہائیوں پرانے نصاب پر اکتفا کر کے چین کی بانسری بجائی جا رہی ہے۔ اس کے علاوہ ہم نصابی عملی سرگرمیوں کی انجام دہی کے لیے لیب، آلات اور ماہرین کی شدید کمی بھی سنجیدہ اساتذہ اور طلبہ دونوں کو ہی بتدریج جستجو، تحقیق اور محنت سے متنفر کر رہی ہے۔ کمپیوٹر لیب صرف کمپیوٹر سائنس کے طلباء کے لیے ہی ضروری نہیں ہوا کرتیں، بلکہ آج کل یہ ہر مضمون کے طالبعلموں کے لیے ضروری ہیں۔ مگر زیادہ تر شعبوں میں یہ سہولت ناپید ہے، یا تو ایک ایک کمپیوٹر سے پانچ چھ طلباء کو گزارا کرنا پڑتا ہے۔

یوں تو کم و بیش تمام ہی فیکلٹیز کا کوئی پرسان حال نہیں، مگر ان سب میں سماجی علوم کی فیکلٹی کی حالت واقعی ناگفتہ بہ ہے۔ اس سے مراد محض ظاہری یا مادّی شکل و صورت میں خرابی نہیں، بلکہ اس کی کمزور ہوتی اساس اور بالخصوص طلبہ پر اس کے سنگین اثرات ہیں۔

سماجی علوم کے کم و بیش تمام شعبہ جات میں نصاب کا جدید بنیادوں پر استوار نہ ہونا، بالخصوص تاریخ، بین الاقوامی تعلقات، سیاسیات، نفسیات، سوشل ورک اور ابلاغِ عامّہ جیسے اہم ترین سماجی علوم کے شعبہ جات میں معیاری تو درکنار واجبی تحقیقی سرگرمیوں کا ہی معدوم ہونا، اساتذہ کے مابین چپقلش اور سرد جنگ، طلبہ کی سیاسی سرگرمیاں، انتظامی معاملات میں دخل اندازی اور نصابی و غیر نصابی سرگرمیوں کا بے قاعدہ انتظام اس امر کا متقاضی ہے کہ ذمہ داران سے سختی سے باز پرس کی جائے۔

جامعہ کراچی کے کلیہ سماجی علوم کی ظاہری و باطنی حالت پاکستان میں تعلیم کی سماجی بدحالی اور انحطاط پر دلیل ہے۔

اگر بزنس، کمپیوٹر سائنس اور نیچرل سائنسز ملک کی اقتصادی اور سائنسی ترقی میں مدد دیتے ہیں، تو آرٹس اور سماجی علوم معاشرے کی نشونما کے لیے ضروری ہیں۔ اس لیے ضرورت تو اس بات کی ہے کہ ان کلیات میں آرٹ، ادب اور فلسفہ ایسے پڑھایا جائے کہ یہاں سے نکلنے والے طلبا روشن فکر کے ساتھ ملک کے سماجی مسائل کے حل اور معاشرے کی تشکیل میں اپنا کردار ادا کریں۔ مقامِ پشیمانی ہے مگر سچ یہی ہے کہ مذکورہ مسائل کے سبب آرٹس لابی سے طلبہ کی ایک ایسی نسل سماج میں شامل ہوتی ہے جس کی فکری عدم تربیت اور نااہلی ہمارے سماجی و معاشی نظام کے لیے ذرا بھی مددگار نہیں۔

جامعات کسی بھی ملک کی ترقی میں کلیدی کردار ادا کرتی ہیں۔ جامعہ کراچی میں طلبہ کی اکثریت مڈل اور ورکنگ کلاس سے تعلق رکھتی ہے، وہ طبقہ جس کے کاندھوں پر ترقی سفر کرتی ہے۔ پاکستان کی ترقی ان نئے معماروں کی اعلیٰ تعلیم کے اعلیٰ معیار کی متقاضی ہے۔

اگر اعلیٰ معیار کی تعلیم فراہم نہ کی جائے، تو پھر طلباء سے آگے بڑھ کر اعلیٰ معیار کی خدمت کی توقع کرنا بھی عبث ہی ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (7) بند ہیں

نجیب احمد سنگھیڑہ Feb 23, 2016 06:00pm
جامعہ کراچی کے جو قصیدے بیان کیے گئے ہیں، میں ان سے متفق نہیں ہوں۔ جامعہ کراچی ایک عام یونیورسٹی ہے جو پنجاب یونیورسٹی کی طرح سیاسی اتھل پتھل کا ہمیشہ شکار رہتی ہے۔ جامعہ کراچی میں کراچی کلاس سرگرم عمل ہے جس طرح کہ پی یو میں منصورہ ازم سرگرم عمل ہے۔ ان سرگرمیوں کی وجہ سے یہاں سے برآمد ہونیوالے نوجوان آزاد خیال اور منطق پسند نہیں نکلتے بلکہ یہ کراچی ازم اور منصورہ ازم کا پرچار کرتے ہیں۔ ان کے اساتذہ کا بھی یہی حال ہے۔ میں نے جامعہ کراچی کا کوئی دس سال پہلے ایک آن لائن کورس کیا اور گراں قدر مارکس کے ساتھ آن لائن امتحان پاس کیا جس کی مدت تین ماہ تھی۔ گراں قدر مارکس کے باوجود مجھے سرٹیفیکیٹ نہیں دیا گیا۔ اس بارے کئی ایک خطوط اور ای میلز بھیجے متعلقہ ڈین آف فیکلٹی کو لیکن جواب نشتہ۔ جامعہ کراچی اونچی دکان پھیکا پکوان ہے اور سیاسی اکھاڑہ پن میں مبتلا ہے۔
solani Feb 23, 2016 10:30pm
Students ko parhai ke mutlik bahot sanjeeda (serious) hone ke sath sath khel ke maidan me bhi aagay hona chahie. Kehte hai jisam tawna hai to zehen bhi hushiyar hai. Science ho ya arts sanjidgi or azam-bil-jazam ka mada hona bahot zaruri hai.
solani Feb 23, 2016 11:32pm
Ye bhi Pakistan ki ek university hai jisay Agakhan University kehte hai. Yehan uthal pathal kiyo nahi hota?
ریاض بلوچ Feb 23, 2016 11:36pm
جامعہ کراچی میں مسائل کا انبار ہے، مہرین فاطمہ نے ان کا بلکل صحیح تجزیہ کیا ہے لیکن انہوں نے آفیسرز اور اسٹاف کے رویوں کا تذکرہ نہیں کیا ہے جو کہ سیاسی گروہوں سے تعلق رکھنے والے طلبا کے ساتہ ایک ذاتی نوکر کی طرح پیش آتے ہیں اور شریف طلبا سے کسی حاکم کی طرح۔
حسن امتیاز Feb 24, 2016 12:02am
جامعہ کراچی کا بہت برا حال ہے ۔ باقی تو تمام سرکاری یونیورسٹیوں میں طالب علم کو جاتے ہی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔چائے پیش کی جاتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ZASyed Feb 24, 2016 12:35pm
jab tak hamary hokomatein taleem kay faroogh kay lia sanjeeda, ghair mutassib aur har tarhah ki siyasat say balatar ho kar koshish nahi karain gi tab tak har shobay ka yahi haal ho ga. Achi taleem aur tarbiat hi aik achha insaan bana sakti hai. Mulk ko wohi agay lay ja sakta hai jo mulk aur qoum say sincere ho, na kay sirf upnay zaati mafadat ka kayal rakhay.
Nastaran Raza Feb 24, 2016 02:44pm
مہرین فاطمہ اور باقی تمام ساتھیوں کی رائے قابل احترام بھی ہے اور کسی حد تک درست بھی لیکن یہ بات ضرور ذہن میں رکھنی چاہیے کہ جامعہ کراچی"ہوا" میں معلق نہیں بلکہ اسی سر زمین پر قائم ہے جسے اسلامی جمہوریہ پاکستان کہا جاتا ہے۔ جس کے تمام بڑے بڑے ادروں کی کارکردگی نہ ہونے کے برابرہے، ملک کے حکمراں سے لیکر ایک عام سبزی فروش بھی چھوٹی یا بڑی کرپشن سے باز نہیں ،تو یہاں بھی فرشتہ موجود نہیں ۔یہ ملکی حالات اور ماحول سے متاثر بھی ہیں اور اس کا حصہ بھی، سرکاری جامعہ ہونے کے باوجود اس پر سرکار کی توجہ صرف مسائل بڑھانے میں ہے۔جامعہ میں سیاسی جماعتوں کا اثرو رسوخ اسی طرح مضبوطی سے پنجے گاڑے ہوئے ہے جیسا کہ دوسرے اداروں پر، ایسے میں بہتری کی امید عبث ہے۔آپ نے بہت ساری چیزوں کی نشاندہی کی کچھ مزید میں بھی گوش گزار کردوں ۔یہ وہ جامعہ ہے جس نے قلیل سہولیات اور وسائل کے باوجود بڑے بڑے نام پیدا کیے ہیں۔اساتذہ پڑھانا اپنا فرض عین اور طلباء پڑھنا اپنا ایمان خیال کرتے تھے، بڑے بڑے صحافی ، مقرر ،لیڈر،شاعر، ادیب اسی مادرعلمی نے اپنے لق و دق میدانوں میں سینچے ہیں۔ لیکن اب وہ حالات نہیں جامعہ سے نکلتے ترقی کے تمام راستوں کو رکاوٹیں کھڑی کر کے بند کردیا گیا ہے ،طلباء یونینز ناپید ہوئیں ۔اب یہاں کے انتظام و انصرام کی ذمہ داری سیاسی تنطیموں کو سونپی گئی ہے۔ یہاں اب تحریر و تقریر سے دل و دماغ فتح نہیں کیے جاتے بلکہ کسی تنظیم کے پرچم تلے اپنے ہی ساتھیوں کا خون بہا کر ڈیپارٹمنٹ ہتھیائے جاتے ہیں اور بقیہ ہتھیانے کی سعی مسلسل کی جاتی ہے ۔اب یہاںصرف "طلباء کا استاد ہوناٗ" جرم اور طلباء کا صرف طلباء ہونا پُر