ڈاکیومنٹری بشکریہ الجزیرہ | ڈاکیومنٹری فلم ساز: سید اویس علی

''جب میں نے اپنے والدین سے بات کی تو میری آنکھوں سے آنسو نکل آئے۔ میں یہی سوچ رہا تھا کہ آخر میں ان سے کیا کہوں۔''

یہ الفاظ بیرون ملک جانے والے ایک مزدور کے ہیں جسے دیگر ہزاروں افراد کی طرح کام کی تلاش میں اپنے گھر والوں اور برادری کی توقعات کا بوجھ اٹھائے پاکستان میں اپنا گھر چھوڑ کر بیرون ملک جانا پڑا۔

بیرونِ ملک پہنچنے پر اس نے خود کو ایک طرف ایک تارک وطن مزدور ہونے کی حقیقت اور دوسری جانب ناکامیوں کے بعد اپنے وطن میں انتظار کر رہی قرضوں اور ذلتوں سے بھری زندگی کے درمیان پایا۔

حالیہ اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں زراعت کی پیداوار میں 0.9 فی صد کمی ہوئی ہے جبکہ کپاس کی مجموعی پیداوار میں 27 فی صد کے ساتھ تیزی سے کمی آئی ہے۔

ان اعداد و شمار کے پیچھے سینکڑوں ہزاروں پاکستانی کسانوں کی ذریعہ معاش کی کہانیاں ہیں جن کے پاس اپنے گھر والوں کے لیے پیسے کمانے کی خاطر بیرون ملک جانے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں ہوتا۔

پڑھیے: پاکستانیوں کا 'اماراتی ڈریم'

پاکستان کے ایک ابھرتے ہوئے فلم ساز سید اویس علی کی اسی تناظر میں ایوارڈ یافتہ ڈاکیومنٹری فلم، پاکستان: نو پلیس لائک ہوم (پاکستان: گھر جیسی کوئی جگہ نہیں) حال ہی میں الجزیرہ پر نشر ہوئی جس میں ملک چھوڑ کر بیرون ملک جانے والے شریف کی کہانی کو پیش کیا گیا ہے اور ڈاکیومنٹری میں اس کے گاؤں حکیم والا سے عرب امارات تک کے سفر کو دکھایا گیا ہے۔

25 منٹ کے مختصر دورانیے پر مشتمل ڈاکیومنٹری میں اویس ان تمام سماجی اور معاشی عناصر کو دکھانے میں کامیاب رہے ہیں جن کی وجہ سے گاؤں کے ایک محبوب اور کھلکھلاتے فرد شریف کو اپنے چھوٹے گاؤں سے نکل کر اندھے یقین کے ساتھ بیرون ملک جانا پڑا۔

تارکینِ وطن کی زیادہ تر کہانیوں کی طرح اس کہانی کا اختتام بھی خوشگوار نہیں، مگر شریف کی کہانی کو صرف ایک شخص کی کہانی سمجھنے کے بجائے اسے ایک چہرہ سمجھ کر ہم ان عوامل کو سمجھ سکتے ہیں جن کی وجہ سے حالات اس نتیجے پر پہنچتے ہیں، اور یہ بھی کہ کن مقامات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے.

گاؤں کے لوگ شریف کو الوداع کہنے کے لیے جمع ہوئے ہیں — تصویر سید اویس علی
گاؤں کے لوگ شریف کو الوداع کہنے کے لیے جمع ہوئے ہیں — تصویر سید اویس علی

یہ ڈاکیومنٹری ہمارے نکتہ نظر کو وسیع کرنے کے لیے بہت مفید ہے کیونکہ یہ ملک چھوڑنے سے جڑی دو بڑی غلط فہمیوں کا ازالہ کرتی ہے.

بیرون ملک میں غیر امکانی حالات

پہلی غلط فہمی یہ ہوتی ہے کہ تارک وطن بیرون ملک میں کام کی اصل نوعیت سے بالکل ناواقف ہوتے ہیں، خاص طور پر کچھ ایسے ممالک میں جہاں تارکین وطن سے اچھا سلوک نہیں برتا جاتا، لہٰذا وہ نادانی سے خود کو میزبان ملک میں پھنسا ہوا پاتے ہیں۔

مگر شریف کی کہانی سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ عرب امارات میں پہلے سے مقیم ایک دوست کے ذریعے وہاں کے حالات سے آگاہی رکھتا ہے.

تو کیا اس مسئلے کا بہترین حل بیرون ملک جانے والوں میں ''آگاہی پھیلانے'' کو قرار دیا جاسکتا ہے، یا پھر ہمیں تسلیم کرنا چاہیے کہ یہ ریاست اور معاشرے کی ناکامیاں ہیں جن کے نتیجے میں ایسے سماجی اور معاشی حالات پیدا ہو جاتے ہیں جو کئی لوگوں کی ہجرت کا سبب بنتے ہیں؟

یہاں تک کہ اویس جو خود بھی عرب امارات میں بڑے ہوئے ہیں اور متعدد بار تارک وطن مزدوروں سے گفتگو کر چکے ہیں، اپنے نوٹ میں کہتے ہیں کہ انہیں یہ جان کر حیرانی ہوئی کہ گاؤں میں اس سطح کی آگاہی موجود تھی، پھر بھی شریف کو بیرون ملک بھیجنے کا اجتماعی فیصلہ کیا گیا تھا۔

مزید پڑھیے: "واپس بھیجے جانے سے مر جانا بہتر ہے"

گو کہ یہ ایک عام فہم بات ہے مگر یہ ایک وسیع تر بحث کو جنم دیتا ہے کہ تارک وطن مزدوروں کو بے وقوف نہیں سمجھنا چاہیے جو زیادہ پیسہ کمانے کی خاطر اپنا ملک چھوڑ آتے ہیں، جبکہ اپنے آگے کھڑی مشکلات سے لاعلم ہوتے ہیں.

غریبوں کو ریوڑ کا مویشی قرار دینا آسان ہے جو جہاں بہتر ذریعہ آمدن دیکھتے ہیں وہاں چلے جاتے ہیں کیونکہ بظاہر یہی تو ان کا واحد مقصد ہوتا ہے۔

مگر حقیقت میں تارکین وطن — جو سماجی انصاف اور عوامی پالیسیوں کے مسائل میں پھنسے دیگر افراد کی طرح ہیں — کو بھی سمجھدار افراد تصور کیا جانا چاہیے جو بیرون ملک جانے سے پہلے نفع و نقصان اور قیمت و فائدے کے تفصیلی تجزیے کے مرحلے سے گذرتے ہیں، مگر ان کا سامنا ان اذیت ناک حالات سے ہوتا ہے جو اکثر ان کے فیصلے پر حتمی طور پر اثر انداز ہوتے ہیں۔

بیرون ملک جانے کے لیے قرضے

صرف یہی نہیں، بلکہ یہ ڈاکیومنٹری غربت کے اس بدترین جال پر بھی روشنی ڈالتی ہے جس میں یہ لوگ جکڑے رہتے ہیں.

شریف اور اس کے گاؤں کے لوگ غربت کی زندگی گزارتے ہیں جہاں وہ زندہ رہنے کے لیے کھیتی باڑی کرتے ہیں اور زندگی کا چرخہ چلانے لائق پیسہ کما لیتے ہیں، اس کے ساتھ ساتھ پورے گاؤں میں ایمرجنسی ضروریات کے لیے اجتماعی طور پر خریدی ہوئی گاڑی کے مالک بھی ہیں۔

مگر انفراسٹرکچر کے مسائل کی وجہ سے فصل کی خراب پیداوار کے پیشِ نظر گاؤں کے بزرگ، گاؤں کے تمام لوگوں کی مالی مدد کے غرض سے شریف کو بیرون ملک بھیجنے کا فیصلہ کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔

دبئی میں چند مشکل ماہ گزارنے کے بعد شریف گھر واپس لوٹ آتا ہے جس کے نتیجے میں بیرون ملک جانے کے لیے اٹھائے گئے مالی قرضوں کو چکانے کے لیے نہ صرف اس کے والد کو سخت محنت کے بعد خریدی ہوئی اپنی ملکیت فروخت کرنی پڑی، بلکہ گاؤں والوں کو اپنی گاڑی بھی بیچنی پڑی۔

ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ہم یہاں ان لوگوں کے بارے میں بات کر رہے ہیں جن کی خوراک ایک روٹی پر مشتمل ہے۔ چنانچہ شریف کی بوڑھی ماں اپنے بیٹے کے لوٹنے پر ظاہری طور پر تو خوش نظر آتی ہیں مگر ان کا مایوسی کے ساتھ کہنا تھا کہ اب جبکہ ہمارے حالات اور بھی خراب ہو گئے ہیں تو وہ اپنے بیٹے کے لوٹنے پر پوری طرح کیسے خوش ہو سکتی ہیں۔

پر اگر شریف کچھ سالوں تک بیرون ملک کام کرنے کی منصوبہ بندی پر قائم رہتا تو بھی گاؤں کی بہبود کے لیے شریف سے جو توقعات وابستہ کی گئی تھیں، ان کے پورا ہونے کی تھوڑی ہی امید تھی.

پڑھیے: یورپ کی میٹھی جیل

حقیقت میں زیادہ تر تارکین وطن خود کو ان قرضوں میں پھنسا ہوا پاتے ہیں جو انہوں نے بیرون ملک جانے پر آنے والے اخراجات کے لیے گاؤں میں موجود سود پر قرض دینے والوں سے اٹھائے ہوتے ہیں، جبکہ ڈاکیومنٹری میں اس چیز کو نمایاں نہیں کیا گیا۔

شریف کی کہانی کا آخر خوشگوار نہیں رہا — تصویر سید اویس علی
شریف کی کہانی کا آخر خوشگوار نہیں رہا — تصویر سید اویس علی

ملک چھوڑنے والا شخص اس قدر قرضوں کے بوجھ تلے دبا ہوا ہوتا ہے کہ اسے قرض اتارنے کے لیے توقعات سے کہیں زیادہ کام کرنا پڑتا ہے، برادری کی مدد کرنے کو تو چھوڑ ہی دیں.

لوگوں پر سرمایہ کاری — ایک منافع بخش کاروبار

ایک طرف تو مایوس کن معاشی حالات ہیں جس کا واحد حل لوگ صرف ملک چھوڑنا ہی سمجھتے ہیں، جبکہ دوسری طرف سود پر قرض دینے والے اور بیرون ملک بھجوانے والی ایجنسیاں ہیں جو اس مایوسی کا غلط استعمال کرتی ہیں۔

بیرون ملک جانے کے مراحل میں ریاست کی غیر موجودگی اس پورے چکر کا سب سے اہم حصہ ہے. یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ محض شہروں کی ترقی تک محدود نہ رہے بلکہ دیہی علاقوں کی سماجی اور معاشی ترقی میں سرمایہ کاری کر کے اپنے شہریوں کو ایسے چنگل میں پھنسنے سے بچائے.

بطور ایک معاشرہ ہم صرف اتنا تصور کریں کہ اگر ہمیں ہمارے گھر اور کمیونٹی سے الگ کر کے ایسی گہری کھائی میں ڈال دیا جائے جہاں مزدوروں کے حقوق غیر یقینی ہوں اور حالات سنگین ہونے کے امکانات ہوں، پھر زندگی داؤ پر لگا کر جبراً مشقت کروائی جائے تو آپ کو کیسا محسوس ہوگا۔

بلاشبہ اگر ہم حقیقی طور پر ایک قوم ہیں تو پھر ہمیں ان اپنے لوگوں کو سنگین حالات کے ہاتھوں مجبور ہو کر وطن چھوڑ جانے سے روکنا پڑے گا تاکہ ان سے دیگر ملکوں میں دوسرے درجے کے شہریوں جیسا سلوک نہ کیا جائے.

شریف کو امید ہے کہ وہ قرضہ ادا کرنے اور گاؤں والوں کو گاڑی خرید کر دینے میں کامیاب ہوگا. — تصویر سید اویس علی۔
شریف کو امید ہے کہ وہ قرضہ ادا کرنے اور گاؤں والوں کو گاڑی خرید کر دینے میں کامیاب ہوگا. — تصویر سید اویس علی۔



اگر آپ بھی پاکستانی تارک وطن ہیں اور اپنے تجربات اور اپنی آواز دیگر پاکستانیوں تک پہنچانا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنی کہانی [email protected] پر ای میل کریں۔

تبصرے (0) بند ہیں