سینیٹ سے 22ویں آئینی ترمیم کی منظوری

شائع June 3, 2016

اسلام آباد: سینیٹ میں 22ویں آئینی ترمیم منظور کرلی گئی، جس کے بعد چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کمیشن کے چاروں صوبائی اراکین کی اہلیت کے معیار تبدیل ہوگیا ہے۔

ایوان بالا کے 71 اراکین نے ترمیم کی حمایت کی، تاہم حکومت اور اپوزیشن دونوں بینچوں کے چند اراکین نے ترمیم کے مسودے کے جائزے کے لیے مناسب وقت نہ دینے پر حکومت پر تنقید کی۔

قومی اسمبلی میں 22ویں آئینی ترمیم کی پہلے ہی منظوری دی جاچکی ہے۔

آئینی ترمیم کے بعد اعلیٰ عدلیہ کے حاضر سروس اور ریٹائرڈ ججز کے ساتھ ساتھ ریٹائرڈ بیورو کریٹس اور ٹیکنوکریٹس بھی چیف الیکشن کمشنر اور کمیشن کے رکن بننے کے اہل ہوں گے، جبکہ چیف الیکشن کمشنر کے عہدے کے لیے عمر کی حد 68 سال اور رکن کے لیے 65 سال کردی گئی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: قومی اسمبلی: آئین میں 22 ویں ترمیم کا بل منظور

آئینی ترمیم میں عمر کی حد مقرر کیے جانے کے بعد الیکشن کمیشن کے 4 صوبائی اراکین میں 2 اسی سال، اپنی پانچ سالہ مدت ملازمت میں سے صرف ڈھائی سال مکمل کرکے ریٹائر ہوجائیں گے۔

سینیٹ کے اجلاس میں وزیر قانون زاہد حامد کی جانب سے آئینی ترمیم کا بل پیش کیے جانے کے بعد اس پر عام بحث ہوئی، جس دوران سینیٹرز نے آخری وقت میں بل پیش کیے جانے پر حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا، تاہم اس کے باوجود انہوں نے بل کی حمایت میں ووٹ کیا۔

پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے بل کی منظوری کے باوجود ماہرین کا ماننا ہے کہ نئے الیکشن کمیشن اراکین کی تعیناتیوں کے حوالے سے حکومت اور اپوزیشن میں ناموں پر اتفاق ہونا تقریباً ناممکن ہے۔

بل منظوری کے دوران تنازع

سینیٹ سے آئینی ترمیم کے بل کی منظوری میں تنازع بھی دیکھنے میں آیا۔

بل کی منظوری کے لیے 104 اراکین کے ایوان میں کم از کم 70 کا موجود ہونا ضروری تھا، تاہم سینیٹر محسن لغاری کی جانب سے بل کے شق بہ شق جائزے اور اس کی 3 شقوں کی مخالفت نے بل کی منظوری کو متنازع بنا دیا۔

چیئرمین سینیٹ رضا ربانی نے اعلان کیا کہ بل کی حمایت میں 69 اراکین نے ووٹ دیا، جبکہ ایک رکن نے بل کی تین شقوں کے خلاف ووٹ دیا۔

سینیٹر بابر اعوان نے بعد ازاں میڈیا سے گفتگو کے دوران بل کی منظوری کو ’غیر آئینی‘ قرار دیا، کیونکہ بل کی 3 شقوں کو اراکین کی دو تہائی اکثریت کی حمایت حاصل نہیں ہوئی۔

ڈرون حملے پر بحث

اجلاس کے دوران بعد ازاں اراکین نے بلوچستان میں حالیہ ڈرون حملے کے حوالے سے بحث میں حصہ لیتے ہوئے، امریکا کی جانب سے پاکستان کی خودمختاری کی خلاف ورزی پر تنقید کی اور ساتھ ہی طالبان امیر ملا اختر منصور کی پاکستانی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ کے ہمراہ پاکستان میں موجودگی پر سوال اٹھایا۔

مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے ڈرون حملے پر بحث سمیٹتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے ڈرون حملوں کا معاملہ عالمی انسانی حقوق کونسل میں اٹھانے کا فیصلہ کیا ہے۔

یہ خبر 3 جون 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔


آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔

تبصرے (1) بند ہیں

Israr Jun 04, 2016 01:14am
ڈروں حملہ پر بحث مثبت پیش رفت رہی ارکان نے ملا منصور کو پاکستانی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ کی اجراء کی بات کرکے اچھی روایت قائم کی ایسے سنجیدہ معاملات زیربحث لانا بہت اچھی روایت ھے باقی 22 ویں ترمیم پاس سمجھی جائیگی کیونکہ چیرمین سینٹ نے منظور ھونے کی رولنگ دی ھے یہ ترمیم اب پاس ھوچکی ھے اور ائین کا حصہ بن چکی ھے

کارٹون

کارٹون : 21 دسمبر 2025
کارٹون : 20 دسمبر 2025