فائل فوٹو۔۔۔۔۔

پاکستان نے بعض عجیب و غریب واقعات میں عالمی ریکارڈ قائم کردیے ہیں۔ گزشتہ برس تیز ترین رفتار سے چپاتی پکانے اور ایک نوجوان لڑکی کے صرف پندرہ سیکنڈ کے اندر شطرنج کی بساط پر مہرے بٹھانے جیسے واقعات کو گنیز ورلڈ ریکارڈ میں جگہ ملی تھی۔

لیکن سنیچر کو ایشیائی ترقی بینک کے اسپانسر کردہ جس کارنامے کو گنیزورلڈ ریکارڈ میں جگہ ملی وہ زیادہ بامقصد تھا: ٹھٹھہ ضلع کے ڈیلٹائی خطے میں، ایک دن کے اندر تِمر (مینگروز) کے ساڑھے سات لاکھ پودے لگائے گئے۔

تِمر ہمارے ماحولیاتی نظام کا وہ لازمی قدرتی حصہ ہے، جس کے لاکھوں درخت تباہ ہوچکے تاہم معدومی سے دوچار ایک قدرتی ورثے کو بچانے کے لیے اس طوفانی اقدام نے کئی سوالوں کو جواب دیے بنا ہی چھوڑ دیا ہے۔

مثال کے طور پر سن دو ہزار نو میں، کیٹی بندر میں پانچ لاکھ چالیس ہزار تِمرپودوں کی شجر کاری کر کے گنیز ورلڈ ریکارڈ قائم کیا گیا تھا، اُن پودوں کا کیا ہوا؟ زیادہ تر کے بارے میں یہ یقین کیا جاتا ہے کہ وہ تباہ ہوچکے۔

ہم یہ بھی پوچھنا چاہیں گے اس حالیہ مشق کا سائنسی بنیادوں پر کتنا خیال رکھا گیا اور شجر کاری کے لیے بعض عناصر، جیسے اونچی لہروں، زمین کے معیار وغیرہ پر کتنا سوچ و بچار کیا جاسکا تھا۔

یہ ایک بڑی کاوش ہے اور توقع کرتے ہیں کہ ثمرآور بھی ثابت ہوگی لیکن اگر تِمر کی بحالی اور بقا کے لیے نئی شجر کاری پر پر شکوک  شبہات برقرار رہے تو پھر تمام جوش و جذبہ اور محنت اکارت چلی جائے گی، جو قابلِ افسوس ہوگا۔

تِمر سمندر کے حیاتیاتی وسائل کی محفوظ پناہ گاہ اور چھوٹی مچھلیوں اور جھینگوں کی افزائشی نرسری ہے۔

 بدقسمتی کی بات یہ ہےکہ شجرکاری کی اس مشق کے  پیچھے جو روح کارفرما رہی وہ کراچی کے حوالے سے نظر نہیں آتی جہاں زمین پر قبضے اور تعمیرات کرنے والے اس بیش قیمت قدرتی وسیلے کو بے دریغ تباہ و برباد کرتے چلے جارہے ہیں لیکن ان کے ہاتھ روکنے والا کوئی نہیں۔

تِمر کے فوائد اچھی طرح جانے جاتے ہیں: یہ سمندری موجوں، طوفانوں اور سومانی جیسی آفات کے خلاف قدرتی ڈھال ہے اور شہری علاقوں میں ہوا کی آلودگی میں کمی کے لیے قدرت کا عطا کردہ فِلٹر ہے۔

صرف یہی نہیں، تِمر ساحلی کمیونٹی کے وسیلہِ معاش کا بھی ایک اہم عنصر ہے۔ ان وجوہات کی بنا پر ماحولیات کے حوالے سے تشویش کو پالیسی سازی میں زیادہ جگہ ملنی چاہیے۔

تبصرے (0) بند ہیں