لوح میگزین: اردو ادب میں علم و ادب کا ایک چراغ
برصغیر پاک و ہند میں علمی و ادبی خدمات کے تناظر میں رسائل و جرائد کی کلیدی اہمیت رہی ہے، مگر عہدِ حاضر میں ٹیکنالوجی کی آمد اور مہنگائی کے اثرات نے اس روایت پر کاری ضرب لگائی اور معیاری ادبی رسائل و جرائد بند ہونے لگے۔
کسی نے جرات رندانہ کی بھی تو چند گام پر حوصلہ جواب دے گیا۔ اس کے باوجود شعر و ادب کی محبت میں چراغ روشن کرنے والے اِدھر آ نکلتے ہیں، جہاں اب خاموشی کا اندھیرا چھایا رہتا ہے۔ ان دنوں اردو ادب میں علم و ادب کا ایک نیا چراغ روشن ہے جس سے قارئین کو روشناس کروانے کے لیے آج کی تحریر اس تازہ ادبی جریدے کے متعلق ہے۔
اس جریدے کا نام ’لوح‘ ہے، جس کی نسبت پاکستان کے قدیم تعلیمی ادارے گورنمنٹ کالج لاہور سے ہے۔ راولپنڈی سے شایع ہونے والے اس جریدے کے مدیر ممتاز احمد شیخ ہیں، جن کا پیشہ تجارت مگر شوق ادب ہے، خود بہت اچھے شاعر بھی ہیں۔
اس جریدے کے اجرا کے ذریعے انہوں نے اپنی ذات کے دو پہلوؤں کی تشنگی کو سیراب کرنے کی سعی کی۔ اول یہ کہ مادرِ علمی کو یاد رکھنے کا بہانہ پیدا کیا، دوم یہ کہ اردو ادب کی خدمت کی جائے، اس بنا پر ایسے پرچے کا اہتمام کیا، جو صرف مادی لحاظ سے ہی معیاری اور دیدہ زیب ہی نہیں بلکہ متن و موضوعات کے اعتبار سے بھی توشہ خاص ہے۔
اس جریدے میں فکشن اور نان فکشن دونوں اصناف ادب کو شامل کیا جاتا ہے۔ ابواب کی شہ سرخیوں کو شعری اندازمیں لکھا جاتا ہے۔ یہ طریقہ روایتی فہرست نگاری سے مختلف ہے، اس لیے قارئین کی دلچسپی میں اضافہ کرتاہے۔
لوح کے اب تک تین شمارے شایع ہوچکے ہیں، جن میں پاکستان اور بیرون ملک سے اہم لکھنے والے شامل ہیں۔ اس کا پہلا شمارہ اکتوبر 2014 میں چھاپا گیا، دوسرے شمارے کی اشاعت جنوری 2015 کو ہوئی، جبکہ تیسرا شمارہ اپریل 2016 کو شایع ہوا۔ کتابی سلسلے کے طور پر شایع ہونے والے اس جریدے کے ہر شمارے میں قلم کاروں کی فہرست میں نوجوان نسل کے لکھنے والوں سے لے کر سینیئر تخلیق کاروں تک سب کے فن پارے شامل اشاعت ہوتے ہیں۔
پہلے شمارے میں شامل کہانیوں میں ایک خوبصورت کہانی نے دل کو چھو لیا۔ یہ مسعود مفتی کی کہانی ہے، جس کا عنوان ’دو اینٹوں کی کہانی‘ ہے۔ اس کہانی کا مرکزی خیال بہت عمدہ ہے، جس میں دو اینٹوں کو آپس میں مکالمہ کرتے دکھایا گیا ہے۔
دیوار میں نصب ان دونوں اینٹوں میں سے ایک کا رخ کالج کے اندر کی طرف تھا اور دوسری کا باہر کی طرف۔ پھر کالج کی دیوار کی تزئین کا کام کیا جاتا ہے، جس کے نتیجے میں اندر والی اینٹ کا رخ باہر کی طرف اور باہر والی اینٹ کا رخ اندر کی طرف ہوجاتا ہے، ان دونوں کے لیے یہ تبدیلی تباہ کن ثابت ہوتی ہے، بہت کچھ بدل چکا ہوتا ہے۔
مصنف نے بہت ہی خوب طریقے سے ان کیفیات کو رقم کیا ہے اور آخر میں لکھا ہے کہ ’’کیا اینٹیں بھی صدمے سے مرسکتی ہیں؟‘‘ جن عمارتوں سے ہماری جذباتی وابستگی ہوتی ہے، ان کے تناظر میں یہ عہدِ حاضر کی ایک انتہائی تخلیقی اور شاندار کہانی ہے۔
سرمد صہبائی کا لکھا ہوا ڈراما بھی عمدہ ہے۔ زاہدہ حنا کا ’’سفرنامہ روس‘‘ اور اعتراز احسن کی سوانح پڑھنے کی چیزیں ہیں۔ غزلوں کے باب میں ظفر اقبال، انور شعور اور صابر ظفر کی غزلیں تازگی کا رنگ لیے ہوئے ہیں۔ نظموں کے حصے میں گلزار کی نظموں میں سے ایک نظم کا اقتباس کچھ یوں ہے کہ ۔۔۔
سوئیاں گھڑی کی پھر پریڈ کرتے کرتے
اپنا دائرہ چکا گئیں
وقت پھر گزر گیا
تم سے اِک قرار کی اُمید پھر سے ٹل گئی
اسی طرح دیگر نظموں میں ریاض مجید کی ’ویران ایئرپورٹ‘، انوار فطرت کی ’مگر یہ خواب ہیں میرے‘، فرخ یار کی ’زنجیر ہلتی ہے‘ اور دیگر شعرا کی نظمیں عمدہ ہیں۔
ابرار احمد کی معروف مغربی شاعرہ اور ادیبہ ’سلویا پلاتھ‘ کے لیے لکھی گئی نظم بھی لاجواب ہے۔ نصیر احمد ناصر کے ہاں عہدِ جدید کے موضوعات اور لفظیات کا برتاؤ بہت عمدہ ہے۔ ان کی نظم ’ٹاور آف سائیلنس‘ سے یہ اقتباس ملاحظہ کیجیے۔
سنو اُس درد کی آواز کو
جب ہم نہیں ہوں گے
ہمارا ذکر ہوگا
نوعِ انسانی میں
سیاروں، ستاروں کی کہانی میں
زمیں کی بے زمینی میں، زماں کی بے زمانی میں
خدا کی لامکانی میں
ہماری دُم بچے گی بس
کسی خاموش ٹاور کی نشانی میں!
اسد محمد خان کی کہانی ’آتش فشاں اور مدفون شہر‘ تاریخی رنگ میں رنگے ادب کی یاد تازہ کرتی ہے۔ رشید امجد کی کہانی ’وقت کے کوڑے دان میں‘ تجریدی ترکیب میں لکھی گئی کہانی کا شاندار نمونہ ہے۔
مضامین میں ناصر عباس نیئر کا مضمون ’مجید امجد کی نظم کی جمالیات‘ خاصے کی چیز ہے۔ اس شمارے میں نظمیں اور غزلیں مختلف ابواب میں تقسیم کر کے چھاپی گئی ہیں۔ یہ انداز درست نہیں، ایک کڑا انتخاب کر کے ایک ہی جگہ ان کو چھاپنا چاہیے۔ اس طرح رسالے کی ضخامت کم ہوگی اور معیار کا تناسب بلند ہوگا۔ بہت سارے نام شاعری اور مضمون نگاری میں ایسے شامل کیے گئے ہیں، جن کی تخلیقی حیثیت شعر و ادب میں مشکوک ہے۔
لوح کے دوسرے شمارے میں سب سے مثبت بات یہ دیکھنے میں آئی کہ کاغذ کا معیار بہتر ہو گیا اور ابواب کی تقسیم کو رنگین صفحات کے ذریعے بہتر کر لیا گیا۔ اس شمارے میں پاکستان کے معروف ادیب امتیاز علی تاج اور جسٹس جاوید اقبال کی تحریریں بہت عمدہ ہیں جن کو انہوں نے اپنی مادر علمی کی یادوں سے مزین کیا ہے۔
یاد رفتگاں کے طور پر پاکستان کے معروف ناول نگارعبداللہ حسین اور پہلی پاکستانی شاعرہ ادا جعفری کو شامل کیا گیا۔
ادا جعفری کی ایک مشہور زمانہ غزل کا اقتباس ملاحظہ کیجیے۔
ہونٹوں پہ کبھی ان کے میرا نام بھی آئے
آئے تو سہی برسرِ الزام ہی آئے
باقی نہ رہے ساکھ ادا دشتِ جنوں کی
دل میں اگر اندیشہ انجام ہی آئے
خود نوشت کے طور پر محمد اظہارالحق کی بنگلہ دیش کے تناظر میں یادیں بہت اہم تحریر ہے۔ ابدال بیلا، محمد الیاس اور عاصم بٹ کی کہانیوں کے نئے پن نے توجہ اپنی طرف مبذول کروائی۔ عاصم بٹ کی کہانی 'اسکرپٹ' سے اقتباس ملاحظہ کیجیے۔
"تمہیں ایک عاشق کا کردار ادا کرنا ہے۔ یہ بات، اگر تمہیں یاد ہو، بہت پہلے، اس سفرکے آغاز سے بھی پہلے، جب تمہارے تعارف نے ہماری یادداشت پر پہلی دستک دی تھی، اس سے بھی پہلے، تمہارے گوش گزار کر دی گئی تھی۔ چاہو تو اسکرپٹ دیکھ لو۔ تمہارے گلے میں سوتی تھیلا لٹکا ہوا ہے۔ اسی میں ہے۔"
نظموں کے باب میں افتخار عارف کی نظم ہمارے ملک اور دل کے حالات پرحسب حال ہے۔ مختصر مگر جامع نظم ملاحظہ کیجیے۔
دل کہتا تھا
درد کی شدت کم ہوگی، تب شعر لکھیں گے
موت کی دہشت کم ہوگی تب شعر لکھیں گے
درد کی شدت کم نہیں ہوتی
موت کی دہشت کم نہیں ہوتی
بین، فغاں، فریادیں، ماتم
راتوں کو سونے نہیں دیتے
جی بھر کے رونے نہیں دیتے
سو لیں گے تب شعر لکھیں گے
رو لیں گے تب شعر لکھیں گے
اسی باب میں ایوب خاور کی نظم ’زندگی لعنت ہو تم پر‘، جواز جعفری کی لاہور کے بارے میں لکھی ہوئی نظم ’یہ شہر مر رہا ہے‘، میں نیا اور تازہ بیانیہ ہے۔
مضامین کے باب میں ڈاکٹر رؤف پاریکھ کا مضمون ’صحافت کی زبان اور اردو املا: چند معروضات‘ پڑھ کر لسانیات میں دلچسپی رکھنے والوں کے لیے کافی کچھ ہے۔ تراجم کے باب میں کلامِ امیر خسرو، رابرٹ گیٹس کی تحریر ’جنگ میں مصروف ایک سیکرٹری کی داستان‘ خاصے کی شے ہے۔ میڈم نور جہاں کے حوالے سے ڈاکٹر امجد پرویز کی تحریر بھی معلوماتی ہے۔
’لوح‘ کا حال ہی میں شایع ہونے والا تیسرا شمارہ بھی اپنے متن میں شعر و ادب کے بہت سارے موتیوں سے مالامال ہے۔ مادرِ علمی کے باب میں ڈاکٹر وزیرِ آغا کی تحریر بہت عمدہ ہے۔ یادِ رفتگاں کے باب میں انتظار حسین کے حوالے سے گوشہ قائم کیا گیا۔ شعر و ادب کے محسنوں کو یاد کرنا اچھی روایت ہے جسے قائم رہنا چاہیے۔
نظموں کے باب میں ابرار احمد کی نظم عالمی حالات حاضرہ کی بہترین عکاسی کرتی ہے، بعنوان ’ایلان کردی کی خودکلامی‘ اس نظم سے اقتباس ملاحظہ کیجیے۔
بہت دیر تک
پانیوں نے تھپک کر سلایا مجھے
اسی ریت پر
جس پر اب میں پڑا
اپنی پھیلی ہوئی پتلیوں میں
خدا دیکھتا ہوں
خدا ۔۔۔ جس نے بھیجا مجھے
اس زمیں پر
اسی ایک دن کے لیے !
علی محمد فرشی، سعادت سعید، تنویر انجم، نجیبہ عارف، فہیم شناس کاظمی اور فریحہ نقوی کی نظموں اور خورشید رضوی، جلیل عالی، سلیم کوثر، لیاقت علی عاصم اور قاسم یعقوب کی غزلوں میں انفرادیت اور تازگی کا احساس موجود ہے۔
مبین مرزا کی کہانی ’واٹس ایپ‘ نئے عہد کا عمدہ اظہاریہ ہے۔ طاہرہ اقبال اور اجمل اعجاز، زیب اذکار حسین اور سیمیں کرن کی کہانیاں بھی دل کو چھو لینے والی ہیں۔ مستنصر حسین تارڑ کے زیرِ تکمیل ناول ’اور سندھ بہتا رہا‘ سے ایک باب ’مین فرام موہنجودڑو‘ ایک نایاب تحریر ہے، جس کو اس شمارے میں شامل کیا گیا۔ اس ناول سے ایک اقتباس ملاحظہ کیجیے۔
"موہنجو دڑو کے کھنڈروں سے پرے ڈھلتے ہوئے سورج میں زرد ہوتا، دریائے سندھ تھا۔ یہی میرا شہرِ تمنا تھا، شہرِ آرزوتھا۔ مجھے کچھ خبر نہ تھی کہ موہنجو دڑو ایک نہیں، کئی شہر ہوا کرتے تھے۔ اُس کی مرکزی پہچان اسٹوپا کی کھنڈر ہوچکی عظمت رفتہ کے آس پاس تین اور کھنڈر ہوچکے شہر تھے۔ ایک دوسرے پر انحصار کرتے الگ الگ اور وہ اس شہر بے مثال کو مکمل کرتے تھے۔"
مضامین کے باب میں ڈاکٹر انوار احمد کی تحریر، کتب کے متعلق ڈاکٹر ممتاز احمد خان کا معروف ڈرامانگار اور ناول نگار یونس جاوید کے نئے ناول ’کنجری کے پُل‘ پر تبصرہ قابل مطالعہ ہے۔ صدف مرزا اور شاہد حنائی کے تراجم بھی اچھے ہیں۔
مزاح میں ایس ایم معین قریشی کے علاوہ کسی کی تحریر دکھائی نہیں دی۔ گفتنی اور ناگفتنی میں اس جریدے کے متعلق ہونے والے تبصرے اور مدیر کوموصول ہونے والے خطوط شامل کیے گئے ہیں، جن میں سے کئی اہم شخصیات نے اس جریدے کے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔
تمام شماروں کا جائزہ لینے کے بعد بہت ساری خوبیوں کے ساتھ ساتھ چند خامیاں بھی سامنے آئیں، جن میں جریدے کی ضخامت، غیر معیاری لکھنے والوں کی شمولیت، متن کے تناظر میں کئی اضافی موضوعات کا شامل کیا جانا شامل ہے، مدیر ضرور ان پہلوؤں پر توجہ کریں گے تاکہ یہ جریدہ پابندی سے شایع ہوتا رہے اور اس کے معیار میں مزید اضافہ ہوسکے۔ یہ جریدہ گزرتے وقت کے ساتھ اپنی دلکشی میں اضافہ کر رہا ہے، یہ بہت مثبت سرگرمی ہے، جس کو جاری رہنا چاہیے۔












لائیو ٹی وی
تبصرے (1) بند ہیں