ترکی میں کب کب فوجی حکومت بنی؟

اپ ڈیٹ 16 جولائ 2016
ترکی 4بارفوجی بغاوتوں کا سامنا کرچکا ہے — فائل فوٹو: اے پی
ترکی 4بارفوجی بغاوتوں کا سامنا کرچکا ہے — فائل فوٹو: اے پی

ترکی میں منتخب حکومت کا تختہ الٹنے کی حالیہ کوشش تو ناکامی سے دوچار ہوئی لیکن اس سے پہلے بھی ترکی کی 4 منتخب حکومتیں فوجی بغاوت کا شکار ہو چکی ہیں۔

موجودہ صدر رجب طیب اردگان کی جماعت جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی 14 برس سے اقتدار میں ہے۔

جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی 2002 میں پہلی بار اقتدار میں آئی، جس کے بعد 2007 اور 2010 کے انتخابات میں بھی اسے ہی کامیابی حاصل ہوئی۔

اس دوران 2 بڑی فوجی بغاوتیں ناکام بنانے کا اعلان کیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں:جب ترک عوام نے فوجی بغاوت ناکام بنائی

2013میں بھی فوجی بغاوت کو کچلا گیا جبکہ 2015 میں ترک کرنسی گرنے لگی تو فوجی بوٹ آنے کی صدائیں بلند ہوئی تھیں۔

ترکی میں پہلی فوجی بغاوت 1960 ہوئی، جب جنرل کمال گروسیل نے حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان کشیدگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے منتخب حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا، اس بغاوت کے بعد منتخب وزیراعظم عدنان میندرس کو 1960 میں پھانسی دی گئی، انہوں نے اپنی وزارت عظمی کے دور میں ملک میں آذان پر عائد پابندی ختم کی تھی جبکہ زرعی شعبے میں ترقی کے کئی اقدامات کیے تھے۔

مزید پڑھیں:ترکی میں فوجی بغاوت ناکام، 194افراد ہلاک

دوسری بارمارچ 1971 میں ترک فوج نے حکومتی امورمیں مداخلت کی اور چیف آف جنرل اسٹاف ممدوح تغمگ نے وزیراعظم سلیمان ڈیمرل کو خط لکھ کر طرزحکومت بہتر بنانے کی ہدایت کی، جس پر سیلمان ڈیمرل نے اقتدار سے علیحدگی اختیار کر لی تھی، تاہم ملک کئی سال تک سیاسی عدم استحکام کا شکار رہا۔

1980 میں جنرلز کے گروپ نے حکومت کا تختہ الٹنے کی منصوبہ بندی شروع کی اور ستمبر میں ترکی میں تیسری مرتبہ مارشل لاء نافذ کیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں:ترکی بغاوت: 'بھائی کو بھائی کا خون نہیں بہانا چاہیے'

یہ سب سے بدترین مارشل لاء کہلاتا ہے، کیونکہ اس میں ایک اندازے کے مطابق 5 لاکھ افراد کو گرفتار کیا گیا تھا جبکہ کئی افراد کو پھانسیاں بھی دی گئی۔

ایک آئینی ترمیم کے ذریعے 2010 میں ترک عدالتوں نے 1980 کی بغاوت پر 3 جنرلز سمیت 300 سے زائد فوجی اہلکاروں کو سزائیں بھی سنائیں، ان بغاوتوں پر جنرلز کو 20-20 سال قید کی سزادی گئی، لیکن چونکہ ان کی عمریں 80 سال سے زائد تھیں، لہذا اپیل پر ان کو معاف کر دیا گیا۔

ترک فوج نے چوتھی مرتبہ 1997 میں اسلامک ویلفیئرپارٹی کی سربراہی میں بننے والی مخلوط حکومت کا تختہ الٹ کر مارشل لاء لگایا، اس کے بعد اس سیاسی جماعت کا وجود ختم ہو گیا تھا، جبکہ معزول ہونے والے وزیراعظم نجم الدین اربکان پر سیاست میں حصہ لینے پر پابندی بھی عائد کی گئی۔

مزید پڑھیں:ترکی : آرمی چیف بازیاب،فوجی بغاوت کا باب ہمیشہ کیلئے بند

موجودہ صدر رجب طیب اردگان بھی اسلامک ویلفیئر پارٹی کے رکن تھے جنہوں نے بعد ازاں جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی (اے کے پی) بنائی جو کہ 2002 سے برسراقتدار ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں