اسلام آباد: پاکستان نے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی جانب سے توسیعی فنڈ سہولت کے تحت 6.64 ارب ڈالر کے حصول کے لیے 12 میں سے 11 سہ ماہی جائزے تو کامیابی سے مکمل کرلیے ہیں تاہم قرض کی آخری قسط کے حصول کے لیے حکومت کو دو نئی شرائط پر عمل کرنا ہوگا۔

آئی ایم ایف کی ان دو شرائط پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے آئی ایم ایف کا 36 ماہ پر مشتمل پروگرام، جو 3 ستمبر کو ختم ہونا تھا، اب 30 ستمبر کو ختم ہوگا۔

آئی ایم ایف کی شرائط میں شامل ساختیاتی بنچ مارکس کے حصول کے بعد ہی پاکستان 10 کروڑ 30 لاکھ ڈالر کی قسط کا اہل ہوگا۔

یہ بھی پڑھیں: آئی ایم ایف سے 50 کروڑ 10 لاکھ ڈالر کی قسط جلد ملنے کا امکان

حکومت مارچ 2016 کے آخر تک آئی ایم ایف کی گائیڈ لائنز کے تحت ڈپوزٹ پروٹیکشن فنڈ لاء کے نفاذ میں ناکام رہی ہے جبکہ فیصل آباد، اسلام آباد اور لاہور کی بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کے لیے نرخوں کے نوٹیفیکیشن کے اجراء کی اپریل 2016 کی ڈیڈ لائن بھی ختم ہوگئی ہے۔

ڈپوزٹ پروٹیکشن فنڈ لاء کا نفاذ اب 15 اگست تک کیے جانے کی توقع ہے۔

حکومت نے کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) کی جانب سے فیصلے کے باوجود مذکورہ تقسیم کار کمپنیوں کے ٹیرف کا نوٹیفکیشن جاری کیا اور نہ ہی 15 جولائی تک کوٹ ادو پاور کمپنی کے حصص کی فروخت کلیےاظہار دلچسپی کے اشتہاردیئے تھے۔

آئی ایم ایف نے خبردار کیا ہے کہ پاکستانی معیشت کو بدستور خطرات درپیش ہیں اور مستقبل میں شرح نمو اور معاشی استحکام کا انحصار اصلاحاتی پروگرام کو جاری رکھنے پر ہوگا۔

آئی ایم ایف کا مزید کہنا ہے کہ ڈالر کی قدر اور شرح تبادلے میں اضافے کی وجہ سے برآمدی مسابقت کو نقصان پہنچے گا اور چین، خلیجی ممالک اور دیگر ابھرتی ہوئی معیشتوں کی شرح نمو میں سستی کی وجہ سے برآمدات، ترسیلات زر اور براہ راست بیرونی سرمایہ کاری بھی کمزور ہوسکتی ہے۔

مزید پڑھیں: ’آئی ایم ایف ملکی خودمختاری پر ضرب لگاتی ہے‘

اس کے علاوہ سخت عالمی مالیاتی صورتحال سرمائے کی آمد پر منفی اثرات ڈال سکتا ہے جبکہ توقع سے زیادہ تیز تیل کی عالمی قیمتوں میں اضافے سے خارجی حالت خراب ہوسکتی ہے۔

عام طور پر اگر کوئی حکومت آئی ایم ایف کے کسی پروگرام کے 9 میں سے 7 اسٹرکچرل بنچ مارکس (ایس بی) کو حاصل کرلے اور حکومت اصلاحاتی ایجنڈا پر عمل پیرا رہنے کے لیے پر عزم ہو تو آئی ایم ایف اس سے مطمئن ہوجاتا ہے۔

آئی ایم ایف، اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی خودمختاری میں اضافے، ٹیکس محصولات، ٹیکس نظام میں بہتری اور توانائی کے شعبے میں دی جانے والی سبسڈیز میں کمی جیسے اقدامات سے مطمئن ہے۔

آئی ایم ایف کے ساتھ ہونے والے مذاکرات کی روشنی میں 17-2016 کے بجٹ میں مالیاتی استحکام کو یقینی بنانے کے لیے خسارہ مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) کا 3.8 فیصد رکھا گیا ہے۔

آئی ایم ایف نے حکام کو مشورہ دیا ہے کہ غیر ملکی زر مبادلہ کے ذخائر میں مسلسل اضافے، اسٹیٹ بینک کی خودمختاری کو مزید مستحکم کرنے اور شرح تبادلہ میں مزید لچک پیدا کرنے کے لیے اقدامات جاری رکھے جائیں۔

یہ بھی پڑھیں:آئی ایم ایف سے مذاکرات کامیاب

آئی ایم ایف پاکستان میں پالیسی ریٹ میں ہونے والی کمی سے خوش نہیں ہے اور مرکزی بینک کو خبردار کیا ہے کہ وہ پالیسی ریٹ کے حوالے سے موقف سخت کرے اور میکرو اکنامک استحکام کو سپورٹ کرنے کے لیے تیار رہے۔

حکومت اور آئی ایم ایف کے درمیان حالیہ مذاکرات میں اس بات کی تصدیق ہوگئی ہے کہ بجلی پیدا اور تقیسم کرنے والی کمپنیوں کی فروخت کا منصوبہ ترک کردیا گیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ خسارے میں چلنے والی کمپنیوں کی فروخت مستقل قریب میں ہوتی نظر نہیں آرہی۔

چنانچہ حکام پاور سیکٹر سے ہونے والی آمدنی کو بہتر بنانے کے لیے لائن لاسز اور واجب الادا رقم کی عدم وصولی کی مد میں ہونے والے نقصان کو بلوں میں نئے سرچارجز لگاکر ایماندار صارفین سے وصول کرنے پر غور کریں گے۔

اس کا اطلاق رواں ماہ ہونا تھا تاہم نیشنل الیکٹرک ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) نے بنچ مارکس میں تبدیلی کی درخواستیں مسترد کردیں۔

رواں ماہ کے اختتام سے قبل حکومت قدرتی گیس کے نرخوں میں تبدیلی کے حوالے سے بلوں میں ششماہی ایڈجسمنٹس کا سلسلہ دوبارہ شروع کرسکتی ہے جو گزشتہ برس عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں کمی کی وجہ سے معطل کردیا گیا تھا۔ یہ اقدام گیس فراہم کرنے والی کمپنیوں کے خسارے میں کمی کیلئے اہم ہوگا۔

یہ خبر 18 جولائی 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی


ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں