Dawnnews Television Logo

’اسلحہ بننا بند، زندگی مشکل‘

درہ آدم خیل کے اسلحہ بازار میں کلاشنکوف اسمارٹ موبائل فون سے سستی ہے، جو 125 ڈالر یعنی 13ہزار روپے میں مل جاتی ہے۔
اپ ڈیٹ 28 جولائ 2016 01:12pm

ایک وقت تھا کہ جب درہ آدم خیل کے مرکزی بازار میں اسلحہ فروخت کرنے کی 7ہزار دکانیں ہوا کرتی تھیں جبکہ یہاں موجود اسلحے کے چھوٹے چھوٹے کارخانوں میں یومیہ کم از کم 10 ہتھیار تیار ہوتے تھے لیکن حکومت کی سخت پالیسی اور فوجی آپریشن کے بعد ہتھیاروں کا کاروبار تیزی سے خاتمے کی جانب بڑھ رہا ہے۔

خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور سے 35 کلو میٹر دور آدھے گھنٹے کی مسافت پر درہ آدم خیل واقع ہے، یہ علاقہ ایک زمانے میں جرائم پیشہ افراد کا گڑھ رہ چکا ہے لیکن اب یہاں صورتحال یکسر مختلف ہوتی جا رہی ہے، پہلے پورا علاقہ اسلحے کی مارکیٹ معلوم ہوتا تھا جبکہ اب اس کے مرکزی بازار میں دکانیں برقی آلات، اشیائے ضروریہ اور دیگر سامان سے بھری نظر آتی ہیں۔

80ء کی دہائی میں افغانستان میں سویت یونین کے خلاف جنگ جاری تھی، اس وقت افغان مزاحمت کار درہ آدم خیل سے ہی ہتھیار خریدتے تھے، اس وقت یہاں ہر قسم کے ہتھیاروں کی نقل تیار کرنا ایک عام سی بات تھی، جس کے لیے یہاں کاریگروں کی ایک کھیپ موجود تھی جو کئی نسلوں سے ہتھیار تیار کرنے کی ماہر تھی۔

افغان جنگ کے بعد یہ علاقہ منشیات کے اسمگلروں، چوری کی کاروں کی خرید وفروخت کرنے والوں اور پھر یونیورسٹیوں کی جعلی ڈگریاں بنانے کا گڑھ بھی بننا شروع ہوا۔

افغانستان کے ساتھ سرحد پر واقع ہونے کی وجہ سے طالبان کے لیے اس علاقے میں آنا اور یہاں سے واپس جانا کوئی مسئلہ نہ تھا، 2009 میں وہ اس علاقے کو اپنا مضبوط گڑھ بھی بنا چکے تھے اور یہاں پولینڈ کےانجینیئر پویٹر ستنزک کا قتل بھی انہوں نے ہی کیا تھا۔

اب درہ آدم خیل پاکستان کی سیکیورٹی فورسز کے کنٹرول میں ہے، یہاں سے عسکریت پسندوں کا خاتمہ کیا جا چکا ہے جبکہ اس علاقے کے داخلی اور خارجی راستوں پر چوکیاں بنائی جا چکی ہیں۔

کئی دہائیوں سے اسلحے کی تیاری اور فروخت کے کاروبار سے وابستہ افراد کا کہنا ہے کہ بازار کی سیکیورٹی تو بہت بہتر ہو گئی ہے لیکن سیکیورٹی اداروں کے جوان کسی بھی قسم کے غیر قانونی ہتھیاروں کے حوالے سے نرمی نہیں دکھاتے، یہاں تو ہتھیاروں کے کاروبار کی وجہ سے ہی لوگ گزر بسر کرتے تھے۔

درہ آدم خیل کی اسلحہ مارکیٹ میں تیار ہونے والی ایم پی فائیو — فوٹو : اے ایف پی
درہ آدم خیل کی اسلحہ مارکیٹ میں تیار ہونے والی ایم پی فائیو — فوٹو : اے ایف پی

درہ آدم خیل کے 45 سالہ خطاب گل نے بتایا کہ حکومت نے اب پر جگہ چوکیاں بنا دی ہیں جس کی وجہ سے کاروبار ختم ہو گیا ہے۔

خطاب گل درہ آدم خیل کی اسلحہ مارکیٹ میں ترک اور بلغاریہ کی مشہور آٹو میٹک گن ایم پی فائیو (MP5) کی نقل بنانے کے لیے مشہور ہیں، ایم پی فائیو دنیا کی مشہور ترین رائفلز میں شمار ہوتی ہے جبکہ امریکا کی خفیہ ایجنسی ایف بی آئی (فیڈرل بیورو آف انویسٹی گیشن) اور SWAT (سپیشل ویپنز اینڈ ٹیکٹکس) بھی یہی رائفلز استعمال کرتی ہیں۔

خطاب گل اپنی ورکشاپ میں تیار کی گئی ایم پی فائیو دکھا رہے ہیں — فوٹو : اے ایف پی
خطاب گل اپنی ورکشاپ میں تیار کی گئی ایم پی فائیو دکھا رہے ہیں — فوٹو : اے ایف پی

ایم پی فائیو عام طور پر کئی لاکھ روپے میں دستیاب ہوتی ہے لیکن خطاب گل کا کہنا تھا کہ درہ آدمی خیل کی مارکیٹ سے ایک سال کی وارنٹی کے ساتھ یہ صرف 7 ہزار روپے میں دستیاب ہوتی ہے جبکہ عالمی سطح پر یہ 67 ڈالر میں دی جا سکتی ہے۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ یہ ایم پی فائیو بہترین انداز میں کام کرتی ہے۔

خطاب گل نے یہ بھی بتایا کہ اسلحے کی اس مارکیٹ میں اسمارٹ موبائل فون سے سستی کلاشنکوف ہے، کلاشنکوف 125 ڈالر یعنی 13 ہزار روپے کی ہے۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہاں کام کرنے والے کاریگر انتہائی ماہر ہیں، اس لیے وہ ہر وہ اسلحہ بنا سکتے ہیں جو ان کو دکھایا جائے۔

اس مارکیٹ میں کام کرنے والے ہر قسم کے اسلحے کی نقل بنانے کے ماہر مانے جاتے ہیں — فوٹو : اے ایف پی
اس مارکیٹ میں کام کرنے والے ہر قسم کے اسلحے کی نقل بنانے کے ماہر مانے جاتے ہیں — فوٹو : اے ایف پی

خطاب گل نے دعویٰ کیا کہ وہ 10 سال میں 10 ہزار سے زائد ہتھیار فروخت کر چکے ہیں لیکن ان کو کبھی بھی کسی اسلحے کی شکایت نہیں ملی۔

درہ آدم خیل کا مرکزی بازار آبادی سے ذرا دور ہے جبکہ اس میں اسلحے کی دکانیں ایک ساتھ بنی ہوئی ہیں جس میں کھلے عام ہتھیاروں کو فروخت کرنے کے لیے نمائش کے طور پر رکھا گیا ہوتا ہے۔

بازار میں اسلحہ نمائش کے لیے کھلے عام نظر آ رہا ہوتا ہے — فوٹو : اے ایف پی
بازار میں اسلحہ نمائش کے لیے کھلے عام نظر آ رہا ہوتا ہے — فوٹو : اے ایف پی

اس علاقے کے رہائشی بھی اس مارکیٹ کو برا نہیں جانتے کیونکہ پختون روایات میں اسلحہ رکھنا معمول سمجھا جاتا ہے۔

حالیہ برسوں میں فوج کے آپریشن کے بعد ان علاقوں میں امن عامہ کی صورتحال انتہائی بہتر ہو چکی ہے۔

فوج کے آپریشن سے قبل خطاب گل کے ورکشاپ میں بھی دیگر سیکڑوں کارخانوں کی طرح یومیہ 10 سے زائد ہتھیار تیار ہوتے تھے۔

خطاب گل کے مطابق اب ان کے ورکشاپ میں 3 سے 4 ہتھیار ہی روز بن پاتے ہیں جبکہ دیگر کارخانوں میں بھی ایسی یا اس سے بدتر صورتحال ہے۔

اس علاقے میں غیر ملکیوں کی آمد پر پابندی ہے جبکہ مقامی خریدار بھی جب اس علاقے میں آتے ہیں تو کئی چوکیوں پر ان کو روکا جاتا ہے۔

سیکیورٹی اداروں کی جانب سے اسلحے کی اس مارکیٹ پر براہ راست کسی بھی قسم کے اعتراضات نہیں کیے لیکن مقامی افراد کے مطابق کہ انہوں نے سے اداروں کو یقین دہانی کروائی ہے کہ وہ عسکریت پسندوں کو ہتھیار فروخت نہیں کریں گے جبکہ انہوں نے لائسنس کی شرط پر عمل کی بھی یقین دہانی کروائی ہے۔

اسلحے کے خریدار اب دکانوں پر شاذو نادر ہی نظر آتے ہیں — فوٹو : اے ایف پی
اسلحے کے خریدار اب دکانوں پر شاذو نادر ہی نظر آتے ہیں — فوٹو : اے ایف پی

درہ اسلحہ مارکیٹ میں گولیاں فروخت کرنے والے مزمل خان نے بتایا کہ میں پچھلے 30 سال سے اس کام سے وابستہ ہوں لیکن اب میرے لیے کام نہیں ہے۔

مزمل خان کے مطابق وہ اپنی ورکشاپ اور دکان میں موجود مشینری فروخت کرنے کے لیے تیار ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ایک وقت تھا جب اس بازار میں 7 ہزار سے زائد دکانیں ہوا کرتی تھیں لیکن اب ان میں سے آدھی بھی باقی نہیں بچی۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر حکومت نے اپنی پالیسی تبدیل نہیں کی تو مجھے لگتا ہے کہ درہ کا یہ اسلحہ بازار ختم ہو جائے گا۔

درہ آدم خیل کی ٹریڈ یونین کے رہنما بادام اکبر نے کہا کہ اسلحے کے بازار میں 3 ہزار سے زائد ہتھیاروں کی دکانیں اور ورکشاپس بند ہو چکی ہیں جبکہ دیگر بند ہوتی جا رہی ہیں۔

کئی کاریگر اب اسلحہ بنانے کا کام ترک کرکے دیگر ہنر سیکھ رہے ہیں — فوٹو : اے ایف پی
کئی کاریگر اب اسلحہ بنانے کا کام ترک کرکے دیگر ہنر سیکھ رہے ہیں — فوٹو : اے ایف پی

بادام اکبر کا کہنا تھا کہ اسلحہ بنانے کے کاریگر اب دیگر ہنر سیکھ رہے ہیں تاکہ وہ اپنے روزگار کا سلسلہ جاری رکھ سکیں۔

ہتھیار بنانے کا کاروبار ختم اور اسلحہ کی فروخت میں کمی آنے پر بادام اکبر نے کہا کہ ہمارے پاس بجلی نہیں ہے جبکہ پانی کا حصول بھی مشکل ہے اور کوئی کاروبار بھی نہیں بچا، زندگی بہت مشکل ہوتی جا رہی ہے۔

7000 میں سے 3000 سے زائد اسلحہ فروشی کی دکانیں بند ہو چکی ہیں — فوٹو : اے ایف پی
7000 میں سے 3000 سے زائد اسلحہ فروشی کی دکانیں بند ہو چکی ہیں — فوٹو : اے ایف پی