'یہ کام مسلمانوں کا نہیں'

12 اگست 2016
8 اگست 2016 کو کوئٹہ میں ہونے والے دھماکے کے بعد ہلاک شدگان کے لواحقین غم سے نڈھال ہیں۔ — فوٹو اے ایف پی/بنارس خان۔
8 اگست 2016 کو کوئٹہ میں ہونے والے دھماکے کے بعد ہلاک شدگان کے لواحقین غم سے نڈھال ہیں۔ — فوٹو اے ایف پی/بنارس خان۔

ایک اور دھماکہ، ایک اور ابنِ آتش کسی اور مقتل میں کچھ اور انسانوں کو سولی چڑھا گیا۔

مذمتوں اور تعزیتوں کا ایک اور طوفان۔ "یہ مسلمان نہیں ہو سکتے" کے بیانات کی ایک یلغار۔

اعداد و شمار بہت بے حس ہوتے ہیں۔ لیکن اگر صرف ہندسوں میں بھی اس انسانی المیے کو تولا جائے تو ہماری نااہلی کا حساب بڑھ جاتا ہے۔

میرے ایک دوست نے صرف کوئٹہ کے حوالے سے کچھ اعداد و شمار مرتب کیے ہیں۔

3 ستمبر 2010 القدس ریلی میں 59 لوگ ہلاک، 20 ستمبر 2011 شیعہ ہزارہ بس پر حملہ میں 24، جنوری 2013 ہزارہ اسنوکر کلب میں 92، فروری 2013 ہزارہ مارکیٹ دھماکے میں 89، جون 2013 میں ویمن یونیورسٹی پر حملے میں طالبات سمیت 25 افراد، اور اگست 2014 کو ہونے والے خودکش حملے میں 70 افراد ہلاک۔

یہ لاکھوں مربع میل پر مشتمل ایک وسیع و عریض ملک کے ایک چھوٹے سے شہر کے صرف گزشتہ چند سالوں میں ہونے والے بڑے حملوں کے اعداد و شمار ہیں۔ کریکر اور دستی بم حملے الگ، سکیورٹی فورسز پر ہونے والے حملے الگ، فرقہ وارانہ ٹارگٹ کلنگ کی بات الگ۔

پڑھیے: آپریشن ضرب عضب اور چچا عبدل

سب سے بڑا المیہ مگر یہ ہے کہ ہم بحیثیت قوم اس کی نوعیت نہیں پہچان سکے اور اپنے قاتلوں کی شناخت میں گبھرا گئے۔

فقہی ہم آہنگی کا مسئلہ ہے یا قومی مفادات کا خوف، بین الاقوامی سیاست کی پیچیدگیاں ہیں یا اندرونی مخاصمتوں کی بازگشت؟ ہم دستِ قاتل پر پڑے لہو کو ابھی بھی حنا کی سرخی سمجھ رہے ہیں۔

"یہ لوگ مسلمان نہیں ہو سکتے" کی تسبیح ہم اتنی بار گردان چکے ہیں کہ ہاتھوں کی لکیریں مدھم پڑ گئی ہیں۔

کہا جاتا ہے کہ سقراط جب اپنے شاگرد کے ساتھ چہل قدمی کرتے ہوئے بحث و مباحثے کرتا تھا تو اس کی پہلی شرط یہ ہوتی تھی کہ جس موضوع پر بحث کی جا رہی ہے اس کی تعریف لغوی اور اصطلاحی دونوں طرح سے کر دی جائے، زیرِ بحث مسئلے کی ماہیت کو سمجھا جائے اور دونوں جانب کی رائے کے بین السطور عوامل بھی کھل کر بیان ہوں تاکہ مسئلے کو کسی لسانی بندش سے نہ الجھایا جا سکے۔

اس جنگ میں جو سرحدوں پر نہیں بلکہ گلیوں اور محلوں میں لڑی جا رہی ہے، جس کا ہتھیار گولہ بارود کم اور رجز و فغاں زیادہ ہیں، ہم اگر کچھ نہیں کر پائے تو بنیادی حقیقتوں کی دریافت۔

یہ کہنا کہ جس نے دہشت گردی کی ہے، جو بم سینے پر باندھ کر پھٹا ہے، جس نے اس بمبار کو بھیجا ہے، جس نے اس کو تیار کیا ہے، جس نے اسے پناہ دی ہے اور جس نے اسے نظریاتی طور پر تیار کیا ہے وہ مسلمان نہیں ہو سکتا، ایک ایسا جملہ ہے جس کے کئی معنیٰ لیے جا سکتے ہیں، لغوی بھی اور اصطلاحی بھی۔

پہلے تو اصطلاحی معنوں کو لے لیں۔ کیا مراد یہ ہے کہ جس نے یہ کام کیا ہے وہ اسلام کی تعلیمات کے خلاف ہے؟ اگر ایسا ہے تو بالکل صحیح ہے.

پہلی بات تو یہ کہ جو لوگ دہشت گردی کرتے ہیں اپنے زعم میں وہ اسلام کی تعلیمات پر ہی عمل کرتے ہیں۔

مزید پڑھیے: 'جہاد سے متعلق آیات امریکی ایماء پر نصاب میں شامل کی گئیں'

داعش ہو، طالبان ہو یا القاعدہ، عوام الناس اور نہتے شہریوں کے قتل عام کے لیے ان کے دلائل کی بنیاد وہ فقہی مصادر ہیں جن میں علماء نے ریاست سے بغاوت اور معاشرے میں فتنہ پھیلانے والوں کی سزائیں مختص کی ہیں۔

مگر جمہور علما اور اسلامی معاشرے کی اکثریت کا اتفاق ہے کہ یہ روایات یا تو ضعیف ہیں، صرف وقتی حیثیت رکھتی تھیں، یا پھر بالاتفاق مسلمانوں کی ایک جائز ریاست کے اختیارات ہیں جن کو کسی بھی حوالے سے کسی بھی باغی یا خارجی گروہ سپرد نہیں کیا جاسکتا۔

اس لیے دہشت گردوں کا ان درد انگیز اقدامات کا استعمال کرنا کسی بھی لحاظ سے اسلامی تعلیمات کے مطابق نہیں ہے، اور ان اقدامات کو اسلامی نہیں کہا جاسکتا۔

اس موضوع پر بریلوی علماء بھی فتوی دے چکے ہیں، دارالعلوم دیوبند بھی متفق ہے، اہلِ تشیع علماء کی بھی یہی رائے ہے اور باقی مکاتبِ فکر کے علما بھی کم و بیش یہی کہہ رہے ہیں۔


لیکن اگر آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ جو لوگ داعش، القاعدہ یا لشکر جھنگوی سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کے نام پر معصوموں کے گلے کاٹتے ہیں، وہ معنی یا عقائد کے لحاظ سے مسلمان نہیں ہیں، تو یہ ایک غلط بیانی ہے۔

جن لوگوں نے یہ کام کیے ہیں وہ ہمارے ہی معاشرے کے فرد ہیں۔ ان میں سے کئی کو نہ صرف ان کے دوست یار پہچانتے ہیں، بلکہ ان کے انتہا پسند رجحانات کے بھی گواہ ہیں۔


یہ لوگ وہی کلمہ پڑھتے ہیں جو ایک عام مسلمان پڑھتا ہے، اسی طرح نماز، روزہ، حج، زکواۃ اور دوسری عبادات انجام دیتے ہیں جیسے ایک مسلمان انجام دیتا ہے۔ ان کے جتنے ساتھی پکڑے گئے ہیں، انہوں نے کسی بنیادی عقیدہ اور عمل میں عام مسلمانوں سے مختلف رائے نہیں ظاہر کی۔

شناخت کے لحاظ سے ان لوگوں کو مسلمانوں کے بعض مکاتبِ فکر کے پرتشدد عوامل کے طور پر جانا جاتا ہے جو اپنے اعمال کی بنیاد پر مسلمان کہلائے جانے کے مستحق تو نہیں، لیکن شناختی کارڈ کے مذہب کے خانے میں ان کا مذہب اسلام ہی لکھا جائے گا،

کیوں؟ کیوں کہ یہ اسلامی خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں، تمام اصول و فروعِ دین کی پابندی کرتے ہیں، اور ان کی اپنی سوچ کے مطابق اسلام وہی ہے جو یہ کر رہے ہیں۔

دیگر دلچسپ مضامین


- جہاد کی پکار

- تعلیم یافتہ دہشتگرد ملک کے لیے بڑا خطرہ؟

ہمیں دہشت گردی کے موضوع پر بحث کرتے ہوئے دونوں تعریفوں کو سامنے رکھ کر بات کرنی ہوگی۔ پوری بات کہنی ہوگی کہ یہ دہشت گرد اصطلاحی لحاظ سے بھلے مسلمان نہیں کہلائے جا سکتے، لیکن لغوی اعتبار سے یہ لوگ مسلمان ہی ہیں۔

ڈونلڈ ٹرمپ، تسلیمہ نسرین، رچرڈ ڈاکنز اور کچھ اور لوگ ہیں جو ان دہشت گردوں کے ظاہر کو دیکھ کر رائے قائم کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک دہشت گرد نہ صرف مسلمان ہیں، بلکہ اسلام کی تعلیمات کے عین مطابق کام کر رہے ہیں۔

یہ وہ لوگ ہیں جو مغرب میں اسلامو فوبیا کا سبب بنتے ہیں۔ یہ لوگ ایک ارب مسلمانوں کو ان کچھ ہزار یا کچھ لاکھ لوگوں کے سیمپل سے پہچانتے ہیں جو ان کی نمائندگی نہیں کرتا۔

دہشت گردوں کے مذہب کی لغوی تعریف سے عمومی نتیجہ اخذ کر کے یہ ہوشیار لوگ ان اربوں ایماندار اور پر امن مسلمانوں کی توہین کر رہے ہیں جو مختلف معاشروں میں نہ صرف امن سے رہ رہے ہیں بلکہ دشت گردی کے عفریت کے خلاف سییہ پلائی دیوار بن کے کھڑے ہیں۔

کچھ لوگ دوسرے جزو میں غلطی کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے نزدیک دہشت گرد عقیدتاً مسلمان نہیں۔ ان کے مطابق امریکا، ہندوستان، اور اسرائیل جیسے ممالک اپنے جاسوسوں اور شہریوں کے ذریعے دہشت گردی کرواتے ہیں اور ان معاملات میں کبھی بھی کوئی مسلمان شامل نہیں ہوتا۔

یہ بھی ایک بھیانک غلطی ہے۔ ایسا سوچنا ایک اسلامی ملک میں دہشت گردی کے خلاف بیانیے کو متاثر کرتا ہے، دہشت گردوں سے مذاکرت کرنے اور ان کے خلاف ایکشن نہ ہونے کا باعث بنتا ہے، دہشت گردوں کو وہ سموک اسکرین فراہم کرتا ہے جس میں ریاست ان کے خلاف کارروائی نہیں کر پاتی اور ان کا ناسور پھیلتا رہتا ہے۔

جانیے: عالم اسلام اور سازشی ذہنیت

کینسر کے مرض کی تشخیص میں پہلا مرحلہ ہوتا ہے انکار کا۔ جب تک آپ مرض کا انکار کرتے رہیں گے، علاج سے جی چرائیں گے، تسلیم نہیں کریں گے کہ آپ کے اور میرے ارد گرد ایسے لوگ ہیں جو جذباتی ہیں اور مختلف شرعی معاملات کی کم فہمی یا فرضی تشریحات کے ذریعے معاشرے میں فساد پھیلا رہے ہیں، آپ ایسے نظریات اور لوگوں کی بیخ کنی نہیں کر سکیں گے۔

دہشت گردی کی جنگ میں ایک اہم معاملہ الفاظ کے پس منظر اور معانی کو سمجھنے کا ہے۔ زبانِ انسان نہ صرف انسان کے خیالات کے اظہار کا ذریعہ ہے بلکہ اس کی تشکیل بھی کرتی ہے۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے معاشرے میں ہونے والی اس بحث میں مسلمان ہونے اور مسلمان کہلائے جانے کے فرق کو سمجھیں اور کسی بھی بحث یا بیانیے میں اس دو رخی کو سامنے رکھیں۔

جب تک دونوں معانی خلط ملط ہوتے رہیں گے، تب تک یا تو ہم اسلاموفوبیا کی بھینٹ چڑھتے رہیں گے یا دہشت گردی کا عذاب سہتے رہیں گے۔

تبصرے (3) بند ہیں

yusuf Aug 12, 2016 05:36pm
hum islam ki taaleemat ko bhool chuke hain, haqeeqi islam hamari zindagi se nikal chuka hai........what else can you expect?
Qalam Aug 13, 2016 12:19pm
بالکل صحیح لکھا ھے قاتل اور مقتول مسلمان ھیں۔ جھوٹے ھیں وہ جو اسے غیروں کی سازش قرار دیتے ھیں اصل میں ایسے لوگ فتنہ پرداز ھیں کہ لوگوں کو الجھا کر رکھو تاکہ لوگ ایسے ھی مرتے رھیں اور یہ واویلا مچایا جاتا رھے کہ غیروں کی سفارش ھے۔
syed aqeel haider Aug 13, 2016 02:11pm
بہت اچھا آپ نے سہی نشاندہی کی ہے .میں بس اتنا کہنا چاہتا ہوں کے پہلے یہی لوگ جہادی تھے اور ان کو بڑا اچھا کہا جاتا تھا بس یہ وہ ہی مسلمان ہیں ...