پاکستانی کوہ پیما بلندیوں کے سفر پر

اپ ڈیٹ 16 اگست 2016

اسلام آباد: کئی پاکستانی نوجوان کوہ پیما لڑکے لڑکیوں نے اسلام آباد کے مضافات میں نئی بلندیاں طے کرلیں۔

پاکستان کے گلگت بلتستان میں موجود دنیا کی سب سے بڑی پہاڑی سلسلوں میں قراقرم، ہندوکش اور ہمالیہ شامل ہیں جو طویل عرصے سے سیاحوں کی توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں۔

دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے ٹو کی بلندی 8611 میٹرز ہے، جسے دنیا کی بلند چوٹی ماؤنٹ ایورسٹ کے مقابلے میں چڑھنے میں زیادہ مشکل تصور کیا جاتا ہے۔

لیکن پہاڑی شمال کے پیشہ ور افراد کی کہانیوں کے باوجود ملک کے باقی حصوں میں پہاڑ چڑھنے کا یہ کھیل اتنا مقبول نہیں۔

اسلام آباد میں ایکو ایڈوینچر کلب کے مالک نذیر احمد نے نوجوانوں کے لیے ایک ایکٹیویٹی کا اہتمام کیا جن کا ماننا ہے کہ اب کوہ پیمائی میں لوگوں کی دلچسپی بڑھ رہی ہے۔

ان کے مطابق اس کلب کا آغاز انہوں نے 4 سال قبل کیا تھا جس میں اب 500 ممبران شامل ہیں جو ہر ہفتے کو مرگلا پر جمع ہوتے ہیں۔

ان میں سے کئی افراد کا تعلق گلگت بلتستان سے ہے، ہر کوہ پیما کو اس کی صلاحیت دیکھتے ہوئے آگے بھیجا جاتا ہے۔

کئی مقامی افراد اس ٹریننگ میں حصہ لے رہے ہیں جو ایسے اپنا شوق ماننے لگے ہیں۔

واضح رہے کہ کوہ پیمائی کو 2020 میں ٹوکیو میں ہونے والے اولمپک اسپورٹس کا پہلی بار حصہ بنایا جائے گا۔

ہر شہر میں قدرتی پہاڑی سلسلے میں موجود نہیں اس لیے دوسرے شہروں میں اس ایکٹیویٹی کو جاری رکھنے کے کیے مصنوعی دیوار بنائی گئیں ہیں، 2013 میں لاہور پارک میں بھی ایک ایسی مصنوعی دیوار بنائی گئی۔

کئی اور کھیلوں کی طرح کوہ پیمائی بھی صنف کے لحاظ سے تقسیم نہیں، مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین بھی اس کا حصہ بنتی ہیں۔

کلب کی ایک ممبر اسلام آباد کے نواہی علاقے شاہدرہ میں کوہ پیمائی کی ٹریننگ سیشن کو مکمل کررہی ہیں — فوٹو/ اے ایف پی
کلب کی ایک ممبر اسلام آباد کے نواہی علاقے شاہدرہ میں کوہ پیمائی کی ٹریننگ سیشن کو مکمل کررہی ہیں — فوٹو/ اے ایف پی
ٹریننگ سیشن میں خواتین کی بھی بڑی تعداد نظر آتی ہے — فوٹو/ اے ایف پی
ٹریننگ سیشن میں خواتین کی بھی بڑی تعداد نظر آتی ہے — فوٹو/ اے ایف پی
کلب کی اکثر خواتین ارکان بے خواف ہو کر پہاڑوں پر چڑھ رہی ہوتی ہیں — فوٹو/ اے ایف پی
کلب کی اکثر خواتین ارکان بے خواف ہو کر پہاڑوں پر چڑھ رہی ہوتی ہیں — فوٹو/ اے ایف پی
ٹرینگ کے دوران کوہ پیماء ایک دوسرے کی مدد بھی کر رہے ہوتے ہیں — فوٹو/ اے ایف پی
ٹرینگ کے دوران کوہ پیماء ایک دوسرے کی مدد بھی کر رہے ہوتے ہیں — فوٹو/ اے ایف پی
چار سال کے دوران کوہ پیمائی کے اس کلب میں 500 لڑکے لڑکیاں ممبران بن چکے ہیں — فوٹو/ اے ایف پی
چار سال کے دوران کوہ پیمائی کے اس کلب میں 500 لڑکے لڑکیاں ممبران بن چکے ہیں — فوٹو/ اے ایف پی
اس کلب کا آغاز  4 سال قبل کیا گیا تھا — فوٹو/ اے ایف پی
اس کلب کا آغاز 4 سال قبل کیا گیا تھا — فوٹو/ اے ایف پی
ہر کوہ پیما کو اس کی صلاحیت دیکھتے ہوئے آگے بھیجا جاتا ہے — فوٹو/ اے ایف پی
ہر کوہ پیما کو اس کی صلاحیت دیکھتے ہوئے آگے بھیجا جاتا ہے — فوٹو/ اے ایف پی
کئی اور کھیلوں کی طرح کوہ پیمائی بھی صنف کے لحاظ سے تقسیم نہیں — فوٹو/ اے ایف پی
کئی اور کھیلوں کی طرح کوہ پیمائی بھی صنف کے لحاظ سے تقسیم نہیں — فوٹو/ اے ایف پی
لاہور میں موجود ایک کلب میں کوہ پیمائی کی ٹریننگ جاری — فوٹو/ اے ایف پی
لاہور میں موجود ایک کلب میں کوہ پیمائی کی ٹریننگ جاری — فوٹو/ اے ایف پی
لاہور کے انسٹرکٹر جمشید خان ایک مصنوعی دیوار پر چڑھ رہے ہیں— فوٹو/ اے ایف پی
لاہور کے انسٹرکٹر جمشید خان ایک مصنوعی دیوار پر چڑھ رہے ہیں— فوٹو/ اے ایف پی