لاہور: گزشتہ کئی ماہ کے دوران دوا سازوں کی جانب سے قیمتوں میں 100 فیصد اضافے کے بعد کئی ادویات غریب مریضوں کی دسترس سے باہر ہوگئیں۔

ان ادویات میں سے زیادہ تر مریضوں کو ڈائیریا، بخار، بد ہضمی، درد، انفکیشن اور دیگر امراض کے لیے تجویز کی جاتی ہیں، البتہ جب سے ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی پاکستان (ڈراپ) نے اس معاملے میں نرمی دکھانی شروع کی ہے، تب سے ادویات کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگی ہیں۔

رواں برس مئی میں نیوروبیان انجیکشن کے ایک پیکٹ (بیچ نمبر07089) کی قمیت 300 روپے تھی جبکہ یہی انجیکشن (بیچ نمبر 07117) 555 روپے کی قیمت پر (یعنی تقریبا 95 فیصد اضافے کے ساتھ) جون میں مارکیٹ میں سپلائی کیا گیا۔

اسی طرح مارچ میں معدے کی دوائی نو-ایس پی اے 40 گرام کے 20 گولیوں کے پیکٹ کی قمیت 53.63 روپے تھی جبکہ اس وقت اس دوا کی قیمت 144 روپے ہے۔

سرکاری دستاویزات اور مارکیٹ ذرائع مریضوں کے لیے ایک خطرناک صورتحال کی نشاندہی کر رہے ہیں، کیونکہ ڈراپ نے جون اور اگست میں سرکاری طور پر ادویات کی قمیوں میں 4 گنا اضافہ کیا تھا تاہم ادویات تیار کرنے والی کمپنیوں نے قمیتوں میں 5 گنا اضافہ کیا۔

دوسری جانب وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے دوا ساز کمیپنوں کی جانب سے قیتموں میں بلاجواز اضافے کا کوئی نوٹس نہیں لیا۔

پنجاب حکومت کو بھیجے گئے ایک خط کے جواب میں منسٹری آف نیشنل ہیلتھ سروسز، ریگولیشنز اینڈ کو آرڈینشن نے اس بات کا اعتراف کیا کہ کچھ دوا ساز کمپنیوں نے ادویات کی قیمتوں میں حد سے زیادہ اضافہ کیا۔

وفاقی وزارت صحت کا کہنا تھا کہ ’صوبائی حکومت 1976 ڈرگ ایکٹ کی شرائط کی خلاف ورزی پر دوا ساز کمپنیوں کے خلاف کارروائی کرسکتی ہے تاہم عدالت عظمٰی کے فیصلے کے بعد ان دواساز کمپنیوں کے خلاف سخت اقدامات کیے جاسکتے ہیں‘۔

خط میں ملٹی نیشنل کمپنیوں کی جانب سے ادویات کی قمیتوں میں 10 اور 45 فیصد کے درمیان اضافے کے حوالے سے دستاویزات بھی منسلک کی گئی تھیں۔

فارماسسٹ نور محمد مہر یونائٹیڈ اسٹیٹس فوڈ اینڈ ڈرگز اتھارٹی (ایف ڈی اے) میں بحیثیت میڈیکو لیگل آفیسر کام کرچکے ہیں اور کئی ملٹی نیشنل کمپینز میں بھی اپنی خدمات سرانجام دے چکے ہیں، ان کا دعویٰ ہے کہ پاکستان میں مریضوں کو مہنگائی کی وجہ سے یومیہ 2 ارب روپے ادویات پر خرچ کرنا پڑ رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا، 'میں نے چار صوبوں میں اپنے ساتھیوں کی مدد سے گزشتہ دو ماہ کے دوران ادویات میں مستقل اضافے کے حوالے سے تجزیاتی مسودہ تیار کیا تھا جس کے بعد ان قیمتوں کا جائزہ لینے کے لیے ڈراپ کی ڈرگ پرائس کمیٹی (ڈی پی سی) کا اجلاس بھی منعقد کیا گیا'۔

اُدھر ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی پاکستان کے چیف ایگزیکٹو آفیسر اسلم افغانی نے مقامی اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کی جانب سے بڑے پیمانے پر ادویات کی قیمتوں میں اضافے کی تصدیق کی۔

ان کا کہنا تھا، 'جب ہم نے 2015 میں ڈرگ پالیسی متعارف کروائی تھی، تو ہم نے ہارڈ شپ کیسز کے حوالے سے طلب و رسد (کنزیومر پرائس انڈیکس) کو دوا ساز کمپنیوں کی مصدقہ معلومات کے مکمل ڈیٹا سے لنک کیا تھا لیکن اس کے بعد سے حالات سنگین صورتحال اختیار کرچکے ہیں اور دوا ساز کمپنیوں نے ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی سے بچنے کے لیے دوسرے حربے استعمال کرنے شروع کردیئے ہیں'۔

انہوں نے مزید کہا کہ 'ڈراپ پالیسی کے تحت 9 ماہ کے اندر ہارڈ شپ کیسز کو ختم کرنا ہوگا، تاہم دوا ساز کمپنیوں نے قانون کے مطابق اتھارٹی سے رابطہ کرنے کے بجائے جنوری میں سندھ ہائی کورٹ سے رجوع کیا اور ادویات کی قیمتوں میں 2 گنا اضافے کے بعد حکم امتناع لے لیا'۔

ڈراپ کے چیف ایگزیکٹو آفیسر اسلم افغانی نے بتایا کہ ابتدا میں 11 کمپنیوں نے عدالت کا رخ کیا تھا، بعدازاں بڑے پیمانے پر ادویات کی قیمتوں میں اضافے کے بعد مزید 23 کمپینوں نے عدالت سے رجوع کیا، ان میں سے 10 ملٹی نیشنل کمپنیاں تھیں'۔

انھوں نے بتایا، 'ہم اب تک 1 ہزار 50 ہارڈ شپ کیسز کو ختم کرچکے ہیں، جن میں 550 شیڈول ڈرگز اور 500 نان شیڈول ڈرگز شامل ہیں، ڈراپ کی ڈرگ پرائس کمیٹی (ڈی پی سی) ادویات کی قمیتوں میں 8 فیصد اضافے کی اجازت دیتی ہے‘۔

انہوں نے مزید کہا کہ ادویات کی قیمتوں میں اضافہ غیر قانونی ہے، ہم سندھ ہائی کورٹ میں اس کیس کی پیروی کررہے ہیں، امید ہے کہ آئندہ سماعت میں اس کیس کو حل کرلیا جائے گا۔

یہ خبر 22 اگست 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

KHAN Aug 22, 2016 08:17pm
شرمناک: انتہائی شرمناک، غریبوں کے لیے خطرناک