سینیٹ میں کمپنیز آرڈیننس 2016 کے خلاف تحریک جمع
چیئرمین قائمہ کمیٹی برائے خزانہ سینیٹر سلیم مانڈوی والا نے کمپنیز آرڈیننس 2016 کے خلاف سینیٹ میں تحریک جمع کرادی جس پر 30 سے زائد سینیٹرز کے دستخط موجود ہیں۔
سینیٹر سلیم مانڈوی والا کا کہنا تھا کہ صدارتی آرڈیننس کے ذریعے کمپنیز آرڈیننس کی منظوری روکی جائے کیونکہ کمپنیز آرڈیننس پر مشاورت کا عمل مکمل نہیں کیا گیا۔

ان کا مؤقف تھا کہ پارلیمنٹ کی موجودگی میں کمپنیز آرڈیننس جاری کرنا غیر آئینی ہے، آخر حکومت کو آرڈیننس جاری کرنے میں کیا جلدی تھی۔
سلیم مانڈوی والا کا کہنا تھا کہ حکومت پارلیمنٹ کو اہمیت نہیں دینا چاہتی اور حکومتی آرڈیننسز کے ذریعے وہ پارلیمنٹ کو غیر فعال تصور ہوتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت نے کمپنیز بل قائمہ کمیٹی برائے خزانہ میں پیش کیا تھا جس پر سیاسی جماعتوں سے سفارشات مانگی جارہی تھیں مگر حکومت نے ان سفارشات پر غور کرنے کی بجائے آرڈیننس جاری کردیا جو سمجھ سے بالا تر ہے۔
انھوں نے سوال اٹھایا کہ اگر حکومت نے آرڈیننس ہی جاری کرنا تھا تو بل پارلیمنٹ میں پیش کرنے کی زحمت کیوں کی۔
سینیٹر سلیم مانڈی والا نے مزید کہا کہ صدارتی آرڈیننس کے ذریعے کمپنیز آرڈیننس کی منظوری قبول نہیں، حکومت آرڈیننس کو واپس لے۔
کمپنیز آرڈیننس کے تحت وزیراعظم کے معاون خصوصی کو نوٹس
ادھر سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن (ایس ای سی پی) نے کمپنیز آرڈیننس 2016 کے تحت گذشتہ دس روز میں 42 ہزار نوٹسز جاری کردیے، ایس ای سی پی نے وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے ریونیو ہارون اختر کو بھی نوٹس جاری کردیا ہے جس پر ہارون اختر نے وضاحت طلب کرلی ہے۔
کمپنیز آرڈیننس کے حوالے سے منعقدہ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے ہارون اختر نے کہا کہ ایس ای سی پی اب اتنا خود مختار ادارہ بن چکا ہے کہ ان کی کمپنی کو بھی نوٹس ملا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر کوئی غیر ملکی آف شور کمپنی پاکستان میں سرمایہ کاری کرتی ہے تو اس پر بھی یہ آرڈیننس لاگو ہوگا یا نہیں ایس ای سی پی اس کی وضاحت کرے۔
ہارو ن اختر نے کہا کہ کمپینز آرڈیننس سے نیب اور دیگر تحقیقاتی اداروں کو مدد ملے گی۔
انھوں نے کہا کہ اسی آرڈیننس کے تحت گلوبل رجسٹر قائم کیا جا رہا ہے، آرڈیننس کے تحت ڈائریکٹرز کے لیے بیرون ملک آف شور کمپنیوں کی تفصیلات فراہم کرنا لازمی قرار دیا گیا ہے۔










لائیو ٹی وی