پاناما اسکینڈل: ایف بی آرکی تحقیقات اگلے مرحلے میں داخل

شائع December 3, 2016

اسلام آباد: فیڈرل بورڈ آف ریوینیو (ایف بی آر) رواں برس اپریل میں سامنے آنے والے پاناما پیپز میں شامل تقریباً 400 پاکستانی شہریوں کے خلاف تحقیقات کے اگلے مرحلے میں داخل ہورہا ہے۔

دوسری جانب تین ماہ قبل وجود میں آنے والے ایف بی آر کے ڈائریکٹوریٹ آف انٹیلی جنس اینڈ انویسٹی گیشن (ڈی آئی آئی) نے بھی منی لانڈرنگ، انکم ٹیکس / سیلز ٹیکس کی چوری اور ایکسائز قوانین کی خلاف ورزی کے مقدمات درج کرنا شروع کردیے ہیں۔

ڈی آئی آئی نے اربوں روپے کی منی لانڈرنگ کے حوالے سے اپنا اولین مقدمہ ایک بزنس ٹائیکون کے خلاف درج کرلیا ہے۔

ایک سینئر عہدے دار نے ڈان کو بتایا کہ ’اب ایف بی آر پاناما گیٹ کے تناظر میں سامنے آنے والے کیسر پر عمل درآمد کے مرحلے میں داخل ہورہا ہے‘۔

ایف بی آر نے پاناما لیکس کے معاملے پر اپوزیشن کے دباؤ پر وزیر اعظم نواز شریف کے بچوں حسن نواز، حسین نواز اور مریم کو ستمبر میں نوٹسز جاری کیے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: پاناما لیکس کیس : سپریم کورٹ کا ایک رکنی کمیشن کے قیام کا فیصلہ

ایف بی آر کے ترجمان ڈاکٹر اقبال نے ڈان کو بتایا کہ ’انفورسمنٹ اسٹیج‘ میں ان لوگوں کے خلاف فرداً فرداً کارروائی کی جائے گی جنہوں نے جاری کردہ نوٹسز کے جواب نہیں دیے۔

انہوں نے بتایا کہ ’اس مرحلے میں تعزیراتی اقدامات اور جرمانے عائد کیے جاسکتے ہیں اور کیس خصوصی جج کو بھیجا جاسکتا ہے‘۔

ایف بی آر کی جانب سے 400 سے زائد شخصیات کو جاری کیے جانے والے نوٹسز میں انہیں ہدایت کی گئی تھی کہ وہ اپنی آفشور کمپنیوں کی ملکیت اور انہیں خریدنے میں استعمال ہونے والے پیسے کا ذریعہ آمدنی 30 یوم کے اندر اندر بتائیں۔

ایف بی آر کے عہدے دار نے بتایا کہ ڈائریکٹوریٹ آف انٹیلی جنس اینڈ انویسٹی گیشن کے قیام سے قبل منی لانڈرنگ اور ایکسائز قوانین کی خلاف ورزیوں کے کیسز وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کو تحقیقات کے لیے بھیجے جاتے تھے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ ’مالیاتی جرائم کو ترمیم شدہ اینٹی منی لانڈرنگ (اے ایم ایل) ایکٹ 2010 میں شامل کیے جانے کے بعد ڈی آئی آئی کو یہ اختیارات دیے گئے کہ جب اور جیسے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کا فنانشل مانیٹرنگ یونٹ (ایف ایم یو) تحقیقات کے لیے کیسز ایف بی آر کو بھیجے وہ منی لانڈرنگ کے لیے کی جانے والی ٹیکس چوری کی تحقیقات کرے‘۔

مزید پڑھیں: پاناما پیپرز کی دوسری قسط: 259 پاکستانیوں کے نام شامل

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اے ایم ایل ایکٹ میں حالیہ ترامیم کے بعد ایف بی آر کو یہ اختیار حاصل ہوگیا ہے کہ وہ ٹیکس چوری اور ایکسائز قوانین کی خلاف ورزی کے کیسز دیکھ سکے اور سیکشن 9(1) کے تحت متعلقہ افراد کو نوٹسز بھیج سکے۔

اگر نوٹس کا جواب 30 یوم کے اندر نہیں آتا تو وفاقی حکومت اے ایم ایل ایکٹ کے تحت کارروائی عمل میں لاسکتی ہے۔

ایک سوال کے جواب میں ایف بی آر کے عہدے دار نے کہا کہ یونائیٹڈ ریفریجریٹرز کمپنی کے مالک صعنت کار بشیر داؤد اور ان کی اہلیہ مریم داؤد کے خلاف مقدمے کا اندراج بڑی کامیابی تھی کیوں کہ ڈائریکٹوریٹ کے قیام کے بعد مبینہ طور پر منی لانڈرنگ کا سب سے بڑا کیس تھا۔

ٹیکس حکام ایف بی آر کراچی کے خصوصی جج کے احکامات پر ان کے 19 ارب روپے مالیت کے بینک اکاؤنٹس پہلے ہی منجمد کرچکے ہیں۔

یہ خبر 3 دسمبر 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی


کارٹون

کارٹون : 22 دسمبر 2025
کارٹون : 21 دسمبر 2025