وائس چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) شاہ محمود قریشی نے وفاقی وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان کی گزشتہ روز کی جانے والی پریس کانفرنس پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے اسے سپریم کورٹ پر حملہ قرار دے دیا۔

بنی گالہ کے باہر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے شاہ محمود قریشی نے کہا کہ تحریک انصاف کی پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں چوہدری نثار کی پریس کانفرنس کا تفصیلی جائزہ لیا گیا اور تحریک انصاف کی پارلیمانی پارٹی اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ وزیرداخلہ کی پریس کانفرنس سپریم کورٹ پر براہ راست حملہ ہے۔

شاہ محمود قریشی کا مزید کہنا تھا کہ اجلاس میں قومی اسمبلی کی گزشتہ کارروائیوں کا بھی جائزہ لیا گیا اور پیر 19 دسمبر کو ہونے والے اسمبلی کے اجلاس کے لائحہ عمل پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔

انہوں نے وزیراعظم سے مطالبہ کیا کہ وہ قومی اسمبلی میں آئیں اور پاناما پیپرز کے حوالے سے اپنے موقف میں موجود ابہام کو دور کریں۔

چوہدری نثار کی باتیں توہین عدالت

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ سانحہ کوئٹہ کی رپورٹ سپریم کورٹ کے ایک حاضر سروس جج نے تیار کی ہے جنہیں یہ ذمہ داری سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے سونپی تھی۔

انہوں نے کہا کہ جج صاحب نے 54 دن کی چھان بین کے بعد 110 صفحات پر مشتمل رپورٹ پیش کی ، حکومت نے پورا زور لگایا کہ اس رپورٹ کو منظر عام پر نہ آنے دیا جائے لیکن جسٹس قاضی فائز عیسیٰ جس شہرت کے مالک ہیں وہ سب جانتے ہیں کہ وہ دبائو میں آنے والے نہیں۔

یہ بھی پڑھیں: چوہدری نثار کا سانحہ کوئٹہ کی رپورٹ پر رد عمل

انہوں نے کہا کہ جسٹس عیسیٰ نے انتہائی سوچ بچار کے بعد رپورٹ پیش کی لیکن چوہدری نثار کہتے ہیں کہ وہ اس رپورٹ کا 'مقابلہ' کریں گے اور کہا کہ رپورٹ 'یکطرفہ' ہے۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ جو باتیں چوہدری نثار نے کیں وہ توہین عدالت کے زمرے میں آسکتی ہے اور اگر سپریم کورٹ اس پر از خود نوٹس لے تو ہمیں تعجب نہیں ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ پیر کو قومی اسمبلی میں وزیراعظم کے بیان اور اس رپورٹ پر تحریک انصاف اپنا موقف پیش کرے گی جس کی تفصیلات کل ہی بتائی جائیں گی۔

شاہ محمود نے کہا کہ گزشتہ روز چوہدری نثار نے اس بات کی تردید کی کہ انہوں نے مولانا لدھیانوی کو دعوت دی یا ملاقات کی لیکن یہ بھی تسلیم کرلیا کہ دفاع پاکستان کونسل کا جو وفد آیا تھا اس میں مولانا لدھیانوی بھی تھے اور ملاقات بھی ہوئی۔

انہوں نے کہا کہ چوہدری نثار نے کہا کہ ملاقات کے لیے آنے والے 4 افراد کے جو نام انہیں دیے گئے اس میں مولانا لدھیانوی کا نام نہیں تھا، تو سوال یہ ہے کہ نام نہ ہونے کے باوجود وہ میٹنگ میں کیسے بیٹھے، انہیں کس نے بیٹھنے کی اجازت دی؟

انہوں نے کہا کہ ایک کالعدم تنظیم کے رکن وزارت داخلہ کے دفتر میں داخل کیسے ہوئے؟

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ شہداء فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام ایک اجتماع ہوا اور مختلف قائدین نے وہاں خطاب کیا، اس پر وزیرداخلہ نے کہا کہ ہم نے انہیں اجازت نہیں دی۔

اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ ہزاروں لوگ اسلام آباد میں داخل ہوتے ہیں، عوام سے خطاب کرتے ہیں اور آپ کہتے ہیں کہ اجازت نہیں دی جبکہ دفعہ 144 کا نفاذ بھی تھا۔

ملٹری کورٹس کا کیا ہوگا؟

شاہ محمود نے کہا کہ 7 جنوری کو 21 ویں آئینی ترمیم جو اتفاق رائے سے غیر معمولی حالات میں ایک غیر معمولی چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لیے پارلیمنٹ نے متفقہ طور پر پاس کی تھی اور جس کے ذریعے ملٹری کورٹس قائم کی گئیں تھیں، ان کی معیاد ختم ہورہی ہے۔

مزید پڑھیں: تحفظ پاکستان ایکٹ میں توسیع پر حکومت تذبذب کا شکار

سوال یہ ہے کہ حکومت نے اس سلسلے میں کیا فیصلہ کیا ہے؟ لوگوں میں بے چینی ہے کہ آنے والے دنوں میں کیا ہوگا، اگر ملٹری کورٹس ختم ہوگئیں تو دہشت گردوں سے کون نمٹے گا اس حوالے سے حکومت کی پالیسی واضح نہیں ہے، تحریک انصاف اس پر وضاحت چاہتی ہے۔

شاہ محمود نے کہا کہ جب 21 ویں ترمیم پاس کی گئی تو وفاقی حکومت نے کہا کہ دو سال کے لیے اس لیے رکھ رہے ہیں کہ ان دو سالوں میں اپنے کرمنل جوڈیشل سسٹم میں اصلاحات کریں گے اور اس طرح کریں گے کہ ہمیں ملٹری کورٹس کی ضرورت پیش نہ آئے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت نے کہا تھا کہ ہم پاکستان پینل کوڈ اور کرمنل پروسیجر کوڈ میں ترمیم کریں گے، ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا تھا کہ پولیس اور پراسیکیوشن ڈپارٹمنٹ کو سیاست سے پاک کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ 'تحریک انصاف یہ سوال کررہی ہے کہ ان دو سالوں میں نہ ہمیں پولیس اور پراسیکیوشن ڈپارٹمنٹ کو سیاست سے پاک کرنے کے اقدامات دکھائی دیے اور نہ ہی وہ اصلاحات دکھائی دیں جو قوم سے وعدہ کیا گیا تھا'۔

انہوں نے استفسار کیا کہ 'جب 7 جنوری کے بعد ملٹری کورٹس نہیں رہیں گی تو ان مقدمات کا کیا بنے گا جو وہاں زیر سماعت ہیں، کیا ان مقدمات کو انسداد دہشت گردی کورٹ میں واپس بھیج دیا جائے گا، اور اگر واپس منتقل کرنا ہے تو پھر ہم نے آرمی پبلک اسکول سانحے سے کیا سیکھا؟'

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پیر کو قومی اسمبلی کے اجلاس سے قبل پیپلز پارٹی اور اپوزیشن کی دیگر جماعتوں کے ساتھ مشاورتی اجلاس کیا جائے گا جس میں یہ کوشش کی جائے گی کہ مذکورہ معاملات پر اپوزیشن ایک پیج پرہو اور حکومت سے جواب مانگے۔

وزیراعظم قومی اسمبلی میں آکر ابہام دو کریں

تحریک انصاف نے ایک بار پھر وزیراعظم نواز شریف سے قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ وزیراعظم ایوان میں آئیں اور ابہام دور کریں۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف یہ توقع کرتی ہے کہ وزیراعظم نواز شریف قومی اسمبلی کے اجلاس میں تشریف لائیں گے اور پانامہ اور مے فیئر فلیٹس پر جو ان کا حتمی موقف ہے وہ بیان کریں گے اور ایوان کو اعتماد میں لیں گے۔

یہ بھی پڑھیں: قطری شہزادے کا خط اور وزیراعظم کا موقف مختلف: سپریم کورٹ

شاہ محمود نے کہا کہ گزشتہ اجلاس میں خواجہ سعد رفیق نے کہا تھا کہ وزیراعظم نے ایوان میں جو تقریر کی تھی وہ من و عن اس پر قائم ہیں اور اس کے ایک ایک جملے کا دفاع کرنے کے لیے تیار ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اگر ایسا ہے تو اس پر ایک واضح تضاد سامنے آگیا کہ جو موقف انہوں نے قومی اسمبلی میں اپنایا وہ تو یہ ہے کہ گلف اسٹیل ملز دبئی کو فروخت کرکے حاصل کیے گئے وسائل کو جدہ منتقل کیا گیا اور جدہ سے پھر وہ مے فیئر فلیٹس کی خریداری کے لیے لندن منتقل ہوئے۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ عدالت میں وزیراعظم کے وکیل سلمان سلمان بٹ نے جو موقف پیش کیا وہ اس کے برعکس ہے، وہاں انہوں نے موقف اپنایا کہ یہ وسائل دبئی سے قطر گئے اور قطر سے لندن منتقل ہوئے اور اس کے ثبوت کے طور پر انہوں نے قطر کے شہزادے کا خط پیش کردیا۔

انہوں نے کہا کہ اب انتہائی سنجیدہ ابہام پیدا ہوگیا ہے کہ حقیقت ہے کیا؟ اگر وہی حقیقت ہے جسے سعد رفیق نے دہرادیا ہے تو تحریک انصاف کا مطالبہ ہے کہ سپریم کورٹ سے جو قطری خط ہے اس سے دستبردار ہوجایا جائے اور اگلی پیشی میں وہی موقف اختیار کرلیا جائے جو کہ اسمبلی کے فلور پر اپنایا جاچکا ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ کام صرف وزیراعظم ہی کرسکتے ہیں، کوئی دوسری شخصیت اعتماد کے ساتھ یہ بات نہیں کرسکتی، لہٰذا تحریک انصاف ایک بار پھر مطالبہ کرتی ہے کہ وزیراعظم اسمبلی میں آئیں اور ابہام دور کریں۔


تبصرے (0) بند ہیں