کراچی: متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) سے تعلق رکھنے والے ایک گرفتار رکن صوبائی اسمبلی نے نا صرف 12 مئی 2007 کو ہونے والے پُرتشدد واقعے میں ملوث ہونے کا اعتراف کرلیا ہے بلکہ ملک کی تاریخ کی سب سے بڑی پرتشدد کارروائی میں پارٹی کے ایک اہم رہنما ڈاکٹر فاروق ستار کے ملوث ہونے کا انکشاف بھی کیا ہے۔

کراچی سے منتخب ہونے والے رکن سندھ اسمبلی کامران فاروق کو رینجرز نے 16 دسمبر کو گرفتار کیا تھا اور ان پر گرینیڈ اور غیر قانونی اسلحہ رکھنے پر دو مقدمات درج قائم کیے گئے تھے۔

اس کے علاوہ وہ ان سیکڑوں مفرور افراد میں شامل ہیں جن پر 12 مئی واقعے میں ملوث ہونے کا الزام ہے۔

ایم کیوایم کے گرفتار رکن صوبائی اسمبلی نے اپنا اعترافی بیان 20 دسمبر کو کرمنل پروسیڈنگ کوڈ کی دفعہ 164 کے تحت جوڈیشل مجسٹریٹ کے سامنے ریکارڈ کرایا۔

ڈان کو حاصل ہونے والی ان کے بیان کی کاپی کے مطابق ملزم کامران فاروق نے بتایا کہ انھوں نے 2000 میں ایم کیو ایم میں شمولیت اختیار کی تھی اور بعد ازاں پارٹی میں یونٹ انچار اور سیکٹر انچار کے عہدے پر کام کیا۔

ایم کیو ایم رہنما کا کہنا تھا کہ انھیں ایم کیو ایم کراچی تنظیمی کمیٹی کے چیف حماد صدیقی کے کہنے پر 2013 کے عام انتخابات میں اُمیدوار کا ٹکٹ دیا گیا تھا۔

12 مئی واقعے میں ملوث ہونے کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ایک اجلاس 10 مئی 2007 کو پارٹی کے مرکزی دفتر نائن زیرو میں منعقد ہوا تھا جس میں ڈاکٹر فاروق ستار، حماد صدیقی اور دیگر پارٹی رہنما موجود تھے۔

انھوں نے کہا کہ پارٹی کی قیادت نے ان سے اور دیگر سیکٹر انچارجز سے کہا کہ وہ یہ یقینی بنائیں کہ وکیل کسی بھی صورت میں کراچی ایئرپورٹ نہ پہنچ سکیں، جہاں انھوں نے 12 مئی 2007 کو پاکستان کے معزول چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کا استقبال کرنے کیلئے جانا تھا۔

کامران فاروق نے تصدیق کی کہ وہ اور ان کے مسلح ساتھیوں نے 12 مئی کو متعدد شاہراہوں کو بلاک کیا اور فائرنگ کرکے کئی افراد کو زخمی بھی کیا تھا۔

اعترافی بیان میں ایم کیو ایم کے رہنما کا کہنا تھا کہ اپریل 2008 میں پارٹی کے مرکز پر ایک اور اجلاس منعقد ہوا جسم میں اسے بتایا گیا کہ کراچی بار ایسوسی ایشن کے سیکریٹری نعیم قریشی ایم کیو ایم کے خلاف احتجاج کا منصوبہ بنارہے ہیں اور وہ 12 مئی کیس کے شکایت کنندہ بھی ہیں۔

انھیں نعیم قریشی کو سبق سکھانے کا کہا گیا اور جس پر انھوں نے طاہر پلازہ کی عمارت کو آگ لگانے کیلئے کچھ کارکنوں کو بھیج دیا۔

خیال رہے کہ طاہر پلازہ میں آتشزدگی کا واقعہ 9 اپریل 2008 کو پیش آیا تھا جس میں ایک وکیل اور اس کے 4 مؤکل ہلاک ہوگئے تھے۔

کامران فاروق نے اپنے اعترافی بیان میں مجسٹریٹ کے سامنے دیگر جرائم بھی قبول کیے جن میں ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری، آفتاب شیخ کے دور میں ٹارگٹ کلرز کو لائسنس بنوا کر دینا، اسلحہ کی خریداری، چائینا کٹنگ اور دیگر جرائم شامل ہیں، یاد رہے کہ آفتاب شیخ اس وقت وزیراعلیٰ سندھ کے کے مشیر برائے داخلہ امور تھے۔

واضح رہے کہ کراچی کے موجودہ میئر وسیم اختر، اراکین صوبائی اسمبلی محمد عدنان اور کامران فاروق سمیت دیگر پر 12 مئی 2007 کو شہر میں ہونے والے کشیدگی کے حوالے سے درج مقدمے میں نامزد کیا گیا تھا جس میں 50 افراد ہلاک اور 100 سے زائد زخمی ہوگئے تھے۔

بعد ازاں ایم کیو ایم پاکستان کے ترجمان نے گرفتار رکن صوبائی اسمبلی کامران فاروق کے اعترافی بیان کو مسترد کردیا اور کہا کہ اس طرح کے بیانات پارٹی کے خلاف میڈیا ٹرائل کا حصہ ہیں۔

ترجمان نے فاروق ستار کو ایک غلط کیس میں نامزد کرنے پر تنقید کا نشانہ بنایا۔

بلدیہ فیکٹری کیس، رکن صوبائی اسمبلی کی حفاظتی ضمانت منظور

کراچی میں انسداد دہشت گردی کی عدالت نے بلدیہ فیکٹری کیس میں ایم کیو ایم کے ایک رکن صوبائی اسمبلی رؤف صدیقی کو حفاظتی ضمانت دے دی ہے۔

رؤف صدیقی کے وکیل شوکت حیات نے حال ہی میں گرفتار ہونے والے ملزم عبدالرحمٰن کا اعترافی بیان جمع کرایا جس میں ملزم نے ان کے موکل پر فیکٹری مالکان کے خلاف چھوٹا مقدمہ درج کرانے کا الزام لگایا ہے۔

وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ ان کے موکل کو نہ تو ایف آئی آر میں نامزد کیا گیا ہے اور نہ ہی ان پر فرد جرم ہی عائد کی گئی ہے جبکہ کسی بھی جوائنٹ انوسٹی گیشن (جے آئی ٹی) رپورٹ میں ان کا نام شامل نہیں۔

انھوں نے مؤقف اپنایا کہ واقعے کی ایف آئی آر ریاست کی جانب سے ایس ایچ او نے درج کی تھی تاہم موجودہ کیس میں ان کے مؤکل کو پھنسایا گیا ہے۔

وکیل کا کہنا تھا کہ گرفتار ملزم عبدالرحمٰن نے افواہوں کی وجہ سے اپنے اعترافی بیان میں رؤف صدیقی کا نام لیا، ان کا موکل تفتیش میں شامل ہونے کیلئے تیار اور ضمانت قبل از وقت گرفتاری چاہتا ہے۔

ابتدائی سماعت کے بعد انسداد دہشت گردی کے جج نے 12 جنوری تک کیلئے 100000 روپے کے مچلکوں کے عوض میں رؤف صدیقی کی ضمانت قبل از گرفتاری منظور کر لی۔

یہ بھی یاد رہے کہ بلدیہ فیکٹری کیس کے مرکزی ملزم عبدالرحمٰن عرف بھولا نے 22 دسمبر کو مجسٹریٹ کے سامنے اپنے اعترافی بیان میں کہا تھا کہ فیکٹری مالکان کی جانب سے بھتے کی رقم ادا کرنے سے انکار پر حماد صدیقی کے کہنے پر اس نے زبیر عرف چریا اور دیگر ساتھیوں کے ساتھ مل کر فیکٹری کو آگ لگائی تھی۔

ملزم کا کہنا تھا کہ اس وقت کے صوبائی وزیر برائے صنعت، رؤف صدیقی نے واقعے کے بعد مبینہ طور پر فیکٹری مالکان کے خلاف مقدمہ درج کرایا تھا۔

اپنے اعترافی بیان میں عبدالرحمٰن کا کہنا تھا کہ بعد ازاں اس کے علم میں یہ بات بھی آئی کہ رؤف صدیقی اور حماد صدیقی نے فیکٹری مالکان کے خلاف کیس کو کمزور کرنے کیلئے 40 لاکھ اور 50 لاکھ روپے وصول کیے تھے۔

یہ رپورٹ یکم جنوری 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں