"یار لاہور کا آسمان تو بیوہ کی کلائی کی طرح بے رنگ ہو گیا ہے۔" انجم اچانک چونک کر بولا۔ سمن آباد کے ڈونگی گراؤنڈ کے پاس اس کے پرانے گھر کی چھت پر بیٹھے اچانک ہم سب دوستوں کو لاہور کی بے بسی کا احساس ہوا۔

انجم کافی عرصے بعد جرمنی سے واپس آیا تھا۔ بڑے عرصے بعد واپس آنے والوں کو زعم ہوتا ہے کہ وہ جیسا اپنا دیس چھوڑ گئے بالکل ویسے ہی دوبارہ دیکھنے کو ملے گا۔ یا اگر بدلا بدلا لگے بھی تو کچھ دن بعد پھر اپنا ہو جائے گا۔ جیسے فریزر میں رکھے تازہ پھل کو تھوڑی دیر دھوپ میں رکھ دیں تو زندہ ہو جاتا ہے۔ ان کی آنکھیں واپس آ کر وہی خالہ کے چھوٹے بچے، وہی گلی کنارے پر چاچا شریف کی دوکان اور وہی آسمان پر رنگ برنگی پتنگیں دیکھنا چاہتی ہیں۔

انجم کو پتنگوں کا بہت شوق تھا۔ بسنت سے مہینوں پہلے ڈوریں جمع کرنے کی جدوجہد شروع ہو جاتی۔ ہندوستان سے کون سی نئی ڈور آئی ہے۔ کس رنگ کا مانجھا کس قسم کے شیشے کے ساتھ اچھا لگتا ہے۔ بسنت والے دن ہوا کتنی تیز ہوگی اور کس قسم کے گڈے اس موسم کے لیے اچھے ہیں۔ نام بھی تو کیسے کیسے تھے۔ دو ریچھ، پانچ ریچھ، ساٹھ اوکسلے، تاوا، گڈا، پرا، پری، نکلاو کٹ، مچھر، ساڑھ پتنگ، چوگٹھی۔ ہاتھوں میں باندھنے کے لیے چمڑے کی ٹیپ اور پھٹے ہوے گڈے جوڑنے کے لیے کاغذی ٹیپ۔ ساری رات لائٹیں لگا کر سفید گڈیاں اڑانا اور سارا دن رنگ برنگے کپڑوں میں، اونچی آواز میں باجوں کے ساتھ بو کاٹا کا شور۔

پڑھیے: لاہوری بسنت… ماضی کا قصّہ

"فائرنگ اور ڈور سے بہت لوگوں کی اموات واقع ہونے لگیں تو حکومت نے پابندی لگا دی"، عارف نے توجیہہ بیان کی۔ انجم نے حکومت پر کچھ اپنی زبان اور کچھ جرمن زبان میں برہمگی کا اظہار کیا۔ شام کو ہم نے اسے قذافی اسٹیڈیم کا رش دکھایا تو مزید اداس ہو گیا۔

"یار اسٹیڈیم کے تو اندر رش اچھا لگتا ہے، باہر کا رش تو ایسا ہے جیسے کسی کے جنازے پر لوگ جمع ہوئے ہیں۔" ہمیں لگا کہ اسے ولایت کی ہوا لگ چکی ہے، اس لیے ہر بات پر شکایت کرنے لگا ہے۔ انجم کو لگا کہ گھر کی ہی ہوا بدل گئی ہے۔ دو ہفتے بعد وہ واپس چلا گیا۔ لاہور کے حصے کی آخری یاد بھی دفنا کر۔

کارل سیگن نے کہیں لکھا تھا کہ ہم خانہ بدوشوں کی اولاد ہیں۔ صدیوں تک ہمارے اجداد راتوں کو اٹھ اٹھ کر آسمانوں کی گود میں جھانکتے رہے۔ ستاروں کے سفر ناپتے رہے۔ سورج سے ہمارا رشتہ قرنوں کے اس سفر کی ایک یادداشت ہے۔ ہم لوگوں نے خانہ بدوشی کا درد بیچ کر گندم کی غلامی خرید لی تو موسم بھی ہمارا راز دان بن گیا۔

پڑھیے: بیساکھی کا میلہ

کب مٹی کے راجا کی راجدھانی برف کی قید سے رہا ہوتی ہے، کب درختوں پر پہلے بہار کے پھول گیت سناتے ہیں، کب زمین کا سینہ اناج کو گود لینے کے لیے بیتاب ہوتا ہے، کب بیج کے اندر چھپا سونا زمین کا سینہ چیر کر نکلتا ہے اور کب بارش کی جیب میں چھپے موتے دھرتی کی مانگ بھر دیتے ہیں۔

دنیا کی باقی تہذیبیں اپنی جگہ، ہم سندھ کی تہذیب والوں کو دھرتی کی محبت راس بھی بہت آئی۔ اٹھارہویں صدی کے شروع تک ہم چین کے ساتھ مل کر دنیا کی معیشت کا ستر فیصد حصہ بناتے تھے۔ ہم ہر موسم اور ہر گھٹا سے سرگوشی کرتے تھے۔

جاڑوں میں گھروں میں پکوان پکاتے، بسنت کے ساتھ بہار کی آمد کے گیت گاتے، بیساکھ میں میلے سجاتے، ساون میں درختوں پر جھولے ڈالتے، خزاں میں گنے کے رس سے گڑ کی ڈھیلیاں کھاتے گیت سناتے۔ ہمارے تہوار تھے، پکوان تھے، میلے تھے، دھمال تھی، رقص تھا، سرکس، کُشتی کے اکھاڑے، ڈیرے، اڈے، چوپالیں، بسنتیں، پٹھو گول گرام، ککلی کلیر دی، اور نہ جانے کیا کیا۔

پھر آبادی نے شہروں کا رخ کیا اور شہروں نے ویرانی کا۔ ہم قافلے بنا کر گھر سے کیا نکلے، ایک ایک کر زادِ راہ کھوتے گئے۔ موسم کے تہوار جو ہزاروں سال سے ہماری ریت کا حصہ تھے، ایک ایک کر کے ہمارے معاشرے سے غائب ہوتے چلے گئے۔ جنہوں نے وہ بہاریں دیکھی تھیں وہ سب کے سب چلے گئے، جنہوں نے کہانیاں سنی تھیں وہ باقی رہ گئے ہیں۔

پچھلے دنوں اسکردو میں مے فنگ کا جشن دیکھا تو بہت خوشی ہوئی۔ وادئ سندھ کی تہذیب کے 'فوسل' اب یا تو دور دراز کے دیہات میں ملتے ہیں یا گلگت بلتستان کے شہروں میں۔ مے فنگ اس زمانے کا تہوار ہے جب اس علاقے میں بدھ مت کا غلبہ تھا۔

— فوٹو قاسم بٹ
— فوٹو قاسم بٹ

— ویڈیو قاسم بٹ

یہ تہوار 21 دسمبر کو منایا جاتا ہے جب سال کا مختصر ترین دن ہوتا ہے۔ یہ دن سردیوں کی شکست اور نئے سال کی آمد کی نشانی ہوتا ہے۔ دنیا میں لوگ اسے لوسر کے نام سے جانتے ہیں لیکن یہاں کے لوگ اسے مے فنگ ہی کہتے ہیں۔

اس دن لوگ گلیوں میں نکلتے ہیں اور آگ لہراتے ہیں۔ آگ جو سردی کی شکست کا اعلان ہے۔ بعض لوگ اسے دامادوں کا علاقائی دن بھی کہتے ہیں۔ کچھ لوگوں کو اس کی شرعی حیثیت پر اعتراض ہے، کچھ لوگوں کو یہ شور شرابا لگتا ہے مگر ابھی بھی لوگوں کی رگوں میں اسلاف کا خون باقی ہے۔ مے فنگ ہر سال اب بھی تھوڑی بہت خوشیاں دے جاتا ہے۔

— فوٹو قاسم بٹ
— فوٹو قاسم بٹ

— فوٹو قاسم بٹ
— فوٹو قاسم بٹ

ایک تہوار نوروز بھی ہے، یہ بہار کی آمد کا تہوار ہے۔ پارسیوں کا مقدس ترین دین۔ عیسائیوں، بدھوں، یہودیوں اور دنیا کے بشتر مذاہب میں اس دن کو اہم حیثیت حاصل ہے۔ 21 اپریل کو آنے والا یہ اہم دن، دن اور رات کے برابر ہونے، بہار کی آمد اور نئی فصلوں کے آغاز کا دن سمجھا جاتا ہے۔

اس دن کا تہوار گلگت بلتستان میں بھی زندہ ہے اور کراچی کے بہت سارے پارسی گھروں میں بھی۔ اس دن وہ صاف ستھرے کپڑے پہنتے ہیں، صفائی کرتے ہیں اور ایک دوسرے کو زندگی اور اس سے جڑی ہر خوشی کی مبارک باد دیتے ہیں۔

پڑھیے: افغانستان میں نوروز کا جشن

بچپن میں ہم نے یہ دن انڈوں کو رنگ کرتے اور انہیں ٹکراتے گزارا ہے۔ جوان ہوئے ہیں تو شور مچا ہے کہ یہ ایرانیوں کا علاقائی تہوار ہے۔ کیا ہمارا اس سے کوئی تعلق نہیں؟ کیا آپ اردو شاعری سے نوروز، آب نیساں اور وہ سارے حوالے نکال سکتے ہیں جو جمشید اور اس کی فتوحات سے تعلق رکھتے ہیں؟ یہ کون سا پیمانہ ہے جو ہر بے ضرر اور معصوم دن کو فتوے کے پتھروں سے تول کر رد کر دیتا ہے۔ یہ کون سا عدسہ ہے جو مغربی موسموں کو سر آنکھوں پر اور اپنی رتوں کو بے گانگی بخشتا ہے؟

ہم سے ہمارے یہ سارے رنگ کچھ تو اس رت نے چھین لیے ہیں جو پوری دنیا کو گلوبل ولیج کے نام پر ایک رنگ کے لباس میں پینٹ کرنا چاہتی ہے اور کچھ رنگوں کے قاتل وہ نظریے ہیں جو موسموں سے دشمنی کسی فکری اختلاف کی بنیاد پر کرتے ہیں۔

مگر چاہے وجہ کوئی بھی ہو، حقیقت یہی ہے کہ اب ہم جس دور میں منتقل ہو چکے ہیں اس میں ان تہواروں کا باقی رہنا اتنا ہی مشکل ہو چکا ہے جتنا کہ برقی مواصلات آنے کے بعد خطوط کا۔ چند لوگ اب بھی اپنی روایت پر قائم تو ہیں، مگر مقابلہ سخت ہے اور جان عزیز کے مصداق آخر کار ٹیکنالوجی کے آگے جھکتے ہی بنتی ہے۔

ایک مشہور ریڈ انڈین سردار نے ایک دفعہ کہا تھا کہ جس دن آخری درخت کاٹا جا چکا، آخری مچھلی کھائی جاچکی اور آخری دریا کا پانی زہر آلود ہو چکا اس دن لوگوں کو پتہ چلے گا کہ صرف پیسے نہیں چبائے جاسکتے۔

لاہور کے آسمان تو پھیکے ہو گئے، دیکھیں میے فنگ کی آگ کب تک جلتی رہتی ہے؟

تبصرے (0) بند ہیں